ڈھاکہ (ایجنسی):بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے سخت انتباہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ دُرگا پوجا کے مقام اور
ہندو برادری کے مندروں پر حملہ کرنے والوں کو بخشا نہیں جائے گا۔ان حملوں میں بنگلہ دیش کے چاند پور علاقے میں چار افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
یاد رہے کہ بنگلہ دیش میں قرآن کی مبینہ بے حرمتی سے متعلق فیس بک پوسٹ کی وجہ سے تشدد کے بعد دُرگا پوجا کے کئی
پنڈالوں میں توڑ پھوڑ کی گئی اور اقلیتی ہندو برادری کے کم از کم 150 خاندانوں پر حملہ کیا گیا۔ اس واقعے کے بعد انڈین ریاست مغربی بنگال کی کئی تنظیموں نے بدھ کی رات ہونے والے اس تشدد کی شدید مذمت کی تھی۔ وشو ہندو پریشد نے اس معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
ادھر بی جے پی کے سوشل میڈیا سربراہ امیت مالویہ نے بنگلہ دیش میں دُرگا پوجا کے مقامات پر حملے پر کہا ہے کہ ‘بنگلہ
دیش میں ہندوؤں کی مذہبی آزادی خطرے میں ہے‘۔ اس کے بعد بی بی سی بنگلہ سروس کے مطابق شیخ حسینہ نے انڈیا کو یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ اسے شرپسندوں کے ساتھ سختی سے پیش آنا چاہیے۔ شیخ حسینہ نے کہا ہے کہ ‘انڈیا میں بھی ایسا کچھ نہیں ہونا چاہیے جو ہمارے ملک کو متاثر کرے اور ہمارے ملک میں ہندوؤں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔ اگر انڈیا میں ایسا کچھ ہوتا ہے تو ہمارے ہاں ہندو متاثر ہوتے ہیں۔ انڈیا کو بھی اس حوالے سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔‘
جمعرات کو بنگلہ دیش کے وزیر اعظم نے یہ بات دارالحکومت ڈھاکہ کے ڈھکیشوری مندر میں ہندوؤں کو دُرگا پوجا کے موقع
پر مبارکباد دیتے ہوئے کہی۔ وزیر اعظم نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے پوجا میں شرکت کی تھی۔
شیخ حسینہ نے بنگلہ دیش کے ہندوؤں سے بھی کہا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اقلیت نہ سمجھیں اور دیگر مذاہب کے لوگوں کی
طرح اپنی رسومات کا اہتمام کرتے رہیں۔ شیخ حسینہ نے کہا کہ تمام مذاہب کے لوگ اس مٹی میں پیدا ہوئے اور اور انہوں نے
یہیں پرورش پائی ہے۔
بنگلہ دیش کے معروف انگریزی اخبار ‘ڈھاکہ ٹریبیون’ کے مطابق شیخ حسینہ نے کہا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ
مجرم کس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ مجرم پکڑے جائیں گے اور انہیں سزا دی جائے گی۔ ڈھاکیشوری بنگلہ دیش کا سب سے بڑا مندر ہے اور دارالحکومت ڈھاکہ کا نام اس کے نام پر رکھا گیا ہے۔ 2018 میں وزیر اعظم شیخ حسینہ نے دُرگا پوجا کے موقع پر دارالحکومت ڈھاکہ کے ڈھکیشوری ہندو مندر کو 1.5 بیگا زمین دی تھی۔
شیخ حسینہ نے کہا کہ دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی سرگرمیوں سے ہم بھی متاثر ہوئے ہیں۔ نہ صرف ہمیں بلکہ
پڑوسی ملک کو بھی اس بارے میں محتاط رہنا ہے۔ ہمسایہ ملک انڈیا نے جنگ آزادی میں ہماری مدد کی تھی اور ہم اس کے لیے
ہمیشہ شکر گزار رہیں گے۔
بنگلہ دیش میں حملے کے بارے میں انڈیا کی جانب سے بھی ردعمل سامنے آیا ہے۔ انڈیا کی وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم
باگچی نے بنگلہ دیش کی فوری کارروائی کی تعریف کی ہے۔ جمعرات کو ہفتہ وار پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے
انہوں نے کہا کہ فوری کارروائی سے صورتحال کو قابو کر لیا گیا ہے۔
بی جے پی کے سوشل میڈیا سربراہ امیت مالویہ نے بنگلہ دیش میں دُرگا پوجا کے مقامات پر حملے پر مغربی بنگال کی وزیر
اعلیٰ ممتا بینرجی کو نشانہ بنایا ہے۔
امیت مالویہ نے اپنی ٹویٹ میں لکھا بنگلہ دیش میں ہندوؤں کی مذہبی آزادی خطرے میں ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سی
اے اے ایک انسان دوست قانون ہے۔ ممتا بینرجی کی سی اے اے کی مخالفت اور دانستہ خاموشی مغربی بنگال کے ہندوؤں کے
لیے مایوس کن ہے۔ یہاں کے ہندوؤں کو بھی ٹی ایم سی حکومت کے تحت حاشیے پر رکھا جا رہا ہے۔
بنگلہ دیش پوجا اتسو پریشد کے صدر میلان کانتی دت نے بی بی سی بنگلہ کو بتایا کہ عبادت گاہوں پر حملوں اور تشدد نے
سکیورٹی کے بارے میں خدشات پیدا کیے ہیں۔ دت نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ حملے منصوبہ بندی کے تحت کیے گئے جس کی
وجہ سے ہندو برادری میں خوف ہے۔شیخ حسینہ نے کہا کہ کومیلا کے مندر میں توڑ پھوڑ ایک افسوسناک واقعہ ہے۔ شیخ حسینہ نے کہا کہ صرف وہی لوگ ایسے حملے کر سکتے ہیں جو عوام کا اعتماد جیتنے سے قاصر ہیں اور جن کا کوئی نظریہ نہیں ہے۔شیخ حسینہ نے کہا کہ ’ہمیں بہت سی معلومات حاصل ہو رہی ہیں۔ جو اس حملے میں ملوث تھے ہم انہیں ضرور پکڑیں گے۔ یہ جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ وہ ضرور پکڑے جائیں گے۔ ہم نے ماضی میں بھی ایسا کیا ہے اور آئندہ بھی کریں گے۔ مجرموں کو سزا دی جائے گی۔ مجرموں کو ایسی سزا ملے گی جو یاد رہے گی اور آئندہ کوئی ایسا کرنے کی جرت نہیں کرے گا۔
شیخ حسینہ نے سب سے اپیل کی کہ مل کر کام کریں اور ایسے واقعات سے ہوشیار رہیں۔ بنگلہ دیش کے وزیر اعظم نے کہا
کہ ذات، مذہب یا مسلک سے قطع نظر یہ تہوار یہاں ایک ساتھ منایا جائے گا۔
شیخ حسینہ نے کہا کہ مذہب انفرادی ہے جبکہ تہوار سب کے لیے ہیں اور’ہم سب مل کر تہوار مناتے ہیں۔ لیکن کچھ لوگ
جنونی ہیں اور ایسے لوگ ہمیشہ فرقہ وارانہ تنازعات پیدا کرتے ہیں۔ ایسے لوگ نہ صرف مسلم کمیونٹی میں ہیں بلکہ دوسرے
مذاہب میں بھی ہیں۔ اگر ہم مل کر کام کریں گے تو ایسے لوگ کامیاب نہیں ہوں گے۔‘
شیخ حسینہ نے کہا کہ اس قسم کا حملہ اس وقت ہوا ہے جب ملک تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ’ہمارا
مقصد ملک کو مشکلات سے نکالنا ہے‘۔ وزیراعظم نے کہا کہ 1971 میں ہم نے جنگ آزادی کندھے سے کندھا ملا کر لڑی۔ شیخ حسینہ نے کہا کہ شیخ مجیب الرحمن نے بنگلہ دیش کو ایک سیکولر ملک بنایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش چاہتا تھا کہ بنگلہ دیش میں تمام مذاہب کے لوگ اپنے مذہب کی آزادی سے پیروی کریں۔
شیخ حسینہ نے کہا کہ ’ہمارا مقصد بنگلہ دیش کو امن پسند ملک بنانا ہے جہاں دہشت گردی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوگی۔
ہم اسی راستے پر چلیں گے جس کے ساتھ بنگلہ دیش نے ایک آزاد ملک بنایا تھا۔ ہم چاہتے ہیں کہ بنگلہ دیش بھوک اور غربت
سے پاک ہو اور یہی شیخ مجیب الرحمان کا خواب تھا۔‘
بنگلہ دیش میں بہت سے اسلامی بنیاد پرست دھڑے ہیں جو شیخ حسینہ کی حکومت سے ناراض ہیں۔ گذشتہ سال بنگلہ دیش کے بنیاد پرست اسلامی گروپ حضرت اسلام کے نئے سربراہ جنید بابونگری نے کہا تھا کہ ملک میں تمام بتوں کو گرا دیا جائے گا اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون سا بت کس کا ہے۔ انہوں نے شیخ مجیب الرحمن کا مجسمہ نصب کرنے کی بھی مخالفت کی تھی۔2011 کی مردم شماری کے مطابق بنگلہ دیش کی 149 ملین آبادی میں تقریباً آٹھ عشاریہ پانچ فیصد ہندو ہیں۔ ضلع کومیلاسمیت کئی دیگر اضلاع میں ہندو برادری کے لوگوں کی بڑی آبادی ہے۔