سی جے آئی کی میڈیاکو ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنے کی صلاح

0

خواجہ عبدالمنتقم

سی جے آئی این وی رمن نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا و سوشل میڈیا کا کم و بیش عدلیہ کے خلاف نازیبا تبصرے سے عدلیہ کی آزادی پر منفی اثر پڑتا ہے اور ان کے وقار میں بھی تنزلی آتی ہے اور اس سے ہمارے جمہوری نظام کو بھی زک پہنچتی ہے۔انہوں نے اس مثلثی میڈیاکی درجاتی تقسیم کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ پرنٹ میڈیا تو کسی حد تک جواب دہ ہے ہی مگرالیکٹرانک میڈیا و سوشل میڈیا کی جواب دہی تو ’نہ‘ کے برابر ہے اور سوشل میڈیا کا رول تو بدترین ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ایسے ماحول میں انصاف رسانی کے عمل میں عدلیہ کو دقت پیش آتی ہے اورانہیں بہت سی چنوتیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔انہوں نے اس طرح کا ماحول پیدا کرنے کے معاملے میں سوشل میڈیا کو خاص طور پر مورد الزام ٹھہرایا۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ اگر میڈیا لکشمن ریکھا کو اسی طرح پار کرتا رہا اور اس نے اپنی روش نہیں بدلی تو پھر عدلیہ کو ہی ان کے لیے رہنما خطوط وضع کرنے ہوں گے۔عدلیہ میڈیا ٹرائل کے ذریعہ اخذ نتائج کو کبھی بھی فیصلہ کی بنیاد نہیں بنا سکتی۔ ان کا یہ بیان کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ تو ملکی و عالمی پیمانے پر تسلیم شدہ پیشہ ورانہ ضابطۂ کار وضابطۂ اخلاق کے اصولوں کی جانب برمحل اشارہ ہے اور میڈیا کے لیے غزوۂ تحفظ۔
میڈیا کی جمہوری نظام حکومت میں وہی اہمیت ہے جو انسان کے جسم میں شہ رگ کی۔ در اصل میڈیا کل کا مؤرخ ہے اور آنے والے کل کے تئیں اس کا یہ ناقابل تردید فرض ہے کہ وہ حقائق کو توڑے مروڑے بغیر واقعات کی تفصیل دے یا قلمبند کرے۔ واقعات کا تجزیہ اور ان کے بارے میں رائے بالکل مختلف النوع باتیں ہیں۔ لہٰذا ان دونوں کو قلمبند کرنے کے الگ الگ پیمانے ہیں۔صحافت کا بنیادی اصول ہے کہ مفادعامہ سے متعلق معاملات کی بابت خبروں، نظریات، تبصروں اور معلومات کو بغیر کسی لاگ لپیٹ کے دیانتداری، سنجیدگی اور شائستگی کے ساتھ عوام تک پہنچایا جائے۔کوئی بھی صورت حال کتنی ہی واضح، پر یقین، نمایاں یا ہویدا کیوں نہ ہومبینہ ملزم کو مجرم قرار دینے سے قبل اس بات کو یقینی بنانااور ثابت کرنا ضروری ہوتاہے کہ جس شخص پر یہ الزام لگایا جارہا ہے، اس کی اس طرح کا جرم کرنے کی نیت، غرض یا منشا تھی بھی یا نہیں(ملاحظہ فرمائیے عالمی شہرت یافتہ ماہر قانون سالمنڈ کی تصنیف ’اصول قانون (Salmond on Jurisprudence)‘ صفحہ366)۔
جہاں تک میڈیا ٹرائل کی بات ہے، اس پر عدلیہ غور تو کرسکتی ہے لیکن محض اس کی بنیاد پر کسی کو مجرم قرار نہیں دے سکتی۔ اس غرض کو پورا کرنے کے لیے میڈیا سے ہمیشہ یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ ملکی و عالمی پیمانے پر تسلیم شدہ پیشہ ورانہ ضابطۂ کار وضابطۂ اخلاق کے اصولوں بشمول پریس کونسل آف انڈیا کے ذریعہ Norms of Journalistic Conduct کے نام سے موسوم ضابطۂ اخلاق و دیگرمتعلقہ ملکی و عا لمی ایجنسیوں کے ذریعے طے شدہ رہنما خطوط اور قانونی التزامات سے ہمیشہ باخبر رہے اور ان کے مطابق کام کرے۔ پابندی نہ کرنے کی صورت میں قصور وار قانون کی گرفت میں آسکتے ہیں۔ ملکی و عالمی پیمانے پرمیڈیا ٹرائل کے بارے میں تسلیم شدہ اصولوں میں جن اہم نکات کا احاطہ کیا گیا ہے، وہ درج ذیل ہیں:
٭ متعلقہ حقائق اور اعداد و شمار کو معتبر ذرائع سے چیک کرنے کے بعد ہی عوام کے روبرو اس طرح پیش کیا جائے کہ ان سے کسی بھی طرح کی سنسنی نہ پھیلے، ان میں کوئی مبالغہ نہ ہو اور وہ محض قیاس آرائی یا غیر مصدقہ معلومات پر مبنی نہ ہوں۔کوئی چھوٹی سی انسانی غلطی وبھول چوک یا لغزش، خواہ زبانی ہو یا تحریری، کسی بھی سانحہ کا سبب بن سکتی ہے اور اس سے معاشرہ میں انتشار پیدا ہو سکتا ہے۔ ایسی صورت میںتمام متعلقہ ایجنسیاں اورمیڈیا تدارکی کارروائی کے ذریعہ اس سے ہونے والے اثرات کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔ایسے حالات میں مکمل غیر جانبداری سے کام لینا چاہیے تا کہ معاشرہ میں انتشار ی کیفیت میں مزید اضافہ نہ ہو۔
٭ میڈیا کی رپورٹ سے عوام کے ذہن میںیہ بات نہیں آنی چاہیے کہ ملزم ہی مجرم ہے چونکہ اس سے پولیس کے ذریعے کی جانی والی تحقیق وتفتیش پر دباؤ آجاتا ہے۔
٭ کسی بھی ملزم کو تب تک بے گناہ سمجھا جانا چاہیے جب تک کہ اس کی باقاعدہ عدالت میں سماعت کے بعد اسے مجرم نہ ٹھہرا دیا جائے۔
٭کسی بھی سرکاری ایجنسی کے ذریعے کسی جرم کی تحقیقات کے سلسلے میں کی گئی کارروائی کو اس طرح مشتہر نہیں کیا جانا چاہیے کہ اس سے خاطیوں کو کسی محفوظ مقام پر جانے اور اپنے آپ کو پوشیدہ رکھنے کا موقع مل جائے۔
٭ کسی بھی فوجداری معاملے میں روزانہ کی کارروائی اور شہادت کے بارے میں بغیر تصدیق کیے رپورٹیں شائع نہیں کی جانی چاہئیں۔
٭ جہاں تحقیقات کی اسٹیج پر کسی معاملے کے بارے میں میڈیا کی رپورٹنگ سے تفتیش یا تحقیق میں تیزی ومعقولیت آسکتی ہے، وہیں اس سے ایسی جانکاری باہر آنے کا خطرہ بھی لاحق ہوجاتا ہے جس سے تحقیق یا تفتیش میں رکاوٹ آجائے یا اس پر منفی اثر پڑے۔
٭ستم رسیدہ افراد، گواہان، ملزمان اور ایسے افراد، جن پرارتکاب جرم میں شامل ہونے کا شبہ ظاہرکیا جائے، کی زیادہ تشہیر نہ کی جائے چونکہ ایسا کرنا ان کے نجی حقوق میں دخل اندازی متصور ہوگا۔
٭ اخبارات/میڈیا کو گواہان کے بارے میں کوئی تفصیل نہیں دینی چاہیے چونکہ ان کی پہچان سے ملزم اور اس کے ساتھیوں پر اور یہاں تک کہ تحقیقاتی ایجنسیوں پر بھی دباؤ پڑنے کا خطرہ لاحق ہوجاتا ہے اور گواہان پر بھی اپنے بیان سے مکرجانے کے لیے دباؤ پڑسکتا ہے مگر بار بار یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ رپورٹرملزم کی پہچان کے ساتھ ساتھ اپنے قول یا تحقیق کی سچائی کو ثابت کرنے کے لیے ان افراد کی بھی باقاعدہ نام لے کر پہچان ظاہر کردیتے ہیں جن کے روبرو جرم کا ارتکاب کیا گیاہے۔
٭ ایسے افراد کی، جن پر ارتکاب جرم کا شبہ ظاہر کیا گیا ہے، تصویریں شائع نہیں کی جانی چاہئیں چونکہ اس سے مجموعہ ضابطہ فوجداری کے تحت کرائی جانے والی شناخت پریڈ میں دقت آسکتی ہے۔
٭ میڈیا کو ایک متوازی ٹرائل کے ذریعے قبل از وقت فیصلہ دینے سے بچنا چاہیے اور اسے ایک منصف کا رول ادا نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ایسا کرنے سے جج ، گواہان یا کارروائی سے متعلق فریقین پر بے جا دباؤ پڑسکتا ہے۔
٭ سماعت ختم ہونے کے بعد اور فیصلہ دینے کے بیچ اگر کوئی وقفہ ہو تواس وقفے کے دوران میڈیا کو شہادت یا دلائل وغیرہ کی بابت کوئی بھی ایسا تبصرہ نہیں کرنا چاہیے جس سے معاملے کے فیصلے پر اثر پڑے۔
اقوام متحدہ کے دو ہزار سالہ اعلامیے میں بھی ممالک کے سربراہوں نے اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ یہ ان کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ وہ ا پنی دیگر ذمہ داریاں نبھانے کے ساتھ ساتھ ذرائع ابلاغ کو زیادہ سے زیادہ آزادی دیں گے تاکہ وہ اپنا بنیادی کردار بہتر طریقے سے ادا کرسکیں اور عوام کی بھی میڈیا تک رسائی ہوسکے۔ یہی ہمارے آئین کی بھی روح ہے۔ آئین کی دفعہ 19 (1) (الف)،جو تقریر و اظہار خیالات کی آزادی سے متعلق ہے،کی آئین میں شمولیت اس بات کا معتبر دستاویزی ثبوت ہے۔
(مضمون نگار آزاد صحافی، مصنف، سابق بیورکریٹ اور عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تاحیات رکن ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS