مہاراشٹر میں آپریشن لوٹس

0

کشمیر سے کنیاکماری اور گجرات سے اروناچل پردیش تک بھگوا لہرانے کے خواب نے سیاست کے تمام مسلمہ اخلاقیات کوبدل کر رکھ دیا ہے۔ چال بازی، منافقت، دھوکہ، فریب، دولت اور طاقت کابے دریغ استعمال معمول بن چکاہے۔ گزشتہ 8 برسوں سے کئی بار یہ مشاہدہ ہوتارہا ہے کہ غیر بی جے پی حکمرانی والی ریاستوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی کسی نہ کسی راہ سے حکومت کو کمزور کرنے یا گرانے کی سازش کرتی رہی ہے، اس سازش کو کامیا ب بنانے کیلئے ہر حربہ استعمال کیاجاتا ہے، کہیں ایجنسیوں کاخوف دلایا جاتا ہے تو کہیں پیسوں کی برسات کی جاتی ہے اور کہیں کھلی غنڈہ گردی کاراستہ اپنا کر منتخب ارکان قانون سازیہ کو اغوا اور ان کے ساتھ مارپیٹ بھی کی جاتی ہے۔ ان تمام غیر اخلاقی، غیر اصولی اور غیر قانونی کام کو ‘ آپریشن لوٹس ‘ کا خوبصورت نام دے کر دامن کاداغ چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔حالیہ برسوں میں کرناٹک اور مدھیہ پردیش میں اس کی مثالیں دیکھی گئی ہیں، جہاں کانگریس کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے بعد بی جے پی نے اپنی حکومت بنائی۔ راجستھان میں بھی یہی کوشش کی گئی لیکن کانگریس کے گرگ باراں دیدہ وزیراعلیٰ اشوک گہلوت کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام پیدا نہیں ہوا۔
بی جے پی اب مہاراشٹر میں یہی ’آپریشن لوٹس‘ چلانے کی کوشش کر رہی ہے۔ جہاں شیو سینا- این سی پی -کانگریس اور مقامی سیاسی جماعتوں پر مشتمل مہاوکاس اگھاڑی کی مخلوط حکومت شیوسینا لیڈر ادھو ٹھاکرے کی قیادت میں قائم ہے۔ پہلے تو کوشش کی گئی کہ غیر بی جے پی جماعتوں کا اتحاد ہی قائم نہ ہو اور جب یہ قائم ہوگیا اوراس نے حکومت بنالی تو اس حکومت کو گرانے کی سازش کی جانے لگی۔ بھارتیہ جنتاپارٹی اوراس کی حامی سیاسی جماعتیں بارہاا س حکومت کی مختصر زندگی کی پیش گوئی بھی کرتی رہی ہیں۔ پیش گوئی کو حقیقت میں بدلنے کیلئے اس اتحاد کو توڑنے کی بھی باقاعدہ کوشش کی گئی۔ اتحاد کے لیڈروں اور ادھو حکومت کے وزرا کے پیچھے ایجنسیوں تک کو لگایاگیا، میڈیا ٹرائل چلایاگیالیکن بات نہیں بنی۔کئی بار اس اتحا د میں اختلافات بھی سامنے آئے لیکن بحران کی ہر گھڑی میںاتحاد میں شامل سیاسی جماعتیں ایک ساتھ کھڑی نظرآئیں اور ہر سازش کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ خطرات سنگین ہوگئے ہیں کیوں کہ شیو سینا کے سینئر لیڈر اور مہاراشٹر کابینہ کے وزیر ایک ناتھ شنڈے نے اپنے حامی ارکان اسمبلی کے ساتھ مل کر ’ بغاوت‘ کردی ہے۔ مہاراشٹر میں پیر کو قانون ساز کونسل کے انتخابات ہوئے اور اس میں بھی راجیہ سبھا انتخابات کی طرح کراس ووٹنگ ہوئی۔ جس کی وجہ سے مہاوکاس اگھاڑی اتحاد کے امیدواروں کو متوقع کامیابی نہیں ملی، جب کہ بی جے پی کے سبھی امیدواروں کو کامیابی ملی۔ الیکشن کے بعد ایک ناتھ شنڈے کہاں گئے، کچھ پتہ نہیں چلا، تب خبر آئی کہ وہ اپنے حامی ایم ایل اے کے ساتھ سورت میں ہیں اور پھرآج خبر آئی ہے کہ وہ آسام میں ہیں۔ اس دوران ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کامیاب نہیں ہوپائی۔وہیں دوسری طرف بی جے پی میں ہلچل تیز ہو گئی اور قیاس آرائیاں شروع ہوگئیں کہ ادھو حکومت گر سکتی ہے اور ایک بار پھر اقتدار بی جے پی کی گود میں آ سکتا ہے۔ کہاجارہا ہے کہ ایک ناتھ شنڈے کے ساتھ 46 ارکان اسمبلی ہیں۔ایک ناتھ شنڈے خود کو وزیراعلیٰ کے عہدے کا دعویدار سمجھتے تھے لیکن ادھو ٹھاکرے کی وجہ سے انہیں پیچھے ہٹنا پڑاتھا۔ آدتیہ ٹھاکرے نے قائد ایوان کے طور پر ان کا نام تجویز کیا تھا، لیکن اب آدتیہ ٹھاکرے کی سرگرمی اور تنظیم میں بڑھتا ہوا قد شاید انہیں پسند نہیںآ رہا ہے۔ ایک ناتھ شنڈے کے سنگھ، بی جے پی اور سابق وزیراعلیٰ دیویندر فڑنویس کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ ان کے اس اقدام بغاوت کی وجہ سے اب ادھو ٹھاکرے کی حکومت پر خطرہ منڈلانے لگا ہے۔ ادھر این سی پی سربراہ شرد پوار پھر سے سرکار بچانے کی کوششوں میں لگ گئے ہیں اور کانگریس بھی پوری طرح شیو سینا کے ساتھ کھڑی ہے اور یہ دونوں پارٹیاں مل کر حکومت کو نقصان نہ پہنچے، اس کی پوری کوشش کر رہی ہیں۔
لیکن سچائی تو یہ ہے کہ ایک ناتھ شنڈے کی روپوشی نے ادھو حکومت کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔سیاسی بحران اتنا سنگین ہوگیا ہے کہ وزیراعلیٰ ادھو ٹھاکرے کو فیس بک لائیو آکر کہنا پڑا ہے کہ انہیں وزیراعلیٰ کے عہدہ کاکوئی لالچ نہیں ہے، وہ استعفیٰ بھی دینے کو تیار ہیںلیکن بغاوت کرنے والے ارکان اسمبلی کو سامنے آکر اپنی بات کہنی چاہیے۔ اب دیکھنا ہے کہ یہ اونٹ کس کرو ٹ بیٹھتا ہے، بھارتیہ جنتا پارٹی کا ’آپریشن لوٹس‘ مہاراشٹر میں کامیاب ہوتا ہے یاپھر ادھو حکومت کے خلاف ایک ناتھ شنڈے کی بغاوت فرو ہوتی ہے۔ لیکن اونٹ چاہے جس کروٹ بیٹھے اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ پورے ہندوستان پربھگوا لہرانے کی خواہش نے ہندوستان کی مروجہ سیاست اور ایک بدچلن طوائف کے درمیان کے فرق کو بڑی تیزی سے ختم کردیا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS