اب منکی پاکس کا خطرہ!

0

کورونا وائرس کوئی پہلی وبا نہیں تھی۔ وبائیں آتی رہی ہیں، وبائیں آتی رہیں گی۔ ہر وبا کورونا وائرس جیسی مہلک نہیں ہوتی مگر پہلے بھی کورونا جیسی مہلک وبائیں آچکی ہیں۔ ہسپانوی فلو ایسی ہی ایک مہلک وبا تھی جس کی وجہ سے ڈھائی کروڑ سے زیادہ لوگوں کو جانیں گنوانی پڑی تھیں، کورونا کی وجہ سے بھی 63 لاکھ سے زیادہ لوگوں کی جانیں جا چکی ہیں، اس لیے منکی پاکس سے عالمی برادری کا خوف زدہ ہونا فطری ہے۔ منکی پاکس ایک انفیکشس ڈزیز ہے۔ اس کے ہونے کی وجہ منکی پاکس وائرس ہے، یہ بیماری کچھ جانوروں اور انسانوں میں ہوتی ہے۔ بخار، سر درد، پٹھوں میں درد اور تکان محسوس ہونے کے علاوہ اس کی دیگر ابتدائی علامتیں ہیں۔ منکی پاکس پر اپنی آرا ظاہر کرنے میں عالمی ادارۂ صحت نے تاخیر نہیں کی ہے۔ اس نے اس کے پھیلنے کا خدشہ ظاہر کرکے عالمی برادری کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کا کہنا ہے کہ ’جیسے جیسے منکی پاکس سے متعلق نگرانی کا دائرہ بڑھایا جا رہا ہے، اس بیماری کے کیسز ایسے ممالک میں بھی سامنے آنے کا اندیشہ ہے جہاں یہ بیماری عام طور پر نہیں پائی جاتی۔‘ صحت کے اس عالمی ادارے کے مطابق، اب تک 12 ملکوں میں منکی پاکس کے 92 مصدقہ اور 28 غیر مصدقہ معاملے سامنے آچکے ہیں۔
منکی پاکس کیا کورونا وائرس کی طرح مہلک ہے، اس پر بحث چھڑنے کی ایک وجہ یہ رپورٹ ہے کہ یہ بیماری ایک متاثرہ انسان سے دوسرے انسانوں میں پھیل رہی ہے ۔ اس بیماری کے سلسلے میں عالمی ادارۂ صحت کو مزید تحقیق کرنی چاہیے اور اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ بتانا چاہیے، مثلاً : صحیح معنوں میں اس کا پھیلاؤ کیسے ہوتا ہے، پھیلاؤ کی رفتار کتنی ہے، ایک متاثرہ آدمی کتنے لوگوں کو متاثر کرنے کی وجہ بن سکتا ہے، اس بیماری کی وجہ سے سب سے زیادہ خطرہ کن لوگوں کو ہے، اگر یہ بیماری کسی کو ہو جاتی ہے تو اسے اس سے نجات کے لیے کیا کرنا چاہیے، کیا اس کے لیے کوئی گھریلو طریقہ بھی ہے، متاثرین کی موت کا اندیشہ کتنا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ویسے عالمی ادارۂ صحت کی طرف سے یہ بات کہی گئی ہے کہ ’منکی پاکس کے بارے میں ہدایات اور رہنمائی جلد ہی سامنے لائی جائیں گی کہ ممالک اس بیماری سے کیسے نمٹیں۔‘ امید کی جانی چاہیے کہ اس سلسلے میں عالمی ادارۂ صحت اسی طرح تذبذب کا شکار نہیں رہے گا جیسے کورونا وائرس کے معاملے میں رہا اور سچ تو یہ ہے کہ ابتدائی دنوں میں کورونا سے ٹھیک طرح سے نہ نمٹ پانے کی ایک وجہ وہ بھی بنا، کیونکہ اس کا ماننا تھا کہ کورونا وائرس متعدی نہیں ہے، ایک آدمی سے دوسرے آدمی میں نہیں پھیلتا ہے جبکہ دسمبر، 2019 میں چین کے شہر ووہان سے کورونا کے پھیلنے کے بعد سے تائیوان کی طرف سے یہ بات کہی جارہی تھی کہ کورونا ایک متعدی مرض ہے، تائیوان نے اسی مناسبت سے تیاری بھی کی۔ اسی لیے وہ بڑی حد تک اس سے اپنے لوگوں کو محفوظ رکھنے میں کامیاب رہا۔ یہ بات الگ ہے کہ گزشتہ ایک ڈیڑھ مہینے سے وہاں بھی کورونا سے بڑی تعداد میں لوگ متاثر ہو رہے ہیں اور کورونا متاثرین کے لحاظ سے وہ 51 ویں نمبر پر آچکا ہے جبکہ ابھی دو ماہ پہلے تک متاثرین کے لحاظ سے وہ 150ملکوں میں بھی شامل نہیں تھا۔ بے حد احتیاط کے باوجود اس تبدیلی کی وجہ کیا رہی، عالمی ادارۂ صحت کو اس سلسلے میں معلوم کرنا چاہیے تاکہ دیگر ممالک ہوشیار ہو سکیں۔ تائیوان کی طرح جنوبی کوریا میں بھی کورونا متاثرین کے حیرت انگیز طور پر اضافے کی اصل وجوہات جاننا ضروری ہے، کیونکہ جنوبی کوریا نے بھی ابتدائی دنوں میں ہی کورونا سے نمٹنے کی سنجیدہ کوشش شروع کر دی تھی۔ تائیوان اور جنوبی کوریا میں کورونا متاثرین کی تعداد میں اچانک اضافے کی وجوہات جاننے سے ان ملکوں کو راحت ملے گی جہاں سے کورونا وائرس کا پوری طرح صفایا نہیں کیا جا سکا ہے اور منکی پاکس بھی اپنی موجودگی سے اندیشے پیدا کر رہا ہے۔ کورونا کے ابتدائی دنوں میں صحیح گائیڈ لائنز نہ دینے کی وجہ سے عالمی ادارۂ صحت کی کافی بدنامی ہوئی تھی، اس بدنامی کا داغ وہ منکی پاکس کے بارے میں صحیح گائیڈ لائنز پیش کر کے دھو سکتا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے ذمہ دار لوگوں کو یہ بات نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ دنیا کے چند ملکوں کوچھوڑ کر باقی تمام ملکوں کے پاس مہلک بیماریوں اور وباؤں پر ریسرچ کرنے کے لیے ماہر سائنس دانوں اور طبی ماہرین کی ٹیم نہیں ہے، چنانچہ کسی نئی مہلک بیماری یا وباآنے کے بعد یہ ممالک امید بھری نظروں سے عالمی ادارۂ صحت کی طرف دیکھتے ہیں، ان کی امید کو برقرار رکھ کر ہی وہ اپنی ساکھ برقرار رکھ سکتا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS