ندیوں کو باندھنے سے آتا ہے سیلاب

0

پنکج چترویدی
(گزشتہ سے پیوستہ)
گجرات کے ضلع پنچ محال ضلع کے ہالول علاقے میں دیو ندی ڈیم کے 6 دروازے جزوی طور پر کھولنے کے بعد وڈودرا کی تحصیل واگھوڈیا کے 19 اور ڈبھوئی تحصیل کے 7 گاؤں کے لوگوں کو گھربار چھوڑ کر بھاگنا پڑا ہے۔ ڈیموں میں پانی کی سطح بڑھ رہی ہے۔ نرمدا ڈیم کے پانی کی سطح اس کی گنجائش کے مقابلے اب 47.71 فیصد ہوگئی ہے۔ ریاست کے اس سب سے بڑے ڈیم میں سات دنوں میں پانی کا ذخیرہ سات فیصد بڑھ گیا ہے۔ دیگر بڑے 206 ڈیموں میں پانی کی گنجائش کا 33.61 فیصد جمع ہوگیا ہے۔ 18 ڈیم ہائی الرٹ پر ہیں جن میں 90 فیصد سے زیادہ پانی ہے جبکہ آٹھ میں 80 فیصد سے زیادہ اور 90 فیصد سے کم ہونے پر الرٹ اور 11 ڈیموں میں 70 فیصد سے زیادہ اور 80 فیصد سے کم پانی ہے، ان ڈیموں کو عام الرٹ پر رکھا گیا ہے۔ انہی ڈیموں سے آہستہ آہستہ پانی بھی چھوڑا جا رہا ہے تاکہ شدید بارش کے پانی کو بچایا جا سکے اور یہی پانی قیامت بن کر شہروں میں داخل ہو رہا ہے۔ نرمدا ڈیم کے پانی کی سطح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اپرواس میں بارش سے 42240 کیوسک پانی آ رہا ہے۔ نرمدا ڈیم میں پانی کی سطح 115.58 میٹر ہے۔ پورے گجرات میں بارشوں کے باعث نہر میں پانی چھوڑنا بند کر دیا گیا ہے۔ گروڑیشور میں 35 میٹر اونچا ویئرڈیم بارش کی وجہ سے اوورفلو ہو گیا ہے۔ ڈیم کے اوور فلو ہونے سے نرمدا ندی میں سیلاب جیسی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ نرمدا ندی کے پانی کی سطح میں اضافے کی وجہ سے ساحلی علاقے کے لوگوں کو الرٹ کر دیا گیا ہے۔ اس ندی کا بہاؤ سیدھے چنود کرناڑی سے ہوکر بھروچ تک جاتا ہے۔
جس سردار سروور کو ملک کی ترقی کا نمونہ کہا جا رہا ہے، اسے اپنی پوری صلاحیت سے بھرنے کی ضد میں اس کے دروازے کھولے نہیں گئے اور سردار سروور ڈیم سائٹ سے مدھیہ پردیش کے دھار ضلع کے چکھلدا تک نرمدا ندی کی سمت تبدیل ہوگئی ہے۔ ندی مشرق سے مغرب کی طرف بہتی ہے، لیکن اب مشرق سے مغرف کی طرف بہہ رہی ہے۔ اس کی وجہ سردار سروور ڈیم کے گجرات کے پانی کا ذخیرہ کرنے والے علاقے میں شدید بارش بتائی جا رہی ہے جبکہ مدھیہ پردیش میں بارش کم ہوئی ہے۔ دھار ضلع کے نرمدا کے کنارے واقع تیرتھ استھل کوٹیشور اور زیرآب علاقے کے گاؤں چکھلدا میں نرمدا مخالف سمت میں بہتی ہوئی نظر آئی۔گجرات میں شدید بارش ہونے کی وجہ سے مدھیہ پردیش کے تین اضلاع عالی راج پور، دھار اور بڑوانی میں سردار سروور ڈیم کے140 کلومیٹر کے دائرے میں یہ منظر دیکھا گیا۔ ظاہر ہے کہ آنے والے دنوں میں جب مدھیہ پردیش کے ان علاقوں میں بھی بارش ہوگی تو زبردست تباہی دیکھنے کو ملے گی۔ مدھیہ پردیش کے رائے سین کا بارنا ڈیم اوور فلو ہونے لگا ہے، جس کے بعد 18 جولائی کو ڈیم کے 6 دروازے کھول دیے گئے، جس کی وجہ سے آس پاس کے علاقے پانی میں ڈوب گئے۔ سڑکوں پر پانی جمع ہوگیا۔ لوگوں کا سامان بھی پانی میں ڈوب گیا۔ ڈیم سے پانی چھوڑنے کی وجہ سے نیشنل ہائی وے 145 پر تعمیر پل پانی میں ڈوب گیا ہے۔۔۔۔ بارنا ندی پر تعمیر پل کے ا وپر سے پانی بہنے لگا ہے جس سے نقل و حمل بھی متاثر ہوئی۔
بہار میں تو ہر سال 11 اضلاع میں سیلاب آنے کا سبب صرف اور صرف ڈیموں کا ٹوٹنا یا پھر گنجائش سے اوپربہنے والے پانی کی وجہ سے ڈیموں کے دروازے کھولنا ہوتا ہے۔ مہاراشٹر کے گڑچرولی میں جب بادل خوب برس رہے تھے تبھی سرحد پر تلنگانہ حکومت کے مینڈی کٹا ڈیم کے تمام 65 دروازے کھول دیے گئے۔ جب تین لاکھ 81 ہزار 600 کیوسک پانی سرونچا تہال کے گاوؤں تک بھرا تو وہاں تباہی مچ گئی۔ ادھر مدھیہ پردیش میں گاندھی ساگر اور بادھ ساگر ڈیم کے دروازے کھولنے کی وجہ سے نرمدا اور سون کے پانی کی سطح میں زبردست اضافہ ہونے سے ساحل پر آباد سیکڑوں گاوؤں خطرے میں ہیں۔ اتر پردیش میں گنگا اور جمنا کو جہاں بھی باندھنے کی کوششیں کی گئیں وہیں اس بار آبی تباہی ہے۔ اس بار دہلی میں بارش نہیں ہوئی، لیکن ہتھنی کنڈ بیراج میں پانی کے اضافے پر دروازے کھولے جاتے ہیں اور دہلی میں ہزاروں لوگوں کو دوسری جگہ منتقل کرنا پڑتا ہے۔
دی ایشین ڈیولپمنٹ بینک کے مطابق بھارت میں قدرتی آفات میں سیلاب سب سے زیادہ تباہی مچاتا ہے۔ ملک میں قدرتی آفات سے ہونے والے کل نقصان کا 50 فیصد صرف سیلاب سے ہوتا ہے۔ 65 برسوں میں سیلاب کی وجہ سے1,09,414 افراد ہلاک ہوئے اور25.8 کروڑ ہیکٹیئر فصلوں کو نقصان ہوا۔ ایک اندازے کے مطابق کل اقتصادی نقصان 4.69 لاکھ کروڑ کا ہوگا۔ اس کا الگ سے کبھی مطالعہ نہیں کیا گیا لیکن اگر باریکی سے دیکھیں تو سب سے زیادہ نقصان ڈیم ٹوٹنے یا دروازہ کھولنے سے ہونے والی تباہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ موجودہ حالات میں سیلاب صرف قدرتی آفت نہیں بلکہ انسانی وسائل کا المیہ ہے۔ بڑے ڈیم جتنا فائدہ نہیں دیتے، اس سے زیادہ نقل مکانی، دلدلی زمین اور ہر بارش میں اس سے ہونے والی تباہی کی وجہ بنتے ہیں۔ یہ بدقسمتی ہے کہ ہمارے یہاں ڈیموں کی دیکھ بھال ہمیشہ بدعنوانی کی نذر ہو جاتی ہے۔ نہ ان کی گاد بہتر طریقے سے صاف ہوتی ہے اور نہ ہی سالانہ مرمت۔ ان سے نکلنے والی نہریں بھی اپنی گنجائش کے مطابق پانی نہیں لے جاتیں، کیونکہ ان میں بھرے ہوئے گاد کی صفائی کا کام صرف کاغذوں پر ہوتا ہے۔ کچھ لوگ اس کا حل ندیوں کو آپس میں جوڑنے میں تلاش کر رہے ہیں۔ درحقیقت ندیوں کے قدرتی بہاؤ، طریق کار، مختلف ندیوں کی اونچائی کی سطح میں فرق جیسے موضوعات کا ہمارے یہاں کبھی غیر جانبداری سے مطالعہ نہیں کیا گیا اور اسی کا فائدہ اٹھاکر بعض ٹھیکہ دار، سیمنٹ کے تاجر اور زمین کے لالچی لوگ اس طرح کی صلاح دیتے ہیں۔ پانی کو مقامی سطح پر روکنا، ندیوں کو طغیانی سے بچانا، بڑے ڈیموں پر پابندی، ندیوں کے قریبی پہاڑوں پر کھدائی پر پابندی اور ندیوں کے قدرتی راستوں سے چھیڑ چھاڑ کو روکنا کچھ ایسے عام تجربے ہیں جو سیلاب جیسی خوفناک آفت کا منہ توڑ جواب ہوسکتے ہیں۔
پانی اس وقت دنیا کے ممکنہ بحران میں سرفہرست ہے۔ پینے کے لیے پانی، صنعت، زراعت کے لیے پانی، بجلی پیدا کرنے کے لیے پانی۔ پانی کی طلب پر تمام محاذوں پر خدشات اور غیر یقینی صورتحال کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ بارش کے پانی کی ہرایک بوند کو جمع کرنا اور اسے سمندر میں ملنے سے روکنا ہی اس کا واحد حل ہے۔ اس کے لیے بنائے گئے بڑے بڑے بھاری بھرکم ڈیم کبھی ترقی کی علامت کہلاتے تھے۔ آج یہ واضح ہوگیا ہے کہ لاگت، پیداوار، وسائل ہر لحاظ سے ایسے ڈیم گھاٹے کا سودا ثابت ہو رہے ہیں۔ ورلڈ ڈیم کمیشن کی ایک تحقیق کے مطابق ایکویٹی، پائیداری، کارکردگی، شراکتی فیصلہ سازی اور جوابدہی جیسی پانچ اقدار پر مبنی ہے اور اس میں واضح کردیا گیا ہے کہ ایسی تعمیرات توقعات پر پوری نہیں اتر رہی ہیں۔ اگر پانی بھی بچانا ہے اور تباہی سے بھی بچنا ہے تو ندیوں کو بلا روک ٹوک بہنے دیں اور گزشتہ دو سو سال کے روٹ پر کوئی تعمیرات نہ کی جائیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS