ہندوستانی سماج اور ادب کا مزاج

0

زین شمسی

طفل مکتب بھی اس بات سے آشنا ہیں کہ ادب سماج کا آئینہ ہوتا ہے۔ یہ آشنائی اس لیے بھی ہے کہ اس جملے کو ہزاروں بار کہا گیا اورلاکھوں بار لکھا گیا ہے۔ گویا سماج میں ہونے والی سرگرمیوں پر ادب کی نظر رہتی ہے اور وہ اسے جذباتی یا احتجاجی طور پر گاہے بگاہے بیان کرتا رہتا ہے۔ خواہ افسانہ کی شکل میں یا پھر شاعری کی صورت میں یا کبھی کبھی ناول کے پیرایہ میں۔ میرے ایک دوست ہیں، جب ان سے اس سلسلہ میں بات ہوئی تو وہ کہنے لگے کہ اگر ادب سماج کا آئینہ ہی ہے تو پھر اس کی ضرورت کیا ہے۔ سماج میں وقوع پذیر حالات و حادثات کی عکاسی کے لیے اور بھی بہت سارے شعبہ ہیں، مثلاً صحافت، قانون، انصاف اور آئین۔ سماج کو سدھارنے کے لیے یہ سب کافی ہیں، اس میں ادب بھی اگر داخل ہے تو پھر اس میں کون سی بڑی بات ہے۔ بات تو تب ہوتی جب ادب سماج کا سہارا بن پاتا۔ میں نے کہا کہ سہارا تو بنا بھی ہے۔ تحریک آزادی میں اور بعد میں ہندوستان کی تعمیر میں ترقی پسند ادب نے نمایاں کردار ادا کیا ہے، اس سے تمام لوگ واقف ہیں۔ انہوں نے کہا، اچھا آپ تاریخ میں جانے لگے ہیں تو میری رائے بھی آپ سے مختلف نہیں ہے۔ دراصل میں آج کے پس منظر میں یہ بات کہہ رہا تھا کہ آج جس طرح کا سماج ابھر رہا ہے اس میں ادب کا رول صفر ہے۔ ویسے تو وہ قصہ آپ جانتے ہی ہیں کہ جواہر لعل نہرو اور رامدھاری سنگھ دنکر کہیں جا رہے تھے، اچانک نہرو جی سیڑھی سے پھسل گئے، دنکر نے انہیں سہارا دیا۔ نہرو نے ان کا شکریہ ادا کیا تو دنکر نے کہا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، جب جب سیاست ڈگمگا تی ہے، ساہتیہ اسے سہارا دیتا ہے۔ نہرو جی مسکرائے اورکہیں کھوگئے۔دراصل ادب سماج اور سیاست کا سہارا ہوتا ہے۔ ادب کا کام سماج کو آئینہ دکھانا ہوتا ہے نہ کہ آئینہ بن کر رہنا۔آج ادب سماج کو آئینہ نہیں دکھا رہا ہے بلکہ اس کا آئینہ بنتا جا رہا ہے۔ انہوں نے ایک بڑی بات یہ کہی کہ ادب کو سماج کا آئینہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ سماج کو ادب کا آئینہ ہونا چاہیے، یعنی جیسا ادب لکھا جائے سماج اسی طرح کا ہوجائے۔ وہ ادب کے آئینہ میں اپنے گیسو سنوارے تبھی سماج اور ادب کی صحت یابی ممکن ہے ورنہ پھر افلاطون کا کہا صحیح ہے کہ ریاست سے شاعروں کو نکال باہر کیا جانا چاہیے کہ یہ نقل کی نقل اتارتے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ جب جب سیاست یا سماج ادب سے دور ہوا ہے تب تب انسانیت ڈانواڈول ہوئی۔ گزشتہ بیس بائیس برسوں میں ادب ایوارڈ اور ریوارڈ کے جنجال میں پھنس کر اپنی دشا اور دِشا بگاڑ چکا ہے۔ اسے بالکل آسان طریقہ سے سمجھنا ہو تو اس کا موازنہ سائنس سے کر کے دیکھئے۔ سائنس کسے کہتے ہیں،اس کا سیدھا جواب یہ ہے کہ ہر وہ پیچیدہ اور محنت کش کام جوکم وقت میں کسی سائنسی ٹولز کے ذریعہ آسانی سے ہو جائے، سائنس کہلاتی ہے، اب ادب کے بارے میں سوچئے کہ ادب کیا ہے تو اس کا بھی بہت آسان فارمولہ ہے کہ ہر وہ واقعہ یا حادثہ یا خیالات کا اظہار جس میں جذبات و احساسات کارفرما ہو، ادب ہے۔ یعنی اگرکوئی انسان کسی وجہ سے مر گیا یا مار دیا گیا تو اس کا ذکر اس طرح سے کرناکہ ایک زندگی کے تلف ہوجانے سے اس کے اثرات کیا کیا ہو سکتے ہیں یا ہوئے ہیں جس پر نہ ہی صحافت کی نظر گئی، نہ ہی پولیس سمجھ پائی اور نہ ہی قانون اس تہہ تک پہنچا ۔ گویا ادب کو کسی چیز کی تہہ تک پہنچنے میں جذبات و احساسات کا سہارا لینا ضروری ہے تاکہ اس کے اس پہلو کو نمایاں کیا جاسکے جس سے انسانیت مجروح نہ ہوسکے۔ جذبات و احساسات ، ضمیر و آنسو ادب کے ویسے ہی ٹولز ہیں جیسے ہتھوڑا ، مشین اور بجلی سائنس کے ٹولز ہیں۔ تو ہم دیکھتے ہیں کہ سائنس اپنی مشین کے ساتھ کامیاب ہے اور ادب جذبات و احساسات کے ساتھ ناکام ہے۔ یعنی ادب جو کام کر رہا ہے اس کی تاثیر دیکھنے کو نہیں مل رہی ہے جبکہ اس کے برعکس یہ دیکھا جا رہا ہے کہ آہستہ آہستہ سماج بے حسی کا شکار ہوتا جاتا ہے۔
گویاسماج سے انسانی ضمیر،احساسات و جذبات فنا ہونے کے قریب ہے۔ اس لیے اس سماج کو نہ ہی بدھیا کا دکھ پریشان کرتا ہے اور نہ جھوری کی مجبوری سمجھ میں آتی ہے اور نہ ہی سکینہ کے درد سے اسے کوئی لینا دینا ہے اور نہ ہی سوگندھی کی ہتک اسے کچھ سکھا پاتی ہے۔
ہر وہ سماج جو کاروباری ہوتا جائے گا، ادب کو بھولتا جائے گا۔مادی دنیا ادب سے ناآشنا ہوتی ہے، اس لیے یہ کہنا بالکل درست نہیں ہے کہ آج کا ادب پہلے کے ادب سے کمتر ہے یا آج کی تخلیق پہلے کی تخلیق سے دمدار نہیں ہے، ادیبوں کا تصور تاریکی کا لبادہ اوڑھ چکا ہے۔ لوگ آج بھی لکھ رہے ہیں ، لیکن قارئین کی آنکھوں میںجو درد کے آنسو ہوا کرتے تھے، وہ سوکھ چکے ہیں کیونکہ آنسو کا سیدھا تعلق جذبات و احساسات اور زندہ ضمیر سے ہوتا ہے اور یہ کہنے میں تامل نہیں ہونا چاہیے کہ سماج قحط الرجال کا شکار ہے۔ کسی کی موت، کسی کا استحصال، کسی پر ظلم، کسی کے ساتھ ناانصافی سماج کو کچوکے نہیں لگاتی، یہاں تک کہ مظلوموں کی طرف دیکھنا بھی لوگ اپنی توہین سمجھتے ہیں۔
ایسے میں ادب کیا کرے۔ ادب کے ٹولز ہی ٹوٹ چکے ہیں، تو ادب سماج کا آئینہ ہو یا سماج ادب کا آئینہ ہو، اس بحث کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ایک اچھا ادب تبھی تخلیقیت کے معیار تک پہنچ سکتا ہے جب اس کے قارئین کے آنسو صحیح و سلامت رہیں۔ ورنہ صحافت کی طرح ادب بھی سماج کا ایک غیر ضروری شعبہ بن کر رہ جائے گا بلکہ رہ رہا ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS