سوراج منقسم ہندوستان کیلئے تو نہیں مانگا تھا

    0

    خواجہ عبدالمنتقم

    26جنوری 1929کو اس وقت کی انڈین نیشنل کانگریس نے لاہور میں، جو اب پاکستان کا ایک اہم شہر ہے، مکمل سوراج یعنی اپنی حکومت قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس تاریخ کی اہمیت کے مدنظر جمہوریہ ہند کے آئینی قیام کے لیے بھارت کے آئین کے مکمل نفاذ کے لیے 1950 میں26 جنوری کی تاریخ کا انتخاب کیا گیا۔ یہ سوراج منقسم ہندوستان کے لیے نہیں مانگا تھا۔ امید تھی کہ ملک تقسیم نہیں ہوگامگر ہوا۔ یہ ایک جغرافیائی حقیقت ہے۔ تقسیم ہند سے قبل اسی سرزمین پر فدائے حرم اور شیدائے صنم ایک طویل مدت سے ایک ساتھ رہتے چلے آرہے تھے اور ہمیشہ ایک دوسرے کے ہم نوالہ و ہم پیالہ رہے اور عالمی پیمانے پر تسلیم شدہ epluribus unum یعنی ’کثرت میں وحدت‘ کے اصول کوسینے سے لگائے رکھا مگر تقسیم ہند کے بعد صورت حال بالکل بدل گئی جبکہ امید تھی کہ چونکہ دونوں ممالک کے درمیان تعلق میں صدیوں کی بقائے باہمی اور تعاون شامل تھا، اس لیے بعداز تقسیم حالات اتنے خراب نہیں ہوں گے۔ سوراج تو ملا مگر لاکھوں بے گناہوں کی لاشوںپر ۔ اگر سمجھداری سے کام لیا گیا ہوتا تو کیا آبادی کی منتقلی پر امن طریقے سے نہیں ہوسکتی تھی؟تقسیم کے وقت اور مابعد سرحد کے دونوں طرف ہندو-مسلم فسادات شدید پیمانے پر پھوٹ پڑے ۔ لاکھوں کی تعدادمیں لوگ مارے گئے ، انہیں اپناملک چھوڑنا پڑا، گھر سے بے گھر ہوگئے،اپنے پرائے ہوگئے،ہندو-مسلم اتحاد جاتارہا، نفسی نفسی کا عالم پیدا ہوگیا، ہم نوالہ، ہم پیالہ اور ہمہ وقت کے ساتھی ایک دوسرے سے جدا ہوگئے اوران میں سے کچھ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بھی ہوگئے۔ زمین، دریا و سمندر بٹ گئے، یہاں تک کہ دل بٹ گئے،کسی کی محبت ادھوری رہ گئی تو کوئی جدائی کے غم میںنڈھال ہو کر رہ گیااورہندوستان کا نقشہ ہی بدل گیا ۔اس کا کون ذمہ دار ہے؟سیاسی جماعتیں یا شدت پسند ومتعصب عناصر۔اس کا فیصلہ تاریخی تجزیہ کار کرچکے ہیں اور کرتے رہیں گے اور اپنی معروضی وغیر معروضی آرا سے ایسے قارئین کو آگاہ کرتے رہیں گے جن کی سچائی کی تہہ تک پہنچنے کی پر تجسس نیت ہو۔
    تقسیم ہند کے بعد ہند و پاک تعلقات
    وقت کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے زخم مندمل ہوجاتے ہیں اور ہوجانے بھی چاہئیں ورنہ نفرت کی آگ کبھی نہیں بجھ سکتی لیکن ہندوستان اور پاکستان کے مابین رشتوں میں بیشتر تلخی ہی رہی۔کبھی گرمی تو کبھی نرمی، کبھی کرکٹ ڈپلومیسی، کبھی ہماری پارلیمنٹ میں پاکستان کی دہشت گردی کے حوالے سے مذمت تو کبھی پاکستان کی سینٹ میںہندوستانی رہنماؤں کے ذریعہ پاکستان کے بارے میں دہشت گردی کے حوالے سے دیے گئے بیانات کی بابت مذمتی تجویز،کبھی ہندوستان کے وزیراعظم کی شریفانہ خاطر، کبھی پلوامہ حملہ، کبھی رہنماؤں کی ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی تو کبھی موجودہ وزیراعظم عمران خاں کے ذریعہ نئی قومی سیکورٹی پالیسی کا اعلان جس میں دیگر باتوں کے ساتھ یہ دعویٰ کہ یہ پالیسی عوام دوست پالیسی ہے اور اس میں فوجی امور پر زیادہ فوکس رکھنے کے بجائے ملک کی اقتصادی ترقی پر زیادہ زور دیا جائے گا مگر اس میں بھی ہندوستان پر اپنے مخصوص انداز میں فوکس ۔
    دونوں ممالک کے رہنما کتنے ہی مواقع پر سرجوڑ کر ایک ساتھ بیٹھے ہیں اور اس نتیجے پر پہنچے بھی ہیں کہ تمام متنازع مسائل کا حل بات چیت اور نرم روی سے ہی نکل سکتاہے مگر جب بھی حالات معمول پر آنے کی مدھم سی صورت نظر آتی ہے تو کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ پیش آجاتا ہے جس سے Back to square one والی پوزیشن آجاتی ہے۔ وزیراعظم کی حلف برداری کے موقع پر پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کی شرکت اور ما بعد لاہور میں مودی جی کی نواز شریف سے ملاقات سے ایک بار پھریہ امید جگی تھی کہ شاید دونوں ممالک کے مسائل کسی حد تک حل ہوجائیںگے۔ مگر کبھی سرحد پر دراندازی تو کبھی گولہ باری یا دیگرجارحانہ کارروائی تو کبھی زبانی جنگ تا ہنوز امن کی کوششوں میں مانع رہی ہیں۔اگر یہی صورت حال رہی تو دونوں ممالک کے تعلقات معمول پر آنے کا امکان نہ کے برابر ہے حالانکہ دونوں ممالک کئی جنگوں میں کتنا ہی جانی و مالی نقصان اٹھا چکے ہیں اور دہشت گردانہ کارروائیوں کی مار جھیل رہے ہیں۔ جہاں ایک طرف ہم کشمیر، نارتھ ایسٹ، میانمار کی سرحد پر اور دیگر علاقوں میں دہشت گردوں کا مقابلہ کر تے رہے ہیں تو دوسری طرف پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف ضرب عضب جیسے آپریشنز ہوتے رہے ہیں۔ ایسی صورت میں دونوں ممالک کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں اپنی عملی سوچ اور حقیقت پسندی کا مظاہرہ کریں۔ اس سلسلے میں پاکستان کو ہندوستان کے مقابلے میں زیادہ محتاط رویہ اختیار کرنا ہوگا کیونکہ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان کو اس ضمن میں مختلف فورموں پر کافی ہزیمت اٹھانی پڑی ہے۔
    اگرہندوستان اور پاکستان کے درمیان صحیح معنوں میں دوستانہ تعلقات قائم ہوجاتے تو آج یہ خطۂ ارض جنت نظیر بن چکا ہوتا۔ نہ جنگجو سراٹھاتے، نہ دہشت گردی جنم لیتی، نہ بار بار جنگ ہوتی اور سرحد کے دونوں طرف تعینات سپاہیوں کی آنکھوں میں خوف وخفگی کے بجائے وہ تاثیر پذیر کشش ہوتی جو بیشتر یوروپی ممالک کی سرحدوں پر تعینات سپاہیوں کی آنکھوں میں نظر آتی ہے۔ عمران خاں آئے اور blow hot, blow cold کا سلسلہ جاری رہا مگر صورت حال جوں کی توں بلکہ بد ترہی رہی۔ان دونوں ممالک کے مابین کتنے ہی معاہدے ہوچکے ہیںمگر دونوں ممالک کے تعلقات اکثر کشیدہ ہی رہے ہیں اور گفت و شنید بھی ہوتی رہی ہے کبھی متلاطم ماحول میں، کبھی پرسکون حالات میں، کبھی شملہ کی برف پوش پہاڑیوں کے دامن میں، کبھی اسلام آباد کے پرفضا ماحول میں، کبھی سرحد کے اس پار تو کبھی اُس پار، کبھی دوردراز براعظموں میں تو کبھی علاقائی و بین الاقوامی فورموں پر۔لیاقت-نہرو پیکٹ، کشمیر میں جنگ بندی کا معاہدہ، تاشقند معاہدہ، شملہ معاہدہ اور تجارت، اقلیتی امور، نیوکلیائی و خلائی ا مور، دہشت گردی، ویزا وغیرہ کی سہولیات، جیسے امور پر کافی گفت و شنید یا معاہدے ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ کرکٹ ڈپلومیسی، واجپئی-نواز شریف ملاقات، واجپئی- مشرف ملاقات، مودی-نواز شریف ملاقات، بارہا وزرائے خارجہ وسکر یٹریوں کی مختلف مواقع پر ملاقاتیں بھی قابل ذکر ہیں۔
    محضDisaster Diplomacy (یعنی صرف ہنگامی حالات میں تعاون) سے کام نہیں چلے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسی سفارتی حکمت عملی تیار کی جائے جس سے دونوں ممالک کے چہارطرفہ تعلقات کو فروغ ملے، باہمی تجارت میں اضافہ ہو ، عوام کے درمیان بہتر روابط پیدا ہوں اور بصورت مجبوری بھی جراحتی عمل کے مقابلے مصالحانہ اقدامات کو ترجیح دی جائے۔اگر دونوں ممالک شیر و شکر ہو کر رہیں اور ’ایک روح اور ایک قالب ‘ ہوجائیں تو ا سے بھی اس سوراج کا نقش ثانی کہا جا سکے گا جس میں ایک ملک اور ایک قوم کی اپنی حکومت کی بات کہی گئی تھی مگر ایک ہاتھ سے تھالی تو بج سکتی ہے مگر تالی نہیں۔برادر اکبر اور برادر اصغر کو ایک دوسرے کے قریب آنا ہوگا۔ دونوں ممالک ماضی کی تلخیوں کو بھلاکر مستقبل قریب میں ایک پائیدار دوستی کی بنیاد ڈالیں اور مثبت وصحت مند سفارتکاری وسیاستدانی کے اصولوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے محض مطلب براری، موقع شناسی اور جوڑ توڑ کو اپنا شیوہ نہ بنائیں۔ ان دونوں قوموں کی رگوں میں ایک ہی خون سرایت کرتا ہے اور یہ دونوں ایک دوسرے کو جتنی اچھی طرح سمجھتی ہیں کوئی دوسری قوم انہیں اتنی اچھی طرح سمجھ ہی نہیںسکتی۔
    (مضمون نگار آزاد صحافی،مصنف و سابق بیوروکریٹ ہیں۔ وہ این سی پی یو ایل کے لاء پینل کے رکن بھی ہیں اورامیٹی یونیورسٹی میں وزیٹنگ پروفیسر رہ چکے ہیں)
    [email protected]

    سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS