عبیداللّٰہ ناصر
فیصلہ لکھا ہوا رکھا ہے پہلے سے خلاف
آپ کیا خاک عدالت میں صفائی دیں گے
(وسیم بریلوی)
آنجہانی وزیر اعظم نرسمہاراؤ نے 1991 میں ایک بہت اہم اور ضروری قانون بنایا تھا جس کے تحت تمام عبادت گاہیں 15؍اگست 1947یعنی جس دن ہندوستان آزاد ہوا تھا جس نوعیت میں ہیں، اسی نوعیت میں رہیں گی۔ اس قانون سے بابر ی مسجد کو الگ رکھا گیا تب کیونکہ اس کا مقدمہ آزادی سے پہلے سے ہی چل رہا تھا۔ اس قانون کا مقصد سنگھ پریوار کے ذریعہ چلائی جا رہی اس مہم کو روکنا تھا جس کے تحت وہ بابری مسجد کے علاوہ وارانسی کی گیان واپی مسجد، متھرا کی شاہی عیدگاہ، تاج محل، قطب مینار اور مسلم دور کی ہزاروں عمارتوں کے نیچے مندر کی بات کہہ کر سماج میں نفرت، فرقہ پرستی اور کشیدگی پھیلائے رکھ کر سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ بابری مسجد مقدمہ میں مسلمانوں کے ساتھ کھلی نا انصافی کے باوجود مسلمانوں نے صبر و تحمل سے کام لیا، انہیں امید تھی کہ اب جب سپریم کورٹ نے بھی آر ایس ایس کے پھیلائے جھوٹ کا پردہ فاش کر دیا ہے اور اپنے فیصلہ میں صاف لکھا ہے کہ بابری مسجد کے نیچے کوئی عمارت نہیں تھی، بابری مسجد کوئی مندر توڑ کر نہیں بنائی گئی ، بابری مسجد میں1949کی دسمبر کی رات کو مورتیاں غیر قانونی طریقے سے رکھی گئیں اور1992 میں بابری مسجد کا انہدام غیر قانونی تھا حالانکہ ان سچائیوں کے اعتراف کے بعد انصاف کا تقاضہ تھا کہ بابری مسجد کی زمین مسلمانوں کو واپس کر دی جائے لیکن زمین رام مندر کی تعمیر کو دے دی گئی اور مسجد کا مقدمہ لڑنے والے سنی وقف بورڈ کو اصل ایودھیا سے قریب 25کلو میٹر دور دھنی پور گاؤں میں پانچ ایکڑ زمین مسجد کی تعمیر کے لیے دے دی گی۔ یہ زمین لینا ہو سکتا ہے سرکاری ادارہ سنی وقف بورڈ کی قانونی مجبوری رہی ہو لیکن ملت کے لیے یہ بے حسی اور بے شرمی کی بات تھی۔ خیر اصل موضوع یہ ہے کہ بابری مسجد کے معاملہ میں آر ایس ایس کے جھوٹ کا پردہ فاش ہوجانے کے باوجود اور 1991کا قانون ہونے کے باوجود وارانسی کے سول جج نے گیان واپی مسجد کے سلسلہ میں پانچ خواتین کی مسجد سے ملحق شرنگار گوری مندر میں پوجا کی درخواست منظور کرتے ہوئے گیان واپی مسجد کے سروے کا حکم جاری کر دیا، یہی نہیں اس سلسلہ میں الٰہ آباد ہائی کورٹ سے جاری 30سال پرانے ایک حکم امتناعی کو بھی سول جج نے نظرانداز کر دیا اور ایک سروے کمشنر مقرر کرکے مسجد کے سروے کا حکم دے دیا۔ اس پر جب اعتراض ہوا کیونکہ مقرر کیے گئے کمشنر کا تعلق آر ایس ایس سے وابستہ ایک تنظیم سے تھا تو اس کو ہٹانے کے بجائے دو اور کورٹ کمشنر مقرر کردیے یعنی تین کورٹ کمشنروں نے سروے کیا۔ بات بس یہیں پر نہیں رکی ایک کورٹ کمشنر نے وضو کے تالاب سے برآمد چیز کو شیولنگ قرار دیتے ہوئے عدالت کو اپنی رپورٹ پیش کرنے سے قبل ہی میڈیا کے سامنے دعویٰ کر دیا کہ مسجد کے تالاب سے شیولنگ برآمد ہوا ہے اور جج صاحب نے کورٹ کمشنر سے یہ سوال کرنے کے بجائے کہ انہوں نے کورٹ میں رپورٹ پیش کرنے سے قبل میڈیا کو کیوں لیک کیا، اسے شیولنگ تسلیم کرتے ہوئے تالاب کی اس جگہ کو محفوظ کرکے مسجد میں صرف بیس نمازیوں کو آنے کی اجازت دی اورمسجد میں وضو پر پابندی لگا دی۔ میڈیا خاص کر ٹی وی چینلوں نے جنہوں نے ملک میں فرقہ پرستی بڑھانے، ملک میں آگ لگانے اور سماج میں انتشار پیدا کرنے کی سپاری لے رکھی ہے، اس معاملہ کو طشت از بام کر دیا اور ’’کوا کان لے گیا‘‘ والی کہاوت کے مصداق مذکورہ شے کی نوعیت کا تعین کیے بغیرہی اسے شیولنگ مان لیا۔
امید تھی کہ وارانسی کے سول جج کے اس غیر قانونی فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ سخت رخ اختیار کرتے ہوئے ان سے یہ سوال ضرور پوچھے گا کہ1991 کے قانون کی موجودگی اور الٰہ آباد ہائی کورٹ کے حکم امتناعی کے باوجود انہوںنے یہ مقدمہ قابل سماعت کیسے سمجھا۔ سپریم کورٹ نے سول جج کے فیصلہ کے خلاف پہلے فوری طورسے حکم امتناعی دینے سے انکار کرتے ہوئے معاملہ ایک تین رکنی بنچ کے حوالہ کر دیا جس نے توازن برقرار رکھتے ہوئے مذکورہ جگہ کو محفوظ رکھنے کا سول جج کا حکم برقرار رکھا لیکن نمازیوں کی تعداد محدود کرنے کے حکم کو خارج کر دیا اور بعد میں اپنا حتمی فیصلہ دیتے ہوئے مقدمہ کو سول جج سے لے کر ضلع جج کے حوالہ کر دیا اور کہا کہ1991کے قانون کے تحت یہ مقدمہ قابل سماعت ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ ضلع جج کریں گے۔ یہ ایک عجیب و غریب بات ہی نہیں بلکہ حقیقت میں یہ ’’بھان متی کا پٹارہ‘‘ کھولنے کے مترادف ہے، اگر سپریم کورٹ کہہ دیتا کہ1991کے قانون کے تحت اب ایسا کوئی مقدمہ قابل سماعت نہیں ہو سکتا تو یہ بات پورے ملک میں لاگو ہوجاتی اور سبھی ضلع عدالتیں اس کی پابندی کرتے ہوئے ایسے مقدمہ داخل ہی نہ کرتیں۔وارانسی کے ضلع جج اگر اس قانون کے تحت یہ مقدمہ قابل سماعت نہ بھی سمجھیں تو پورے ملک کی ضلع عدالتوں کے لیے یہ نذیر نہیں ہوگا اور ہر ضلع عدالت اپنے اپنے حساب سے ایسے معاملات کی سماعت کرے گی یعنی ایک طریقہ سے اس قانون کا مقصد ہی فوت ہوجائے گا۔ یہی نہیں جسٹس چندراچوڑ نے یہ کہہ کر نئے مقدموں کے لیے دروازہ کھول دیا ہے کہ یہ قانون کسی بھی عبادت گاہ کی نوعیت کا پتہ لگانے سے نہیں روکتا، اگر چہ اس قانون کے تحت اس کی موجودہ پوزیشن نہیں بدلی جا سکتی۔ سمجھا جا سکتا ہے کہ اس سے کتنے مقدمے کہاں کہاں دائر ہوں گے۔ درجن بھر کے قریب تو ابھی دائر ہوئے ہیں جس میں متھرا کی عیدگاہ بھی شامل ہے۔ سپریم کورٹ کے اس حکم نے 1991کے قانون کے دانت توڑ کر اس کی روح نکال لی ہے۔
بابری مسجد مقدمہ کا فیصلہ دینے والی آئینی بنچ جس میں خود جسٹس چندرا چوڑ بھی شامل تھے، اپنے فیصلہ میں 1991کے قانون کی ضرورت اور اہمیت کا اعتراف کیا تھا اور اسے ہندوستان کی سیکولر سیاست کے تحفظ کا ایک ضروری عنصر قرار دیتے ہوئے سیکولرزم کو ہندوستان کے آئین کا بنیادی حصہ بتایا تھا۔ سپریم کورٹ نے بارہا اپنے فیصلوں میں سیکولرزم کو ہندوستانی آئین کی بنیاد بتایا ہے اور یہاں تک کہہ چکا ہے کہ پارلیمنٹ چاہے بھی تو وہ سیکولرزم کو ہندوستانی آئین سے ہٹا نہیں سکتی ہے۔ سپریم کورٹ کے اتنے واضح فیصلوں کے باوجود 1991کے قانون کی بنیادوں کو ہلانا اور اسے غیر مؤثر کرنے کی کوشش کے خلاف سپریم کورٹ کا واضح اور سخت موقف نہ اختیار کرنا تشویش اور شک تو پیدا ہی کرتا ہے۔
یہاں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ آر ایس ایس کا مقصد صرف مسلم دور کی عمارتوں کو مندروں میں تبدیل کرنا ہی نہیں ہے، وہ تاریخ کو من گھڑت طریقوں سے توڑمروڑ کر اس لیے پیش کرتی ہے تاکہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں منافرت بڑھے جس سے اس کا ووٹ بینک مضبوط ہوتا رہے اور وہ اقتدار پر قابض رہ کر اپنے منصوبوں کا ہندوستان بنا سکے لیکن اس باہمی منافرت، غلط فہمی اور بدلے کے جذبہ سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان ہو رہا ہے۔ عوام کو مذہبی معاملات میں الجھا کر ملک کے اثاثوں کو کارپوریٹ گھرانوں کے ہاتھوں کوڑیوں کے مول فروخت کیا جارہا ہے۔ نوجوانوں کو مذہب اور راشٹرواد کی ایسی افیم پلا دی گئی ہے کہ نہ انہیں اپنے لٹتے روزگار کی فکر ہے، نہ برباد ہوتی تعلیم کی، نہ معاشی طور سے کھوکھلے ہوتے ہوئے ملک کی، نہ سماجی طور سے ملک کے بکھراؤ کی چنتا ہے اور نہ ملک کی غیرمحفوظ سرحدوں کی۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ ملک کے سبھی آئینی اداروں پر آر ایس ایس نے قبضہ کر لیا ہے اور ہر جگہ سے اسے اس کی مرضی کے حساب سے فیصلے مل جاتے ہیں۔ نا انصافیوں کے نتیجے میں کیا کچھ ہوتا ہے، تاریخ کے صفحات اس سے بھرے پڑے ہیں، ان سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔ تاریخ ایک مسلسل جاری رہنے والا عمل ہے، اسے پڑھا جاتا ہے، سبق لیا جاتا ہے، لیکن اسے بدلا نہیں جاسکتا۔ یہ کوشش ملک کو کھود کر پتھر کے دور میں واپس لے جانے کی حماقت ہے، اسے فوری روکا جانا چاہیے۔
یہی نہیں گزشتہ آٹھ برسوں میں ایسے درجنوں مقدمہ سپریم کورٹ میں درج ہوئے ہیں جن میں شہریوں کے بنیادی آئینی حقوق کی پامالی اور حکومت کے مبینہ غیر آئینی فیصلے شامل ہیں۔حکومت کے مخالفین کی ایک لمبی فہرست ہے جنہیں برسوں سے ضمانت تک نہیں ملی جبکہ حکومت کے حامیوں کو پیشگی ہی مل جاتی ہے۔ مطلب یہ کہ بہت سے معاملوں میں کھلے عام نا انصافی اور دوہرا معیار سامنے آتا ہے۔ انصاف کا بنیادی اصول ہے کہ یہ ہوتا ہوئے بھی دکھے، محسوس ہو،مگر بہت سے معاملوں میں ایسا نہیں ہوا۔ عدالتوں پر سے سماج کے ایک بڑے طبقہ کا بھرم ٹوٹ جانا عدلیہ کے لیے لمحۂ فکریہ تو ہونا ہی چاہیے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]