غداری قانون پر سپریم کورٹ کافیصلہ

0

ہندوستان کی تحریک آزادی کے دوران مجاہدین آزادی کو مارنے ،پیٹنے اور ان کوقید وبند کی صعوبتیں دینے کے لئے بنائے گئے قانونSedition Lawکے تحت ہزاروں ہندوستانیوں کو جیل بھیجنے اور آزادی کے ستر سال بعد بھی بدلے کے لئے اور من مانے ڈھنگ سے اس کااستعمال کرنے کے خلاف ملک کے بااثر اور حساس طبقات میں ناراضگی ہے، جس قانون کے تحت مہاتماگاندھی،مولانا محمد علی جوہر، بال گنگا دھرتلک اور لاتعداد مجاہدین کو قید کیاگیا اس قانون کے بے جا استعمال کی رپورٹوں کے دوران سپریم کورٹ نے اہم فیصلہ صادر کیاہے جو عام شہری کو اس سے راحت دینے والاہے کہ اب پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس قانون کا بے جا استعمال نہیں کرسکتے ہیں۔
خیال رہے کہ پچھلے دنوں ہندوستان میں ہم جنس پرستی کو ایک قابل سزا جرم کے زمرے میں سے نکال کرDecrimani Gisedکیاگیا،مگر ابھی تک ہندوستان میں Sedition Actکے تحت بڑی تعداد میں لوگ جیلوں میں سڑرہے ہیں۔گزشتہ چند برسوں میں اس قانون کا غلط استعمال بہت بڑھا ہے ۔میکالے نے ہی اس قانون کو آئی پی سی میں شامل کیاتھا۔1860میں سہواًIndian Procedure Codeمیں شامل نہیں کیا جاسکاتھا مگر بعد میں 1890میں Seditionآئی پی سی کی دفعہ 124Aکے تحت قابل سزا جرم قرار دیاگیاتھا۔اس وقت جوSeditionکی سزا قرار دی گئی تھی وہ ’’مجرم کو قدرتی زندگی سے محروم کرنا اور سمندر پار بھیجنا تھا۔آزادی کے بعد 1955میں ملک سے غداری کی سزا عمر قید قرار دی گئی۔آزادی کی جدوجہد کے دوران مجاہدین آزادی کو آئی پی سی کی دفعہA 124کے تحت گرفتار کیا گیاتھا۔
یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ جب غداری کے قانونی جواز کو چیلنج کیاگیا ہو۔انسانی حقوق آزادی اوراظہار خیال کے علمبردار مسلسل اس قانون کے جوازاور اس قانون کے غلط اور سیاسی مقاصد کے استعمال کے خلاف آوازاٹھاتے رہے ہیں۔1950میں ایک مشہور کیس رمیش تھاپر بر خلاف ریاست مدراس میں سپریم کورٹ نے کہاتھا کہ سرکار نکتہ چینی ،بے اطمینانی کے اظہار اور سرکار کے تئیں منفی رجحان رکھنا Bad feelingرکھنا اظہار خیال کی آزادی پر قدغن لگانے کی وجہ نہیں بن سکتاہے۔جب تک اس قدم سے ملک کی سیکورٹی یا تحفظ کے لئے خطرہ بتایاہے اور اسی کا مقصد ملک کا تختہ پلٹنا ہے۔اس وقت جسٹس پتانجلی شاستری نے آئین ساز اسمبلی میں بحث کا حوالہ دیاتھا اس کے تحت لفظ Seditionکی غداری کو آئین کی کتب سے خارج کرنے کی بات کہی تھی۔
اس طرح کئی عدالتوں نے Sedition Act.پر منفی تبصرے کئے اور اس قانون کو بنانے کے پس پشت سامراجی طاقتوں کے ذریعہ آزادی کی تحریک کو دبانے کی منشا قرار دیاتھا۔ اس معاملہ میں کئی فیصلے سامنے ہیں ان میں پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کا 1951کا فیصلہ ہے۔جوتارا سنگھ گوپی چند برخلاف ریاست اور رام نندن گوپی چندبرخلاف ریاست اترپردیش کے معاملہ میں 1959کا الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے اور تبصرے جن میں فاضل عدالتوں نے آئی پی سی کی دفعہ 124Aکو ملک میں بے اطمینانی (جدوجہد آزادی) کو ختم کرنے کا حربہ بنایاتھا،ان دفعات کو غیر آئینی قرار دیاتھا۔
مگر اس معاملہ میں سپریم کورٹ کی پانچ رکنی آئینی بنچ نے ہائی کورٹ کے مذکورہ فیصلوں اور تبصروں کو رد کرتے ہوئے آئی پی سی کی دفعہ 124Aکے آئینی جواز کو درست قرار دیاتھا۔اس کے باوجود عدالت نے اس قانون کے بے جا استعمال پر قدغن لگانے کی بات کہی تھی اور کہاتھا کہ سرکار کے خلاف نکتہ چینی میں جب تک اشتعال انگیزی، تشدد برپا کرنے کے لئے اکسایانہ گیا ہو اس کو غداری یا Seditionکے زمرے میں نہیں رکھا جاسکتاہے۔سپریم کورٹ نے اس فیصلہ میں سات رہنما خطوط وضع کئے تھے اور بتایاتھا کہ کب ناقدانہ تقریر کو غداری Seditionکے زمرے میں نہیں رکھا جاسکتاہے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ جن تقاریر میں ریاست کے خلاف عدم اطمینان ’’نفرت‘‘،’’مذمت‘‘یہ سب غداری نہیں قرار دی جاسکتی ہیں۔صرف وہی تقاریر جن میں نظم ونسق کو خراب کرنے کے لئے بھڑکایاجائے گا، کو ہی غداری Seditionکے زمرے میں رکھا جاسکتاہے۔لہٰذا کیدار ناتھ کیس میں عدالت کے فیصلہ کے بعد غداری کے معاملہ میں عوامی نظم ونسق کو خراب کرنا،بنیادی جواز قرار دیا جائے گا۔یعنی اگر تقریر بھڑکائو ہوگی اور اس تقریر سے عوامی نظم ونسق کو خطرہ ہوگا تب ہی اس کو غداری کے زمرے میں رکھا جائے گا۔عدالت نے یہ بھی کہاتھا کہ نعرے لگانا جس سے عوامی نظم ونسق کو خراب کرنے کی دھمکی نہ ہو غداری کے زمرے میں نہیں آئے گا۔ 1995میں بلونت سنگھ بر خلاف ریاست پنجاب کے مقدمہ میں کہاگیاتھاکہ تقریر کی منشا کو Seditionکا الزام لگاتے ہوئے ضرور ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا۔اس معاملہ میں عرضی گزار نے یہ الزام لگایاتھا کہ خالصتان زندہ باد ، راج کرے گا خالصہ وغیرہ جیسے نعرے لگائے گئے تھے۔
ایک اور اہم کیس ہے ۔ڈاکٹر ونائک پٹنائک کے خلاف ریاست چھتیس گڑھ 2011میں عدالت نے کہاتھا کہ کسی بھی شخص کو غداری کے معاملہ میں مرتکب صرف تقریر کی بنیاد پر نہیں قرار دیا جاسکتاہے،جب تک کہ اس کی تقریر خود اس کی تحریر نہ ہو ۔
ہندوستان کے کئی لاکمیشنوں اور یہاں تک کہ سپریم کورٹ نے Sedition Lawکے غلط استعمال پر اپنی توجہ مبذول کرائی ہے۔گزشتہ سال سینئر صحافی ونود دوا اور حکومت کے مقدمہ میں سپریم کورٹ نے وزیراعظم پر نکتہ چینی کرنے پر صحافی ونود دوا کے خلاف درج ایف آئی آر کو رد کردیاتھا۔کورٹ نے کہاتھا کہ اس معاملہ میں غیرقانونی طریقہ سے قانون کا استعمال کیاگیاتھا۔ سپریم کورٹ کا زیربحث فیصلہ صحافی کشور وانگ کھیمکھا،کنہیالال شکلا، ترنمول ممبرپارلیمنٹ ،ترنمول کانگریس لیڈرمہوا مترا کی عرضی پر آیاہے۔ اس کیس کو سات رکنی بنچ نے سنا تھا۔اس کیس میں کیدار ناتھ کیس کے فیصلہ کے بارے میں بھی پوچھا گیاتھا کہ کیا اس معاملہ میں درست طریقہ سے فیصلہ طے ہوا تھا۔اس عرضی میں کہاگیاتھا کہ کیدار ناتھ کیس میں ملک سے غداری کی تشریح کوبیان کیاگیاہے ۔ اس کو دیگر قوانین کے زوایہ سے بھی دیکھا جائے بشمول انسداد دہشت گردی قانون یو اے پی اے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS