موقع پرستوں کے نرغے میں کانگریس

0

محمد فاروق اعظمی

آج کل سیاست موقع پرستی کا دوسرانام ہے۔جسے موقع مل رہا ہے وہ حیا، شرم، لحاظ، مروت، وفاسب طاق پر رکھ کراس سے فائد ہ اٹھانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔گزشتہ 8-10برسوں کے سیاسی منظر نامہ پر نظر دوڑائیں تو قدم قدم پر اس کی مثالیں ملتی ہیں۔ ہندوستان کے تیزی سے بدلتے سیاسی اور فکری پس منظر میں یہ موقع پرستی ملک کی قدیم ترین سیاسی جماعت کانگریس کیلئے سوہان روح بن گئی ہے۔ آئے دن اس سیاسی جماعت کا کوئی نہ کوئی بڑا نام نہ صرف پارٹی سے وابستگی ختم کررہاہے بلکہ پارٹی کو بدنام کرنے کے ساتھ ساتھ فرقہ پرستی کی ملک دشمن سیاست کا ہاتھ بھی مضبوط کررہاہے۔اسی مہینہ مئی کے درمیانی ایام میں پارٹی سے جڑے دو بڑے لیڈروں نے خود کو الگ کرلیا ہے اور ’ وکاس‘ کے سفر پرروانہ ہوگئے ہیں۔کانگریس کے یہ وہ لیڈران ہیں جن پر پارٹی قیادت کو اعتماد اور بھروسہ تھا لیکن اب یہی لیڈران پارٹی کو جھٹکے دے رہے ہیں۔ نصف صدی کی طویل رفاقت کے بعد سینئر کانگریس لیڈر سنیل جاکھڑ کانگریس سے اپنا رشتہ توڑ کر بھارتیہ جنتاپارٹی میں شامل ہوگئے ہیں۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والے اس جاکھڑ خاندان کا کانگریس سے گہرا رشتہ رہا ہے۔ سنیل جاکھڑ کے والد بلرام جاکھڑدو دو بار لوک سبھا کے اسپیکر، نرسمہارائو کی کابینہ میں وزیرزراعت اور مدھیہ پردیش کے گورنرتھے۔ وہ خود پنجاب کی سیاست میں کانگریس کا نمایاں چہرہ اور کئی بار رکن اسمبلی رہ چکے ہیں، ان کے بھتیجے سندیپ جاکھڑ اس وقت بھی رکن اسمبلی ہیں۔
سنیل جاکھڑ نے ادے پور چنتن شیور کے دوران کانگریس سے استعفیٰ دے دیا۔ فیس بک لائیو پر دیے گئے اپنے استعفیٰ میں انہوں نے کانگریس پر کڑی تنقید کی اور اب بھی وہ کانگریس کی خامیاں گننے میں مصروف ہیں۔ سونیا گاندھی کا نام لیے بغیر ان پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ نے میرا دل بھی توڑا تو سلیقے سے نہیں توڑا، بے وفائی کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں۔ حالیہ پنجاب اسمبلی انتخاب میں کانگریس کی شکست کی ذمہ دار ی پارٹی سرکردہ لیڈروں پر ڈالتے ہوئے سنیل جاکھڑ نے کہا کہ پنجاب کانگریس کو دہلی میں بیٹھے ان لوگوں نے برباد کر دیا ہے جو پنجاب، پنجابیت اور سکھ مذہب کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ہیں۔
سونیا گاندھی سے بے وفائی کاشکوہ کرنے والے سنیل جاکھڑ کے آداب وفا بھی نرالے ہیں۔ سنیل جاکھڑ کیپٹن امریندر سنگھ کے استعفیٰ کے بعد پنجاب میں وزیراعلیٰ بننے کے خواہش مند تھے لیکن ان کی تمنا بارآور نہیں ہوئی اور وزارت علیا کاقرعہ فال چرنجیت سنگھ چنی کے نام نکلا۔ وہ کانگریس قیادت سے اس وقت سے ناراض تھے۔ پنجاب میں چرن جیت سنگھ چنی کو وزیراعلیٰ بنانے کا کانگریس کا مقصد دلت ووٹروں کو راغب کرناتھا۔ کانگریس کو امید تھی کہ پنجاب اسمبلی انتخاب میں چرنجیت چنی کی وجہ سے دلت ووٹ حاصل ہوں گے اور ایک بار پھر کانگریس کو اقتدار ملے گااور اس سے یوپی کے دلت ووٹروں پر بھی اس کا اچھا اثر پڑے گا۔ لیکن انتخابات کے نتائج بتاتے ہیں کہ کانگریس کی یہ حکمت عملی کارگر ثابت نہیں ہوئی۔ کانگریس پنجاب میں اقتدار سے باہر ہوگئی، اس کے بعد سے ہی سنیل جاکھڑ کو عوامی طور پر اپنی ناراضگی ظاہر کرنے کا موقع ملا۔ انہوں نے پنجاب میں شکست کا الزام ریاستی کانگریس سے لے کر دہلی تک میں بیٹھے کانگریس لیڈروں پر لگایا۔ اگر کانگریس انتخاب جیت جاتی تو شاید سنیل جاکھڑ کا رویہ اتنا سخت نہ ہوتا، بلکہ وہ بغیر کسی عہدہ کے بھی حکمراں جماعت کے ساتھ ہی رہتے۔ لیکن اب صورتحال مختلف ہے۔ کانگریس اس وقت کمزور نظر آرہی ہے، اس لیے سنیل جاکھڑ اپنا سیاسی مستقبل سنوارنے کیلئے بی جے پی میں چلے گئے ہیں۔
کانگریس چھوڑنے والے کم و بیش تمام سیاسی بازی گروں نے پارٹی چھوڑنے کی یہی وجہ بتائی ہے، جو سنیل جاکھڑبتارہے ہیں۔ جیتن پرساد سے جیوترادتیہ سندھیاتک بھی پارٹی قیادت اور دوسرے سرکردہ لیڈروں کوہی متہم کرکے اپنی موقع پرستی کاجواز فراہم کرتے ہیں۔کسی خاص سیاسی طاقت اور عوام میں کوئی خاص مقبولیت نہ ہونے کے باوجود ان لیڈروں نے طویل عرصے تک اقتدار اور عہدے کا لطف اٹھایا۔ لیکن جب کانگریس کی عوامی گرفت کم ہونے لگی اوران لیڈروںکے مفادا ت کا دائرہ سکڑنے لگاتو انہیں پارٹی میں اچانک خامیاں نظر آنے لگیں اورچڑھتے سورج کی پوجا کیلئے وہ ’وکاس‘ کے سفر پر روانہ ہوگئے۔
’وکاس‘ کے اس سفر میںسنیل جاکھڑ کا ہم رکاب بننے کیلئے گجرات پردیش کانگریس کے کارگزار صدر ہاردک پٹیل بھی تیار کھڑے ہیں۔ادے پور میںپارٹی کے نوسنکلپ چنتن شیور میں شامل ہونے کے بجائے انہوں نے کانگریس میں اپنے عہدہ اور بنیادی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ گجرات میں طبقاتی جدو جہد پاٹیدار تحریک سے سیاست میں قدم رکھنے والے ہاردک پٹیل 2019 کے لوک سبھا انتخاب سے قبل کانگریس میں شامل ہوئے تھے۔اگلے ہی سال پارٹی نے انہیں گجرات پردیش کانگریس کی کمان سونپ دی۔گجرات میں اگلے چند مہینوں میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات ہونے ہیں ا ور پارٹی کو ان سے توقع تھی کہ وہ اس انتخاب میں قائدانہ کردار ادا کریں گے۔ لیکن لوک سبھا انتخاب اور پھر اس کے بعد گزشتہ سال ہوئے پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخاب میں کانگریس کی کارکردگی کے آئینہ میں انہوں نے غالباً نوشتہ دیوار پڑھ لیا۔اس کے بعد سے ہی وہ بھارتیہ جنتاپارٹی کے لیڈروں سے رابطہ میں آگئے۔ پارٹی سے استعفیٰ دینے کی وجہ بتاتے ہوئے انہوں نے وہی زبان بولی ہے جو جیتن پرساد، جیوترادتیہ سندھیا اور سنیل جاکھڑ بول چکے ہیںلیکن ان کے بیان میں تندی اور تیزی کے ساتھ ساتھ بھارتیہ جنتاپارٹی کے خیالات کی بھی ترجمانی ہے۔خود ذات پات کی جدوجہد سے سیاست میں آنے والے ہاردک پٹیل نے کانگریس کو ذات پات کی جماعت اور گجراتیوں کے تئیں متعصب قرار دیا ہے۔ ہندو مسائل، سی اے اے، گیان واپی مسجد میں ’شیولنگ ‘جیسے غلیظ فرقہ پرستانہ موضوعات پر انہیں کانگریس سے ردعمل کی توقع تھی لیکن ان کی یہ توقع بھی پوری نہیں ہوئی جس کی وجہ سے کانگریس سے ان کا ’دل اچاٹ‘ ہوگیا۔اپنے استعفیٰ میں انہوں نے راہل گاندھی کا نام لیے بغیر ان کے کام کرنے کے انداز اور سیاست پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کئی نازیبا اور رکیک حملے بھی کیے ہیں۔
موقع شناس سیاسی بازیگر کی طرح ہاردک پٹیل نے گجرات اسمبلی انتخاب سے چند مہینہ قبل کانگریس سے استعفیٰ دے کر ایک بڑا دائو ضرور کھیلاہے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ کانگریس کو یہ سبق بھی دے گئے ہیں کہ طویل وفاداری اور پارٹی کیلئے وقف کارکنوں اور لیڈروں کو نظر انداز کرکے نوواردوں کو ترجیح دینا کانگریس کیلئے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ سنیل جاکھڑ اورہاردک پٹیل کی موقع پرستی کے بعد کانگریس کو اب سنجیدگی کے ساتھ اپنی صفوں کا جائزہ لینا ہوگا اورا یسے موقع پرست لیڈروں کی نشاندہی کرنی ہوگی جواب کسی دوسری ڈال کی تلاش میںہیں۔خاص کر انتخابی ریاستوں میںایسے موقع پرستوں کے بجائے پارٹی کے پرانے لیڈروں اور کارکنوں کو ہی آگے بڑھانا بہتر ہوگا۔ابھی ہماچل پردیش اور گجرات کے انتخابات میں کئی مہینے باقی ہیں۔ اس دوران پارٹی قیادت یہ کام بخوبی کرسکتی ہے۔ان ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میںبہتر کارکردگی پر ہی کانگریس کا مستقبل منحصر ہے۔کانگریس کو کمزور ہونے سے بچانے کیلئے ضروری ہے کہ وہ جتنی جلدہو خود کو موقع پرستوں کے نرغہ سے نکال لے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS