کسانوں اورسرکارکی بات چیت

0

کسانوں اور سرکار کے درمیان بات چیت کی جو کھڑکی امسال 22جنوری کو بند ہوگئی تھی، ایک بار پھر اس کے کھلنے کی راہ ہموار ہوتی نظر آرہی ہے ۔ حسب سابق اس بار بھی مرکزی وزیرداخلہ امت شاہ کی طرف سے بات چیت کی پیش کش کی گئی اور کسانوں نے اسے قبول کرلیا ۔پچھلی بار تو مرکزی وزیرداخلہ بات چیت کے لئے سرکار کی طرف سے نامزد نمائندوں میں شامل نہیں تھے، لیکن اس بار کہا جارہا ہے کہ وہ خود کسانوں کے ساتھ بات چیت کریں گے جوبڑی پیش رفت ہے۔دوسری طرف ایک بڑی تبدیلی یہ آئی ہے کہ سابقہ بات چیت میں 3 درجن سے زیادہ کسانوں نے سرکارسے بات چیت کی تھی، لیکن اس بار سرکار کے کہنے پر اس کے ساتھ صرف 5کسانوں کی کمیٹی ہی بات چیت کرے گی۔جب دونوں طرف سے نمائندے کم ہوں گے تو اختلافات کی گنجائش کم ہوگی ۔ کسانوں نے 4دسمبر کی میٹنگ کیلئے اپنی کمیٹی تشکیل دیدی ہے ۔اب بات چیت کا انتظار ہے جو 7دسمبر کو ہوسکتی ہے۔جیساکہ کسان لیڈر یدھویرسنگھ نے کہا ہے ۔ غور طلب امر یہ ہے کہ اسی دن سرکار کے ساتھ میٹنگ کے بعدکسانوں کی ایک اورمیٹنگ ہوگی۔جس میں بات چیت کی روشنی میں مستقبل کی حکمت عملی تیار کی جائے گی ۔ان کا تو یہاںتک کہناہے کہ اگر بات چیت کے مثبت نتائج برآمد ہوئے تو کسان دھرنا مظاہرہ ختم کرکے اپنے گھربھی جاسکتے ہیں۔ کچھ اسی طرح کی بات متحدہ کسان محاذ میں شامل یوگیندر یادو نے بھی کہی کہ سرکار کی طرف سے مثبت اشارے ملے ہیں ۔ اس لئے 7دسمبر کو کوئی بڑا فیصلہ کیا جاسکتا ہے ۔
زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کی تحریک ایک سال پہلے شروع ہوئی تھی ۔ 26نومبر 2020سے دہلی کے ٹیکری ، سنگھواورغازی پور بارڈر پروہ دھرنے پر بیٹھے ہیں۔ امسال 26جنوری کو ٹریکٹر مارچ کے دوران کچھ گڑبڑی کوچھوڑ کرمجموعی طورپرپوری تحریک پرامن رہی۔تاہم دھرنے کے دوران بہت سے کسانوں کی موت ہوگئی ۔ جن کا ریکارڈ سرکارکے پاس تو نہیں ہے لیکن کسانوں کا کہنا ہے کہ 750سے زیادہ کسانوں کی موت ہوئی ہے۔ زرعی قوانین پر سرکار اورکسانوں کے درمیان 14اکتوبر 2020 سے 22جنوری2021 تک 11دورکی بات چیت کاکوئی نتیجہ برآمدنہیںہوا۔ آخر میں اس پر بات چیت کا سلسلہ منقطع ہوگیا کہ سرکار نے زرعی قوانین کو ڈیڑھ سے 2سال کے لئے معطل کرنے کی پیش کش کی جسے کسانوں نے مسترد کردیا، اس سے پہلے سپریم کورٹ نے بھی 6ماہ کیلئے معطل کرکے تنازع کوحل کرنے کی خاطر ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جس کی رپورٹ کورٹ میںپیش کی گئی لیکن وہ منظر عام پر نہیں آئی اوراس پر کوئی پیش رفت بھی نہیں ہوئی،سپریم کورٹ کی کوششوں میں بھی کسانوں نے کوئی دلچسپی نہیں لی۔ آخر خود سرکار نے زرعی قوانین کو واپس لینے کا اعلان کردیا اوربحث کے بغیر پارلیمنٹ سے اس کا بل بھی پاس کرادیا۔اس طرح جلد بازی میںجو زرعی قوانین بنائے گئے تھے اسی طرح واپس بھی لئے گئے ۔ بہر حال زرعی قوانین کا مسئلہ تو حل ہوگیاجن میں سرکارنے کسانوں کو الجھادیا تھا، اب کسانوں نے سرکار کو ایم ایس پی کی قانونی گارنٹی میں الجھا دیا ۔اس کے علاوہ تحریک کے دوران جاں بحق ہونے والے کسانوںکیلئے معاوضہ اوران کے خلاف درج مقدمات کی واپسی سمیت 6مطالبات پرمشتمل ایک مکتوب پہلے ہی وزیراعظم نریندرمودی کو لکھ چکے ہیں۔ یہ سارے مسائل زرعی قوانین کے بطن سے پیدا ہوئے ہیں،جو سرکار کے لئے دردسربن گئے ۔ ان ہی کو حل کرنے کے لئے سرکار اورکسانوں کی اگلی بات چیت ہوگی ۔
زرعی قوانین کی واپسی کے بعد جہاں کسانوں کے حوصلے بڑھے ہوئے ہیں۔ وہیں سرکار بیک فٹ پر ہے ۔ اس پر اپوزیشن کا بھی دبائو ہے اورکسانوں کا بھی ۔ 5 ریاستوں کے اسمبلی انتخابات الگ ہیں جن میں کسانوں کی ناراضگی سے بی جے پی کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ گیند سرکار کے پالے میں ہے۔کسان اپنے ارادے پہلے ہی ظاہر کرچکے ہیں کہ جتنے دن بھی تحریک چلانے کی ضرورت ہوگی ، وہ پیچھے نہیں ہٹیں گے ۔ اس لئے اب آزمائش سرکارکی ہے کہ وہ کسانوں سے کیسے ڈیل کرتی ہے اور ان کوکیسے راضی کرتی ہے ۔فی الحال جس طرح کے اشارے مل رہے ہیں، امید کی جاتی ہے کہ تنازعات حل ہوجائیں گے،جس کا پورے ملک کو گزشتہ ایک برس سے انتظار ہے ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS