تیرے بن لادین ۔ (فلمی تبصرہ)

0

تیرے بن لادین (فلمی تبصرہ)

 

امام علی مقصود فلاحی ۔

 

متعلم: جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن ،

مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد ۔

 

تیرے بن لادن فلم 16/جولائی 2010 ہندوستان میں منظر عام پر آئی۔

تیرے بن لادن فلم بنیادی طور پر 9/11 کے بم دھماکوں کے بعد بنائی گئی ایک طنزیہ کامیڈی ہے۔ تصدیق شدہ واقعات کے مطابق اس فلم کا تصور اس وقت آیا جب سر میں شدید درد کی وجہ سے ابھیشیک شرما نے درد کو کم کرنے کے لیے ماتھے پر کپڑا لپیٹ لیا جس پر کسی نے تبصرہ کیا کہ وہ ‘اسامہ بن لادن’ سے مشابہت رکھ رہے ہیں۔ اسی وقت سے ابھیشیک شرما کو فلم کا ابتدائی مسودہ لکھنے کا خیال آیا۔

اس فلم کے ڈائریکٹر و رائٹر ابھیشیک شرما ہیں جو کہ ایک ہندوستانی فلمی ڈائریکٹر اور رائٹر ہیں، جو ہندی فلموں میں اپنے کاموں کے لئے مشہور و معروف ہیں۔ اس فلم کی مکالمہ نگاری (ڈائیلوگ) محمد احمد اور اداکاری علی ظفر نے کی ہے۔

اس فلم میں علی ظفر نے علی حسن کا رول ادا کیا ہے اور علی ظفر ایک پاکستانی گلوکار، نغمہ نگار، اداکار اور ڈائریکٹر ہیں،

پردھو مان سنگھ نے نورا (اسامہ بن لادن) کا رول ادا کیا ہے، اور پردھو مان سنگھ ایک ہندوستانی اداکار ہیں، سوگندھا گرگ نے زویا خان کا کردار ادا کیا ہے اور سوگندھا گرگ ایک ہندوستانی ادا کارہ ہیں۔ اس فلم میں شنکر احسان لوئے نے موسیقی دی ہے۔ پوجا شیٹی دیورا اور آرتی شیٹی نے فلم کو پروڈیوس کیا ہے۔

 

 

اس فلم کے عملے نے پاکستان کے جگہوں ملبوسات اور زبان کو جتنا ممکن ہو سکے حاصل کرنے کی کوشش کی ہے، کیونکہ اس فلم میں اسامہ بن لادن کا کردار ادا کیا گیا ہے، جن کا آخری وقت پاکستان ہی میں گذرا تھا اور انتقال بھی پاکستان ہی میں ہوا تھا۔ اسی فلم کی شوٹنگ پاکستان میں سکیورٹی خطرات اور سخت قوانین کی وجہ سے ممبئی اور حیدرآباد کے ان علاقوں میں کی گئی ہے جو کراچی سے مشابہت رکھتے تھے۔ اس فلم میں اسامہ بن لادن کا کردار ادا کیا گیا ہے ، وہی لادن جنکا اصل وطن عرب تھا، جنکی پیدائش سعودیہ عرب تھی، لیکن آخری وقت پاکستان میں گذرا تھا جو کہ القاعدہ تنظیم کے پہلے جنرل امیر بھی تھے‌۔

 

اسامہ بن لادن کو دکھانے کی وجہ:

علی حسن ڈانکا ٹی وی کے رپورٹر ہوتے ہیں، جو کہ کراچی پاکستان میں ایک مقامی ٹی وی چینل ہے۔ علی حسن ایک بہترین زندگی کے خواہش مند ہوتے ہیں جس میں پیسہ اور خوشحالی ہو جس کے لئے وہ امریکہ میں جاکر کسی ٹی وی چینل میں کام‌ کرنے کے خواہاں ہوتے ہیں، کئی بار کی کوششوں کے بعد ایک بار انہیں امریکہ جانے اور کسی ٹی وی چینل میں کام کرنے کا موقع ملتا ہے، اسی لئے وہ پوری تیاری کے ساتھ امریکہ کے لئے روانہ ہو جاتے ہیں یہ سوچ کر کہ وہاں جاکر کسی نیوز چینل میں کام کریں گے جس کے لئے وہ انکرنگ (نیوز ریڈر) کی مشق جہاز میں بیٹھے بیٹھے کرتے رہتے ہیں، اسی مشق کے دوران وہ ہائی جیک اور بم کے الفاظ کئی مرتبہ دہرا دیتے ہیں، جس کی وجہ سے سارے مسافر اور جہاز کا عملہ خوف زدہ ہو جاتا ہے اور جہاز ہی میں توتو میں میں ہو جاتی ہے پھر جیسے ہی وہ امریکہ پہنچتے ہیں انہیں واپس کر دیا جاتا ہے اور انکا ویزا رد کردیا جاتا ہے۔

مزید برآں ان کے ویزا کی درخواست سات سالوں میں چھ مرتبہ مسترد کر دی جاتی ہے، جس کی وجہ سے وہ بہت نا امید ہو جاتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ وہ اس چھوٹے سے علاقے میں چھوٹے سے چینل میں کام کر کے کیا کر پائیں گے؟

 

لیکن ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ پاکستان ہی میں کسی مقامی پروگرام کے کوریج کے لیے روانہ ہوتے ہیں اور ویڈیو شوٹنگ کرتے ہیں، اسکے بعد جب وہ ویڈیو ایڈیٹنگ کے لئے بیٹھتے ہیں تو اس میں ایک ایسا شخص نظر آتا ہے جو دکھنے میں بالکل اسامہ بن لادن کی طرح ہوتا ہے جسے دیکھ کر علی حسن حیران و پریشان ہو جاتے ہیں کیونکہ اس وقت اسامہ کا چرچا ہوتا ہے کہ امریکہ نے اسامہ کو مار دیا ہے۔

 

 

اسکے بعد علی حسن اس شخص کو تلاش کرنے کے لئے اسی علاقے میں جاتے ہیں جہاں ویڈیو کی شوٹنگ کی گئی تھی، پھر اس علاقے میں جہاں بھی جاتے ہیں اور لادن کی اصل فوٹو دکھا کر جس سے بھی سوال کرتے ہیں تو لوگ علی حسن پر ہنستے ہیں اور دھتکار دیتے ہیں۔ آخر میں وہ شخص مل ہی جاتا ہے جس کی تلاش ہوتی ہے جس کا اصل نام نورا چاچا ہوتا ہے اس حال میں کہ وہ مرغے اور مرغیوں کی دیکھ بھال کرتا رہتا ہے۔

اس کے بعد علی حسن اسے بہلا کر اور اور پیسوں کی لالچ دے کر اس سے ایک ویڈیو بنوانے کی خواہش ظاہر کرتے ہیں اور وہ نورا نامی شخص جو دکھنے میں لادن کی طرح ہوتا ہے، راضی ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد علی حسن اس جعلی اسامہ بن لادن کو اصل اسامہ بن لادن کی شکل دے کر ایک ویڈیو شووٹ کرتے ہیں جو کہ سنسنی خیز ہوتی ہے، جسے امریکہ دیکھ کر ہلنے والا ہوتا ہے، جس میں وہ جعلی اسامہ بن لادن امریکہ کہ وارننگ دیتا ہے اور ان کو آگاہ کرتا ہے کہ میں ابھی بھی حیات ہوں۔ ویڈیو تیار ہونے کے بعد علی حسن اس ویڈیو کو ایک بڑے ٹی وی چینل والے کو دس لاکھ میں فروخت کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ رات ہی رات میں رئیس ہو جاتے ہیں۔

 

اس فلم کو دیکھنے سے یہ پتہ چلا کہ جب انسان کسی چیز کے بارے میں ٹھان لیتا ہے اور اس پر ثابت قدم بھی رہتا ہے تو اسے وہ چیز حاصل ہو ہی جاتی ہے جیسا کہ علی حسن اپنی بہتر زندگی امریکہ گئے بغیر پاکستان کے ایک چھوٹے سے علاقے میں بنا لیتے ہیں۔ اس فلم سے دوسری بات یہ بھی عیاں ہوتی ہے کہ کسی بھی چیز کو حاصل کرنے کے لئے کچھ کھونا پڑتا ہے جیسا کہ علی حسن نے دس لاکھ حاصل کرنے کے لئے نہ جانے کتنے پیسے اس جعلی اسامہ بن لادن پر خرچ کئے تھے، پھر اسی طرح وہ شخص جس نے اس سنسنی خیز ویڈیو کی خریداری کی تھی اس نے بھی گھر کا سارا پیسہ (دس لاکھ) علی حسن کے ہاتھ میں دیکر اسی ویڈیو کو تیس لاکھ میں فروخت کرتا ہے۔

 

تیسری بات اس فلم سے یہ بھی عیاں ہوتی ہے کہ انسان کو کبھی بھی اپنے کاروبار سے مایوس نہیں ہونا چاہئے، کتنا ہی چھوٹا کارو بار کیوں نہ ہو کیونکہ وہی کاروبار اسے آسمان تک پہنچا سکتا ہے۔ آخری بات اس فلم سے یہ عیاں ہوتی ہے کہ دھوکہ دہی سے کمایا ہوا پیسہ خواہ وہ کتنا بھی ہو، آگے چل کر اس کا فقدان بھگتنا ہی پڑتا ہے جیسا کہ اخیر میں علی حسن اور جعلی لاین اور دیگر عملے پکڑے جاتے ہیں۔ اس فلم کو دیکھنے سے یہ پتہ چلا کہ اسامہ بن لادن سے امریکہ بہت خوف زدہ تھا۔

اسکے علاوہ اس فلم میں ایک نظارہ قدرے غلط لگا جسے نہیں کیا جاتا تو بہتر ہوتا وہ یہ کہ جس وقت نورا کا زویا خان میکپ کرتی ہے اس وقت اسکا آنچل سکر جاتا ہے اور لادن اس گھور کر دیکھنے لگتا ہے جو کہ اسامہ بن لادن کے شایان شان نہیں ہے۔ اسی طرح جعلی لادن کو مرغی فارم میں جو دکھا گیا ہے کہ وہ مرغیوں سے کھیل کود کر رہا ہے گویا کہ وہ پاگلوں والی حرکت کر رہا ہے وہ بھی نہیں دکھانا چاہیے تھا کیونکہ وہ کام اصل اسامہ بن لادن کے شایان شان نہیں ہے۔

 

Email: [email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS