ارکان پارلیمنٹ کی معطلی

0

پارلیمنٹ کا مانسون اجلاس حسب توقع ہنگامہ خیزیوں کے مختلف مرحلوں سے گزرتا ہوا آج اس مقام پر پہنچ گیا جہاں سے حزب اختلاف کو ایوان نکالامل گیا۔18جولائی سے شروع ہونے والے اس اجلاس میں کوئی دن ایسا نہیں گزرا ہے جب حزب اختلاف نے مہنگائی، بے روزگاری، خوردنی اشیا پر جی ایس ٹی وغیرہ جیسے مسائل اٹھاتے ہوئے ہنگامہ نہ کیا ہو۔ایک ہفتہ سے حزب اختلاف کی آشفتہ سری کا بوجھ اٹھارہی حکومت نے یہ فیصلہ کر ہی لیا کہ ایوان کو جاری رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ حزب اختلاف کو نکال باہر کیاجائے اور اس طر ح آج منگل کو راجیہ سبھا سے حزب اختلاف کے 19ارکان کو معطل کرنے کا فرمان جاری کردیاگیا۔ معطل ہونے والے اراکین میںترنمول کانگریس کے7، ڈی ایم کے کے6، تلنگانہ راشٹر سمیتی کے3، سی پی آئی ایم کے2اور سی پی آئی کا ایک رکن شامل ہے۔ اس سے پہلے کل پیر کو بھی لوک سبھا میں کانگریس کے4ارکان کو پورے اجلاس کی مدت تک کیلئے معطل کیاجاچکا ہے۔اس کے بعد بھی اگر حزب اختلاف اپنی حرکتوں اور مطالبوں سے بازنہیں آیا تو آگے کی بھی کارروائی زیر غورآسکتی ہے۔
معطلی کی اس کارروائی کو جائز ٹھہراتے ہوئے حکمراں جماعت کا کہنا ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی ’ بھاری من‘ سے یہ فیصلہ لیاگیا ہے۔مرکزی وزیر پیوش گوئل کا کہنا ہے کہ وہ ایوان کو صحیح طریقے سے چلنے نہیں دے رہے ہیں۔حکومت کسی بھی قسم کی بات چیت کیلئے تیار ہے۔ حکومت ایوان میں مہنگائی پر بھی بات کرنا چاہتی ہے اور یہ بتانا چاہتی ہے کہ دوسرے ممالک کے مقابلے ہندوستان میں مہنگائی کتنی کم ہے۔ لیکن حزب اختلاف اس کا موقع نہیں دے رہاہے کہ حکومت اپنی بات رکھ سکے۔ مرکزی وزیر کا کہنا ہے کہ حکومت ایوان میں یہ بھی بتانا چاہتی ہے کہ جی ایس ٹی کونسل میں خوردنی اشیا پر جی ایس ٹی لگائے جانے کا فیصلہ عام آدمی پارٹی، کانگریس، کمیونسٹ پارٹی، ڈی ایم کے، ٹی آر ایس کے اتفاق رائے سے لیاگیا لیکن اس معاملہ پر بھی ایوان کو چلنے نہیں دیاجارہاہے۔ حزب اختلاف اپنی ذمہ داریاںپوری کرنے میں ناکام ہوجانے کی وجہ سے بحث سے بھاگ رہا ہے۔جب کہ حکومت بحث کیلئے تیار ہے لیکن اس کیلئے انہیں انتظار کرنا پڑے گا کیوں کہ وزیر خزانہ کی طبیعت خراب ہے اور حزب اختلاف کے سوالوں کا تعلق وزارت خزانہ سے ہی ہے، اس لیے جب تک وہ صحت مند نہیں ہوجاتیں اس پر کوئی بات نہیں کی جاسکتی ہے۔
اسے حکومت کا عذر لنگ کے سوا کوئی دوسرا نام نہیں دیاجاسکتا ہے۔یہ درست ہے کہ وزیرخزانہ بیمار ہیں اور وہ ایوان میں نہیں آسکتی ہیں لیکن وزارت خزانہ کے دو دووزیر مملکت بھی تو موجود ہیں وہ حزب اختلاف کے سوالات کا سامنا کریں۔ مگر ایسا نہیں کیاجارہاہے کیوں کہ حکومت ان معاملات پر کوئی بحث چاہتی ہی نہیں ہے اور ارکان کو معطل کرکے ان سے پیچھا چھڑانے کی حکمت عملی اپنا رہی ہے۔
ایوان میں گزشتہ8دنوں سے جو کچھ ہو رہا ہے وہ پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔ آج ملک کا سلگتا ہوا سنگین ترین مسئلہ مہنگائی، کھانے پینے کی بنیادی چیزوں پر بھاری بھرکم جی ایس ٹی، افراط زر، بے روزگاری ہے۔ یہ معاملہ فوری بحث کا متقاضی ہے لیکن حکومت ان امور پر بات چیت کے بجائے پہلے طے شدہ ایجنڈہ پر کارروائی کررہی ہے۔ آئین کی دفعہ267کے تحت حزب اختلاف نے ایوان میں یہ نوٹس بھی دیا کہ وہ طے شدہ ایجنڈہ کے بجائے فوری نوعیت کے مسائل پر بحث چاہتے ہیں لیکن اس پر کوئی بات یا ان امور کو ایجنڈہ میں شامل بھی نہیں کیاجارہاہے۔ راجیہ سبھا میں چیئرمین ایم وینکیا نائیڈو نے ایوان کو بتایا کہ بہت سے ارکان نے مختلف امور پر قاعدہ 267 کے تحت طے شدہ امور کو ملتوی کرکے فوری گفتگو کرنے کیلئے نوٹس دیے ہیں لیکن انہوں نے تمام نوٹس کو مسترد کردیا ہے۔اب تو یہ وہی بتاپائیں گے کہ ایسا انہوں نے کیوں کیا ہے۔لیکن ان کے اس فیصلہ سے حزب اختلاف کا مشتعل ہونا فطری تھا جس کا بہانہ بناکر انہیں معطل کر دیا گیا ہے۔ حزب اختلاف کے سوال کا جواب دینا حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ لو ک سبھاا ور راجیہ سبھا ملک میں قانون سازی کے اعلیٰ ترین ادارہ ہیں اور ان اداروں کے منتخب ارکان کے ساتھ حکومت کا یہ رویہ کسی بھی حال میں مناسب نہیں کہاجاسکتا ہے۔ ترنمول کانگریس کے معطل رکن راجیہ سبھا ڈیریک اوبرائن نے بجاطور پر کہا کہ جب اس ملک میں جمہوریت کو ہی معطل کردیاگیا ہے تو پھر ارکان کی معطلی کوئی معنی نہیں رکھتی ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS