مفتی منظور ضیائی
اسلام ایک ہمہ گیر اور آفاقی دین ہے،اس کی تعلیمات انسان کی پوری زندگی پر محیط ہیں اور یہ زندگی کے ہر پہلو، ہر لمحہ اور ہر موضوع کی اس خوب صورتی سے وضاحت کرتا ہے کہ قدم بہ قدم پر رہ نمائی ملتی ہے اور اسلامی اسٹرکچر و انفراسٹرکچر کی اندرونی و بیرونی ساخت انتہاپسندی، دہشت گردی اور تشدد پسندی کے جراثیم اور اس کی آمیزش سے بالکل محفوظ ہے گویا یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ اسلام ایک امن پسند، فطرت سے ہم آہنگ اور قدرتی مظاہر سے بھرپور مذہب ہے اس کی نرم پالیسیوں، انسانیت کے احترام اور ایسی بنیادوں اور طریق کار کی بنا پر ہے جس میں بنی نوع انسان کے حقوق کو تحفظ ملتا ہے۔ اسے دینِ انسانیت کہا جاتاہے اور اس کی پوری تاریخ انسانیت کے احترام ان کے حقوق کی رعایت اور انسانی اقدار کی حفاظت سے معمور ہے۔ اس کا ہر منشور دہشت گردی، فساد فی الارض اور انسانی طبقات کی ایذا رسانی کی سراسر مخالفت کرتا ہے اور ایسا کرنے والوں کو مجرم اور شرعی حدود و تعزیرات کا سزاوار ٹھہراتا ہے پھر بھی اس مفروضے کا عام ہونا کہ اسلام دہشت گردی اور انتہا پسندی کا سبق دینے والا اور اس کی پذیرائی کرنے والا، متشدد اور سخت گیر مذہب ہے تو یہ انسانی دنیا کے لئے باعثِ شرم ہے اور پوری دنیا میں اگر اس مفروضے کو حقیقت کے شاکلہ میں عام کیاجارہا ہے تو وہ سچی انسانیت کا کھلواڑ اوراس کی صداقت پسندی کا کھلا مذاق ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انسانی دنیا اخلاقی طورپر اس پست ترین مقام تک پہنچ گئی ہے کہ جہاں جھوٹ کو سچ سمجھنا عام بات ہوگئی ہے! در اصل دین اسلام کی عالمگیر اور آفاقی خوبیوں اور محاسن کی بنا پراس کے دشمنان اور حاسدین روزِاول سے اس کے خاتمے کے لئے کوشاں ہیں، یہی وجہ ہے کہ قتل و غارتگری کا نام جہاد سے موسوم کر رہے ہیں اور کچھ دہشت گرد، شدت اور شر پسند عناصر جیسے داعش اور بوکو حرام جیسی دہشت گرد تنظیموں سے تعلق رکھنے والے نہ صرف جہاد اور اسلام سے متعلق گمراہ کن پروپیگنڈے کررہے ہیں بلکہ مقدس جہاد کے اصل مفہوم کو ہی مسخ کر کے اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ خراب کرنے کی سعی میں ملوث ہیں۔ اس سے مسلمانوں کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے اس پرفتن دور میں جہاد کے نام سے جو مہم دہشت گردوں کے ذریعہ چلائی جارہی ہے وہ قطعی اسلامی تعلیمات سے مطابقت نہیں رکھتی ہے۔ اس کے باوجود آج جہاد کے نام پر بے قصوروں کی قتل و غارتگری کو دہشت گرد تنظیمیں اور داعش صحیح قرار دیتی ہیں جو سراسر گناہ عظیم ہے اور اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ جہاد کا قطعی یہ مفہوم نہیں ہے کہ کسی بے قصورکو ناحق قتل کیا جائے کیونکہ اسلام میں ایک انسان کا قتل ساری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔ اور یہ بھی واضح رہے کہ اسلام میں جہاد کی دو قسمیں جہاد اکبر اور جہاد اصغر ہیں، ان دونوں میں کہیں بھی بے قصوروں کے قتل و غارتگری کا پیغام نہیں دیا گیاہے بلکہ اصل جہاد تو اپنے نفس سے جہاد قرار دیا گیا ہے جسے صحیح معنوں میں روحانی جہاد کہا جاسکتا ہے۔ جہاد کے لفظی معنی جدوجہد کرنا کسی کام کیلئے کوشش کرنا ہے لیکن آج مقدس جہاد کے معنی و مفہوم کو ہی دہشت گردوں نے تبدیل کر رکھا ہے جو اسلام ہی نہیں بلکہ انسانیت کیلئے بھی خطرناک ہے یہی وجہ ہے کہ آج پوری دنیا میں جہاد کی غلط تشریح کر کے مسلمانوں اور اسلام کو بدنام کر نے کی سازشیں کی جارہی ہیں۔ مسلمانوں کو جہاد سے متعلق غلط فہمیوں کو دور کرنا وقت کا تقاضا ہے،کیونکہ غلط تشریح کی وجہ سے اکثر نوجوانوں کو گمراہ کرنے میں یہ دہشت گرد کامیاب ہوجاتے ہیں اور اس کے منفی اثرات مسلمانوں پر پڑتے ہیں اور سارے مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے اور یہ بات سبھی کو معلوم ہونی چاہیے کہ جان و مال، عزت و آبرو کی حفاظت اور تمباکو نوشی، شراب نوشی، بد عنوانی اور تشدد سے دوری اور محتاجوں کی خدمت اور مدد کا نام جہاد ہے اور محسنِ انسانیت حضرت محمد ﷺ کے ذریعے جہاد کر نے کا حکم نامہ جاری کرنا اس لیے تھا کیونکہ شر پسند عناصر کے ظلم و زیادتی کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں کے دین و مذہب، جان و مال اور عزت و آبرو وغیرہ پر خطرات کے بادل منڈلا رہے تھے۔ لیکن آج صورتحال اس سے بالکل مختلف ہے کیونکہ تمام ممالک کی سربراہی بادشاہوں اور سیاسی رہنمائوں کے زیرِ اثر ہے اور قوانین بھی تشکیل دئیے گئے ہیں اس لئے اس وقت انفرادی طور پر یا کوئی تنظیم بنا کر جہاد کا اطلاق ممکن نہیں ہے ۔
قرآنی آیت سے یہ واضح اشارہ ملتا ہے کہ جہاد خدا کی راہ میں جدوجہد یا معرکہ آرائی کرنا ہے اس کا مطلب تشدد کرنا، دہشت پھیلانا ہرگز نہیں ہے اور روزانہ کی جدوجہد بھی جہاد ہے ایک اچھے مسلمان بننے کی کوشش کرنا بھی جہاد اور جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بے قصوروں کو موت کے گھاٹ اتارنا جہاد ہے ہر گز ایسا نہیں ہے بلکہ یہ مقدس جہاد کو بدنام کرنا ہے اور مسلمانوں کے لیے مسائل کھڑے کرنا ہے اور ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کو خطرے میں ڈالنا ہے۔ آج وقت کی ضرورت ہے کہ روحانی جہاد پر توجہ دی جائے جو نفس کو برائیوں سے بچانے اور غریبوں، محتاجوں اور پریشان حال لوگوں کی مدد کی جانب قائل کرتا ہے جو مسلمان تعلیمی اداروں میں غریبوں کی تعلیم کا انتظام کر تے ہیں اور ضرورت مندوں کی داد رسی کر تے ہیں وہ بھی جہاد کے زمرے میں ہی شامل ہیں، فلاحی سر گرمیوں میں رہ کر عوام اوریتیموں، بیواؤں اور پریشان حال عوام کی مدد کرنا بھی جہاد ہے، قرآن سیکھنا اور سکھانا دینی علوم کو عام کرنا، غصہ لالچ، تکبر، بغض جیسی چیزوں پر قابو پانا بھی جہاد ہے۔ اس کے ساتھ تمبا کونوشی ترک کرنا، مسجد کے فرش کی صفائی کرنا، مسلم معاشرتی سر گرمیوں میں حصہ لینا، سماجی انصاف اور برابری کیلئے کام کرنا بھی ایک طرح کا جہاد ہی ہے۔ کسی کو معاف کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل ہے، ایسے شخص یا انسان کو معاف کرنا جو آپ کو تکلیف دیتا ہے سب سے اہم اور اعلیٰ ظرفی ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اپنے دشمنوں تک کو معاف کردیا یہی صحیح اسلام اور اصل جہاد ہے۔
روحانی جہاد مقدس جنگ سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے، اسی پر عمل کرکے اولیاء کرام نے پوری دنیا میں غیر مسلموں کے درمیان اسلام کو پھیلایا جہاد معاشرے سے غلطیوں کے خاتمہ اور مثالی معاشرے کی تعبیر بھی ہے جہاں پر ہر شخص خوشی اور احترام کے ساتھ زندگی گزار سکے ،جہاد لوگوں کی جانوں کے تحفظ کیلئے ہونا چاہیے نہ کہ ان کی خوشی اور سکون کو محروم کر نے کیلئے، ان کے گھروں کو تباہ و برباد کرنا قطعی جہاد نہیں ہے بلکہ بھوکے لوگوں کو کھانا مہیا کرنا جو روزانہ کھانے کی کمی کی وجہ سے بھکمری کا شکار ہوتے ہیں اور پھر بغیر کھانے کے ہی لقمہ اجل ہوجاتے ہیں یہ بھی جہاد ہے اور اسلامی تعلیمات کے مطابق قتل، انتقام، بدلہ، تشدد، تحریف، تشدد اور ہجومی تشدد کی سخت ممانعت ہے۔ خود ساختہ جہاد کو اختیار کر نے کے بجائے حقیقی جہاد کو سمجھنا زیادہ ضروری ہے۔جیسا کہ ارشادِ باری تعالی ہے کہ ’اے مومنوں پورے طور پر اسلام میں داخل ہوجاؤ اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو، بے شک وہ تمہارا حریف دشمن ہے، یہ قرآنی آیت تمام مسلمانوں کو پوری طرح سے اسلام کو سمجھنے کی ترغیب دیتی ہے اور نبی کریمﷺ کی تعلیمات اور ہدایات پر عمل کرنے کی دعوت دیتی ہے اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلامی تعلیمات نے ہمیشہ اس بات کی تلقین کی ہے کہ روحانی جہاد اسلحہ اٹھانے سے زیادہ اہم ہے اور روحانی جہاد زندگی میں خوشی اور سکون کو یقینی بناتا ہے اور اسلحہ اٹھانا امن و ہم آہنگی کے بجائے لوگوں کو تکلیف اور نقصان و گزند سے پہنچاتا ہے۔ نفرت انگیز دنیا میں امن وامان و ہم آہنگی کو یقینی بنانا نہ صرف اسلام کی شبیہ کو بہتر بنائے گا بلکہ عوام میں جہاد کے حقیقی معنی کو بھی عام کرے گا۔ اسلام میں جس طرح سے قتل و غارتگری کی ممانعت ہے اسی طرح سے سب سے بہترجہاد انسانیت کی خدمت ہے یہ بھی بتایا گیا ہے۔
چیئرمین علم و ہنر فاؤنڈیشن، ممبئی
Bahut hi umda haqiqat bayan ki hai Hamari poori administration aap ke sath hai
Comments are closed.