مسلمانانِ عالم، عرب دنیا اور مشکلات کے اسباب: ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

0

ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

عالم عربی خاص طور سے ارضِ حجاز اور موجودہ سعوی عرب کو چونکہ مہبطِ وحی اور اسلام کا قلب ہونے کا شرف حاصل ہے اس لئے عام طور پر ایک جذبہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے دلوں میں پیدا ہوجاتا ہے کہ کاش جب کبھی وہ مسائل میں گھر جائیں یا دین و عقیدہ کی بنیاد پر ان کے ساتھ ظلم و نا انصافی کا رویہ برتا جائے تو مسلم ممالک اور خاص کر قدرتی وسائل سے مالا مال عرب دنیا ان کے ساتھ کھڑے ہوں، ہمدردی کا اظہار کریں اور جو ممالک ان کے ساتھ نا انصافی اور بھید بھاؤ سے کام لیتے ہیں بلکہ اس سے بڑھ کر ان کی مذہبی آزادی پر پابندی لگادیتے ہیں اور ان کی عبادت گاہوں کے ساتھ ساتھ ان کے گھروں اور جان و مال تک کو تباہ و برباد کر دیتے ہیں اور ان کی خواتین اور بچیوں کی عصمتیں تار تار کرتے ہیں اور صرف اسلامی عقیدہ پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے ان پر مظالم کا سلسلہ دراز کر دیتے ہیں، تو ایسی حالت میں وہ توقع کرنے لگتے ہیں کہ عرب دنیا ایسے ممالک کے لیڈران کے ساتھ بات چیت کریں اور ان پر دباؤ بنائیں کہ وہ اس قسم کا برتاؤ مسلمانوں کے ساتھ روا نہ رکھیںاور انہیں بے خوف ہوکر امن کے ماحول میں اپنے مذہب پر عمل کی اجازت دی جائے اور ان کے لئے مسائل پیدا نہ کئے جائیں۔ دنیا بھر کے مسلمانوں میں یہ جذبہ اس لئے ابھر تا ہے کیونکہ انہوں نے اسلامی تاریخ اور خاص کر عہد نبوی اور خلفاء راشدین کے عہد کی غیرت ایمانی کے واقعات کی بنیاد پر یہ سمجھ لیا ہے کہ چونکہ اس امت کا رشتہ باہم مربوط ہے اور اس کی ہر کڑی کی حفاظت ضروری ہے تاکہ امت کی وحدت کا شیرازہ نہ بکھر جائے۔ مسلمانانِ عالم کے سامنے بالکل ابتدائی اسلامی تاریخ کے واقعات بھی نظر میں گھوم جاتے ہیں، جب ہر مسلمان خواہ وہ غریب ہو یا امیر، کمزور ہو یا طاقت ور اس فکر اور عملی التزام کے ساتھ جیتا تھا کہ ان کا مقصد اور منزل ایک ہے۔ انہیں ایک الٰہی پیغام کے تحت اس دنیا میں بھیجا گیا ہے، جس کا مقصد پوری انسانیت میں بھلائی کو پھیلانا ہے اور خود اپنی اور دوسروں کی بھلائی اور ترقی کے لئے متحد ہو کر کام کرنا ہے۔ اسی مقصد کے تحت طویل اسلامی تاریخ میں مسلمانوں کا عمل بھی جاری رہا۔ وہ الگ الگ خطوں اور براعظموں میں پھیلے ضرور ہیں، لیکن ان کے مقصد کی وحدت میں کوئی فرق نہیں آیا۔ وہ ہمیشہ اس پیغام پر عمل پیرا رہے کہ انہیں جہاں ایک طرف اپنے ایمان و عقیدہ کی حفاظت ایک متحد قوت کے طور پر کرنی ہے، وہیں اس قرآنی تعلیم کو بھی پیش نظر رکھنا ہے کہ ان لوگوں اور اقوام کے ساتھ بھی انصاف برتا جائے، جن کا عقیدہ اسلام سے مختلف ہے۔ کیونکہ اسلام نے ہر شخص کو اس بات کا حق دیا ہے کہ وہ اپنے عقیدہ و فکر پر آزادی کے ساتھ گامزن رہے اور اسلامی نظام کے اوپر یہ ذمہ داری عائد کی ہے کہ وہ ایسے لوگوں کے عقیدہ، عبادتگاہوں اور ان کی مقدس شخصیات اور مذہبی رہنماؤں کی حفاظت بھی کرے۔ مسلمانوں نے اپنی پوری تاریخ میں اس سے سرِ مو انحراف گوارہ نہیں کیا ہے۔ اسی لئے ایک مسلمان کی یہ جائز خواہش ہوتی ہے کہ ان کے ساتھ بھی اسی فراخ دلی کا مظاہرہ کیا جائے اور بین الاقوامی قانون کی روشنی میں ان کے ساتھ انصاف کیا جائے۔ لیکن اگر ان کے ساتھ انصاف کا معاملہ نہ کیا جا رہا ہو تو پہلی ذمہ داری تو عالمی برادری پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اس ظلم کے خلاف نہ صرف احتجاج کرے بلکہ اس بات کو یقینی بنائے کہ آئندہ اس طرح کے واقعات رونما نہ ہوں۔ البتہ اگر غیر مسلم ممالک اپنے سیاسی، اقتصادی، عسکری یا ثقافتی و تہذیبی اسباب کی بناء پر ایسے اقدامات کرے تو کم سے کم مسلم دنیا پر تو یہ ذمہ داری عائد ہی ہوتی ہے کہ وہ اس قسم کے مظالم کے خلاف متحد ہوکر آواز بلند کرے اور مسلمانوں کے عقیدہ و فکر اور جان و مال کی حفاظت کے لئے دباؤ بنائے، تاکہ ان کے لئے سکون کی زندگی جینا ممکن ہو سکے۔ ورنہ پھر مسلم ممالک کے جتھہ او آئی سی جیسی عالمی تنظیم کا کیا فائدہ؟ لیکن کیا ایسا ہوتا ہے؟ اور اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو اس کے کیا اسباب ہو سکتے ہیں؟ بنیادی طور پر ایسا اس لئے نہیں کیا جاتا کیونکہ ہم جس عہد میں جی رہے ہیں وہ نیشن اسٹیٹ کا عہد کہلاتا ہے۔ یہاں فکری وحدت اور عقیدہ کی اہمیت اسی وقت تک رہتی ہے جب تک اس کا معاملہ کسی بھی ملک کے حدود تک محدود رہے۔ اگر کوئی ملک دوسرے ملک میں بسنے والے اپنے ہم مذہب پر ہو رہے مظالم کے خلاف آواز اٹھائے گا تو اس کو داخلی امور میں مداخلت کا نام دے کر مسترد کر دیا جائے گا۔ دوسری بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ چونکہ مسلم اور عرب ممالک کا اپنا ریکارڈ ہی انسانی حقوق کے معاملہ میں اس قدر خراب ہوتا ہے کہ وہ نہیں چاہتے کہ وہ کوئی ایسا بیان دیں جس کی وجہ سے خود ان کی اپنی کوتاہیوں کی طرف دنیا کی توجہ مبذول ہوجائے اور ان پر انگشت نمائی ہونے لگے۔ تیسری بڑی وجہ یہ ہے کہ چونکہ مسلم دنیا عموماً اور عرب دنیا خصوصاً اپنے ثروت کے انبار کے باوجود عالمی نقشہ پر ایک کمزور کڑی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ اپنے ممالک کو علم و دانش اور تحقیق و ترقی کے اس درجہ تک پہنچانے میں بری طرح ناکام رہے ہیں جہاں سے وہ دنیا کے لئے جزء￿ لاینفک بن سکیں اور جن کا ایسا وزن قائم ہو کہ اس کی وجہ سے ان کی باتوں کو نظر انداز کر پانا ناممکن ہوجائے۔ اس کے برعکس یہ ہوا ہے کہ اپنے تخلف اور پچھڑے پن کی وجہ سے مسلم اور عرب ممالک کا انحصار دیگر ترقی یافتہ ممالک پر بہت بڑھ گیا ہے۔ ان ممالک میں مغربی اور ایشیائی دونوں شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے وہ کبھی امریکہ میں جا گرتے ہیں تو کبھی روس اور چین کے حلقہ اثر میں آ جاتے ہیں۔ اب چونکہ مسلم اور عرب ممالک اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ اپنے مفادات کا دفاع کر پائیں تو ایسی صورت میں وہ خود اپنے مفادات کی حفاظت کے لئے دنیا کی مضبوط قوتوں کے پلّو سے بندھے رہنے میں عافیت محسوس کرتے ہیں اور مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں پر نہ صرف خاموش رہتے ہیں بلکہ ان قوتوں کے ساتھ اپنا رشتہ بہتر سے بہتر کرنا چاہتے ہیں، جن کے ساتھ ان کے اقتصادی یا عسکری مفادات وابستہ ہوتے ہیں۔ اس حقیقت کو سمجھنے کے لئے قارئین کے سامنے ایغور مسلمانوں کے واقعہ کو پیش نظر رکھ سکتے ہیں۔ ایغور کے ساتھ چین کا جو برتاؤ رہا ہے اور تا ہنوز جاری ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ اس کے خلاف مغربی ممالک نے اپنے خاص مفادات کے پیش نظر اپنی آواز مسلسل بلند کی ہے، لیکن کسی مسلم یا عرب ملک نے نہ صرف اس پر کوئی ٹھوس موقف اختیار نہیں کیا بلکہ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے اپنے دورۂ چین کے موقع پر چینی حکومت کے موقف کی حمایت کی۔ اسی طرح ہندوستان میں جو طبقہ نریندر مودی کو اپنا ہیرو اور آئیڈیل مانتا ہے اور ان کا نام لے کر مسلمانوں کو قتل کرتا ہے اور مساجد کو اپنے حملوں کی زد پر رکھتا ہے ان کے ساتھ بھی عرب ممالک کا رویہ ایسا رہا ہے، جس سے مسلمانوں کی دل آزاری ہوتی ہے۔
ہندوستانی مسلمان ہمیشہ یہ چاہتا ہے کہ اس ملک کے تعلقات دنیا کے تمام حصوں سے مضبوط رہے اور خاص طور سے عرب اور مسلم دنیا سے اس کے اچھے مراسم قائم رہیں، لیکن جب نریندر مودی جیسے لیڈران کو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور مصر اپنے سب سے اعلی قومی امتیازات سے نوازتے ہیں تو ہندوستانی مسلمان حیرت زدہ ہوجاتے ہیں کہ آخر اس اکرام و تعظیم کی کوئی ضرورت بھی تھی؟ اس کے بغیر بھی بطور وزیر اعظم ان کا استقبال کیا جا سکتا تھا اور باہمی تعلقات کو بہتر بنایا جا سکتا تھا۔ یہی اعزاز اگر سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ یا خود اٹل بہاری واجپائی کو دیا جاتا تو شاید تکلیف کا باعث نہیں ہوتا۔ اچھی بات یہ ہے کہ اب ہندوستان اور دنیا کے مسلمان بھی اس حقیقت کو سمجھنے لگے ہیں کہ یہ عرب ممالک اپنے جغرافیائی حدود تک سمٹے رہنے اور اسی دائرہ میں سوچنے کے عادی ہو چکے ہیں اور اسلام کے آفاقی پیغام اور امت کے مسائل سے ان کو کوئی خاص دلچسپی نہیں رہ گئی ہے۔ وہ یہ بات سمجھ گئے ہیں کہ جن عرب ممالک کو بیت المقدس اور فلسطینی عوام کے دکھ درد سے کوئی خاص واسطہ نہیں بچا ہے وہ بھلا دنیا کے مسلمانوں کا غم اپنے گلے میں کیوں باندھیں گے۔ اس لئے دنیا اور ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے لازم ہے کہ وہ اس حقیقت کو واضح طور پر قبول کر لیں کہ آپ کے مسائل کا حل آپ کو اپنی سر زمین کے اندر ہی رہ کر حل کرنے کا سلیقہ سیکھنا ہوگا۔ اسی ملک عزیز میں ایسے انصاف پسندوں کی کمی نہیں ہے جو مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں اور ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے مظالم کے خلاف اپنی آوازیں بلند کرتے ہیں۔ ان آوازوں کو مزید قوت عطا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم انصاف پسند ہندوؤں، سکھوں اور قبائلی طبقوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنائیں اور ایک ایسا ہندوستان تیار کریں جس میں نفرت کے بجائے محبت و خیر سگالی کی فضا ہموار ہو سکے۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS