طالبان کی نئی حکومت میں خواتین کو تعلیم اورسیاست کی اجازت لیکن حجاب یا اسکارف لازمی

0
The New Indian Express

کابل(ایجنسیاں) : طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کا کہنا ہے کہ نئی حکومت میں خواتین کو حجاب کے ساتھ کام کرنے کی اجازت ہو گی، نئی حکومت میں خواتین کو تعلیم حاصل کرنے اور سیاست میں حصہ لینے کی اجازت ہو گی، خواتین کو گھر سے نکلنے کیلئے مرد سربراہ کی ضرورت نہیں ہو گی۔ طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے امریکی خبر ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ امن معاہدے کیلئے نئی حکومت کا قیام اور افغان صدر اشرف غنی کا عہدہ چھوڑنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ فریقین کیلئے قابل قبول نئی حکومت کیلئے معاہدہ ہونا چاہیے پھر جنگ نہیں ہوگی، قابل قبول نئی حکومت بن جائے تو طالبان ہتھیار ڈال دیں گے۔ سہیل شاہین کا کہنا ہے کہ اشرف غنی مفاہمت نہیں چاہتے، مگر چاہتے ہیں کہ ہم ہتھیار ڈال دیں۔ اشرف غنی کا اقتدار میں رہنا طالبان کے سرینڈر کرنے میں رکاوٹ ہے۔انہوں نے کہا کہ میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہم اقتدار کی اجارہ داری پر یقین نہیں رکھتے ہیں، افغانستان میں اقتدار پر اجارہ داری قائم کرنے والی حکومتیں کامیاب نہیں ہوئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کابل پر قبضے کا کوئی منصوبہ نہیں، طالبان نے صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کرنے سے خود کو روک لیا ہے۔ طالبان ترجمان نے مزید کہا کہ مجھ سمیت کوئی بھی سول وار نہیں چاہتا، غیر ملکی میڈیا کیلئے کام کرنے والے صحافیوں سمیت کسی صحافی کو دھمکیاں نہیں دیں۔ سہیل شاہین کا یہ بھی کہنا ہے کہ غیر ملکی میڈیا سمیت تمام صحافی مستقبل میں اپنا کام جاری رکھ سکتے ہیں۔ طالبان کے ترجمان سہیل شاہین جو مذاکرات کرنے والے گروپ کے رکن بھی ہیں، نے طالبان کے مؤقف کی نشاندہی کی کہ ملک میں آگے کیا ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب اشرف غنی کی حکومت ختم ہوگی اور دونوں فریقین کی جانب سے قابل قبول مذاکرات کے بعد نئی حکومت کابل میں قائم ہوجائے گی تو وہ اپنے ہتھیار ڈال دیں گے ۔انہوں نے کہا کہ میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہم اقتدار کی اجارہ داری پر یقین نہیں رکھتے کیونکہ ماضی میں افغانستان میں اقتدار پر اجارہ داری قائم کرنے والی حکومتیں کامیاب نہیں ہوئیں، لہٰذا ہم اسی فارمولے کو دہرانا نہیں چاہتے۔ تاہم انہوں نے اشرف غنی کی مستقل حکمرانی پر بھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا اور انہیں جنگی راہب قرار دیا اور ان پر یہ الزام عائد کیا کہ انہوں نے عیدالاضحی کے اسلامی دن کے روز بھی تقریر کے دوران طالبان کے خلاف کارروائی کے عزم کا اظہار کیا تھا۔انہوں نے اشرف غنی کے حکومت کرنے کے حق کو مسترد کرتے ہوئے 2019 کے انتخابات میں سامنے آنے والے بڑے فراڈ کی نشاندہی کی۔ واضح رہے کہ اس انتخابات میں اشرف غنی اور ان کے حریف عبداللہ عبد اللہ دونوں نے اپنی جیت ظاہر کرتے ہوئے خود کو صدر قرار دیا تھا، بعد ازاں ایک معاہدے کے بعد اب عبداللہ عبداللہ حکومت میں دوسرے نمبر پر ہیں اور مصالحتی کونسل کے سربراہ ہیں۔ غورطلب ہے کہ اشرف غنی یہ اعلان کرچکے ہیں کہ وہ اس وقت تک عہدہ پر رہیں گے ،جب تک نئے انتخابات اگلی حکومت کا تعین نہیں کردیتے۔ گزشتہ ہفتے کے آخر میں عبداللہ عبداللہ نے طالبان رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کیلئے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ایک اعلیٰ سطح کے وفد کی سربراہی کی تھی۔
جس کا اختتام مزید مذاکرات کے وعدوں کے ساتھ ساتھ عام شہریوں اوربنیادی انفرا اسٹرکچر کے تحفظ پرترجیح کے ساتھ ہوا تھا۔
سہیل شاہین نے مذاکرات کو ایک اچھا آغاز قرار دیا تاہم انہوں نے کہا کہ حکومتیں بار بار جنگ بندی کا مطالبہ کرتی ہیں جبکہ اشرف غنی کا اقتدار میں رہنا طالبان کے سرینڈر کرنے کے مطالبے میں رکاوٹ ہے ۔انہوں نے کہاکہ‘وہ مفاہمت نہیں چاہتے مگر وہ چاہتے ہیں کہ ہم ہتھیار ڈال دیں’۔انہوں نے کہا کہ کسی بھی جنگ بندی سے پہلے ایک نئی حکومت کے لیے معاہدہ ہونا چاہیے جو ہمارے اور دیگر افغانوں کے لیے قابل قبول ہو، پھر جنگ نہیں ہوگی۔
مسٹر سہیل شاہین نے کہا کہ اس نئی حکومت کے تحت خواتین کو کام کرنے،اسکول جانے اورسیاست میں حصہ لینے کی اجازت ہوگی تاہم انہیں حجاب یا سر پر اسکارف پہننا پڑے گا۔انہوں نے کہا کہ خواتین کو گھر سے نکلنے کے لیے ان کے ساتھ مرد سربراہ کی ضرورت نہیں ہوگی اور نئے قبضہ ہونے والے اضلاع میں طالبان کمانڈروں کو یہ حکم ہے کہ یونیورسٹیز،اسکولوں اور بازاروں میں پہلے کی طرح کام جاری رہے گا جس میں خواتین اورلڑکیوں کی شرکت بھی شامل ہے ۔
سہیل شاہین نے کہا کہ چند طالبان کمانڈرز نے جابرانہ اور سخت رویے کے خلاف قیادت کے احکامات کو نظرانداز کیا ہے اور ان میں سے متعدد کو طالبان کے ایک فوجی ٹربیونل کے سامنے پیش کیا گیا ہے اور انہیں سزا دی گئی ہے تاہم انہوں نے اس حوالے سے مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں۔انہوں نے کہا کہ کابل پر فوجی دباؤ ڈالنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے اور اب تک طالبان نے صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کرنے سے خود کو روک لیا ہے ۔تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ نئے قبضہ کیے گئے اضلاع سے ملنے والے اسلحہ اور سازوسامان کے بعد وہ ایسا کرسکتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ میدان جنگ میں زیادہ تر کامیابی انہیں لڑائی سے نہیں بلکہ مذاکرات کے ذریعے حاصل ہوئی ہے ۔انہوں نے کہا کہ وہ اضلاع جو ہمارے پاس آچکے ہیں اور فوجی دستے جو ہمارے ساتھ شامل ہوچکے ہیں، وہ بات چیت کے ذریعے ہی آئے ہیں لڑائی کے ذریعے نہیں،‘لڑائی سے ہمیں صرف 8 ہفتوں میں 194 اضلاع حاصل کرنے میں بہت مشکل ہوتی’۔
سہیل شاہین نے طالبان کے وعدوں کو بھی دہرایا جس کا مقصد اس گروہ سے خوف زدہ افغانوں کو یقین دلانا ہے ۔
دوسری جانب واشنگٹن نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ہزاروں امریکی افواج کے حامیوں کو بھی افغانستان سے منتقل کرے گا۔
س پر سہیل شاہین نے کہا کہ انہیں طالبان سے ڈرنا نہیں چاہیے تاہم اگر کچھ لوگ مغرب میں سیاسی پناہ لینا چاہتے ہیں کیونکہ افغانستان کی معیشت بہت خراب ہے ، تو یہ ان پر منحصر ہے ۔انہوں نے اس بات کی بھی تردید کی کہ طالبان نے صحافیوں اور افغانستان کی سول سوسائٹی کو دھمکی دی ہے ۔
سہیل شاہین نے کہا کہ صحافی بشمول مغربی ذرائع ابلاغ کے اداروں میں کام کرنے والے افراد کو ایسی حکومت سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے جس میں طالبان بھی شامل ہوں۔انہوں نے کہاکہ‘ہم نے صحافیوں کو وارننگ جاری نہیں کی خاص طور پر ان لوگوں کو جو غیر ملکی میڈیا اداروں کے لیے کام کر رہے ہیں، وہ مستقبل میں بھی اپنا کام جاری رکھ سکتے ہیں’۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS