سپریم کورٹ کا گودھرا سانحہ پر فل اسٹاپ

0

نیلم مہاجن سنگھ

گجرات میں 2002کے گودھرا فسادات کے لیے وزیراعظم نریندر مودی کو زبردست سیاسی قیمت ادا کرنی پڑی ہے۔ پی ایم اٹل بہاری واجپئی نے گجرات کے وزیراعلیٰ سے ’’راج دھرم کی پیروی کیجیے‘‘ کی اپیل کی تھی، جس پر انہوں نے جواب دیا، ’’نبھا رہے ہیں، وہ ہی تو کررہے ہیں‘‘۔ سونیا گاندھی کی نریندر مودی کو ’’موت کا سوداگر‘‘کہنے والا توہین آمیز تبصرہ آج تک کانوں میں گونجتا ہے۔ ایک جلی ہوئی ریل کی بوگی، جس میں کئی کارسیوک مارے گئے، ابھی بھی ایک خوفناک ویڈیو سے مشابہ ہے۔ امریکہ نے نریندر مودی کے امریکہ دورہ کی اجازت نہیں دی تھی۔ ممتابنرجی جیسے ان کے مخالفین نے انہیں ’گجرات کا قصائی‘ کہا اور یہ کہانی چلتی رہی۔۔۔ گودھرا فسادات پر انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر برسوں سے بحث ہورہی ہے۔ انڈیا ٹوڈے کانکلیو میں، جہاں پی ایم نریندر مودی مہمان خصوصی تھے، یہ پہلے سے طے تھا کہ گودھرا فسادات پر کوئی سوال نہیں پوچھا جائے گا۔ بلاشبہ نریندر مودی کو اس کیس کے سبب کافی دشمنی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یہاں تک کہ اقلیتی طبقوں نے نریندر مودی کے سیکولر اصولوں کے خلاف کیچڑ اچھالا تھا۔ حالاں کہ ہندوستان کے سپریم کورٹ کے فیصلوں سے پرے کچھ بھی نہیں ہے۔ نریندر مودی پر گزشتہ 20برسوں کے سیاسی حملے، ہندوستان کے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ سے ختم ہوگئے ہیں۔ پی ایم کو پھنسانے کی، خصوصی اجازت کی پٹیشن خارج کردی گئی ہے۔ سپریم کورٹ نے آخرکار نریندر مودی پر سیاسی حملہ کی سازش پر فل اسٹاپ لگادیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں تحریر کیا ہے، ’’گزشتہ 20برسوں میں این جی او بریگیڈ نے اپنے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے عدالت کے ہر اسٹیج کا غلط استعمال کرنے کی کوشش کی۔‘‘ خصوصی تفتیشی ٹیم(ایس آئی ٹی) کی کلوزررپورٹ پر مہر لگاکر، گجرات فسادات میں وزیراعظم نریندر مودی کو پھنسانے کی سازش ختم ہوگئی ہے۔ ’سبق سیکھنے‘ کی دو دہائیوں کی طویل کوششیں ناکام رہی ہیں۔ سپریم کورٹ نے کہا ’’گجرات سرکار کے کچھ ناامیدافسران پر تنقید کی ، جو اس سازش کا حصہ تھے اور ایس آئی ٹی نے ان افسران کی ستائش کی، جنہیں جانچ میں ’سچائی کا ایک بھی حصہ نہیں ملا۔‘‘انہوں نے نریندر مودی کے خلاف لگائے گئے الزامات اور تنقیدوں کاڈٹ کر مقابلہ کیا‘‘۔ بلاشبہ نریندر مودی کو اس کیس کی وجہ سے کافی دشمنی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یہاں تک کہ اقلیتی طبقات میں رائے عامہ کو بھی نریندر مودی کے سیکولر اصولوں کے خلاف اُچھالا گیا۔ حالاں کہ ہندوستان کی عدالت عظمیٰ کے فیصلوں سے باہر کچھ بھی نہیں ہے۔ ’’ان فسادات میں پھنسے لوگوں کو پہلے ہی سزا سنائی جاچکی ہے۔ سپریم کورٹ آف انڈیا کے جسٹس اے ایم کھانولکرکی صدارت والی تین ججوں کی بینچ نے، جسٹس دنیش مہیشوری اور جسٹس سی ٹی روی کمار نے ذکیہ جعفری کی خصوصی اجازت کی پٹیشن کو خارج کردیا ہے۔ اس میں درخواست گزار نے 2002کے فسادات کے تعلق سے نریندر مودی سمیت گجرات کے کئی لیڈروں کے خلاف معاملہ درج کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ عدالت نے ایس آئی ٹی کے کام کی ستائش کی، جس نے گجرات فسادات سے وابستہ 9معاملات اور ذکیہ جعفری کے ذریعہ دائر شکایت کی بھی جانچ کی ہے۔ عدالت نے کلوزر رپورٹ کو حقائق اور ثبوتوں پر مبنی پایا ہے۔ اپنے 452صفحات کے فیصلہ میں، سپریم کورٹ نے کہا، ’’ایس آئی ٹی کے ارکان کے ذریعہ ایمانداری اور غیرجانبداری کے ساتھ کیے گئے عاجزانہ کام کے باوجود، ان سبھی معاملات میں اس عدالت کے اطمینان سمیت، اپیل کنندہ کی دلیل تھی، کہ ایس آئی ٹی کے ارکان کی دیانتداری اور ایمانداری نہیں ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ سنگین جرائم کی تفتیش کرنے کی صلاحیت والے تجربہ کار سینئر افسران کی اس عدالت کے ذریعہ ایس آئی ٹی کی تشکیل کی گئی تھی۔ اس لیے اپیل کنندہ کی اپیل مسترد کیے جانے لائق ہے۔ تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے، ہم اور کچھ نہیں کہہ رہے ہیں۔ آخرکار ہم ایس آئی ٹی افسران کی ٹیم کے ذریعہ چیلنج سے پرحالات میں کی گئی انتھک محنت کے لیے تعریف کرتے ہیں۔ آخر میں ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گجرات ریاست کے غیرمطمئن افسران کے ساتھ ساتھ دیگر لوگوں کی ایک مشترکہ کوشش، انکشافات کرکے سنسنی پیدا کرنا تھا جو ان کے اپنے علم کے لیے بھی غلط۔ ایس آئی ٹی نے گہرائی سے تفتیش کے بعد ان کے دعوؤں کے جھوٹ کو پوری طرح سے ظاہر کردیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ موجودہ کارروائی گزشتہ 16برسوں سے (شکایت تاریخ 8.6.2006کو 67صفحات میں پیش کرنے اور پھر 15.4.2013 کو 514صفحات پر مشتمل ایک احتجاجی پٹیشن دائر کرکے) جاری رکھی گئی ہے، جس میں ہر ایک کی وفاداری پر سوال اٹھانے کی دلیری شامل ہے۔ ظاہرہے، سازش کے لیے اختیار کیے گئے مکروہ حربوں کا پردہ فاش کرنے کے عمل میں شامل افسران حقیقی بات کے طور پر، ردعمل کے اس طرح کے غلط استعمال میں شامل سبھی لوگوں کو کٹہرے میں رہنے اور قانون کے مطابق آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔‘‘ سپریم کورٹ کے فیصلہ کا یہ حصہ نشاندہی کرنے کے لیے کافی ہے کہ نریندر مودی کو نشانہ بنانے کی سازش کی گئی تھی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے الزام لگایا تھا کہ اس سازش میں کانگریس اور بائیں بازو کی جماعتیں شامل ہیں، جو این جی او بریگیڈ کے ذریعے عدالت کے پلیٹ فارموں کا غلط استعمال کررہی تھیں۔ وہ انتخابی جنگ کے میدان میں نریندر مودی کے خلاف لڑائی نہیں جیت سکے۔ اس کے لیے کانگریس سمیت تمام اپوزیشن پارٹیوں نے نریندر مودی کو گجرات کے وزیراعلیٰ کے عہدہ سے ہٹانے کے لیے مرکز کی، اٹل بہاری واجپئی سرکار پر دباؤ بنانے کی کوشش کی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ گجرات میں مودی کو عوام کی حمایت حاصل ہوئی۔ گوا میں بی جے پی کی قومی ایگزیکٹیو کے دوران بھی بی جے پی مودی کے ساتھ کھڑی رہی۔ حالاں کہ مودی نے استعفیٰ دینے کی پیش کش کی تھی! نریندر مودی نے دسمبر 2002کے گجرات اسمبلی انتخابات کو ’گجرات کے وقار کی جنگ‘ بنادیا اور انہیں بدنام کرنے والی پارٹیوں کے خلاف مینڈیٹ مانگا۔ گجرات کے عوام نے پارٹی کو زبردست اکثریت کے ساتھ اسمبلی میں بھیجا۔ مودی کی مقبولیت کا گراف لگاتار بلند ہو رہا تھا۔ 2004 کے لوک سبھا انتخابات میں اگرچہ واجپئی حکومت کو شکست ہوئی تھی، لیکن گجرات میں نریندر مودی کی جیت نے ان کے قد میں اضافہ کیا۔ طویل سماعت کے بعد احمدآباد کی میٹروپولیٹن کورٹ نے26دسمبر، 2013کو ایس آئی ٹی کی کلوزر رپورٹ منظور کرتے ہوئے احتجاجی درخواست خارج کردی۔2014 کے لوک سبھا انتخابات میں مودی بی جے پی کے پی ایم امیدوار بنے۔ نریندر مودی نے گجرات میں لگاتار تین اسمبلی انتخابات جیتے تھے۔ اپوزیشن نریندر مودی کو قانون کی عدالت سے قصوروار قرار دینے میں ناکام رہی۔ وہ مودی کو عوامی نمائندگی ایکٹ (Representation of the People Act)کے شکنجے میں نہیں پھنسا سکے۔ اس ’سازشی تھیوری‘ کے ساتھ ایک بار پھر گجرات ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا۔ اسی دوران نریندر مودی ہندوستان کے وزیر اعظم بن گئے۔ گجرات ہائی کورٹ میں طویل سماعت کے بعد جسٹس سونیا گوکانی نے5؍اکتوبر2017کو ذکیہ جعفری اور تیستا سیتلواڑ کی درخواستوں کو خارج کر دیا۔ انہیں اپیل میں کوئی میرٹ نہیں ملا۔ ذکیہ جعفری اور تیستاسیتلواڑ نے 216 دن کی تاخیر کے بعد11؍ستمبر2018کو سپریم کورٹ کا رخ کیا۔ یہ ایس ایل پی گجرات ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے دائر کی گئی تھی۔ کپل سبل نے ذکیہ جعفری کی نمائندگی کی، جبکہ مکل روہتگی نے گجرات حکومت کی نمائندگی کی۔ ان کا ارادہ 2019 کے لوک سبھا انتخابات سے پہلے ہنگامہ کرنا تھا۔ جلد سماعت کرنے کے بجائے اپیل کنندہ سنوائی کو دو سال کے لیے ملتوی کرنے کی بار بار استدعا کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے آخر کار کہا کہ26؍اکتوبر 2021سے اس معاملے کی ہفتے میں تین بار سماعت کی جائے گی۔ اس کے بعد، جسٹس کھانولکر کی سربراہی والی بینچ نے فیصلہ محفوظ کر لیا کیونکہ جرح سے متعلق دستاویزات بہت زیادہ تھے۔ چھ ماہ کے انتظار کے بعد سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا۔ 26 دسمبر 2013 کو جب احمد آباد کی میٹروپولیٹن کورٹ نے ایس آئی ٹی کی کلوزر رپورٹ کو قبول کیا تو مودی نے ’ستیہ میو جیتے‘ کے عنوان سے ایک لمبا بلاگ پوسٹ کیا۔ اب نو سال بعد ایک بار پھر ’ہندوستان کی عدالت عظمیٰ نے ان کی بے گناہی پر مہر لگادی ہے۔‘نریندر مودی نے اس پر توجہ ہی نہیں دی۔ اب نریندر مودی ان سازشوں اور الزامات سے بہت اوپر اٹھ چکے ہیں۔ گجرات کے بعد انہوں نے ملک اور بیرون ملک اپنا نام کمایا ہے۔ ستیہ میو جیتے! سچائی کی فتح ہو! ایک تاریک اور ویران باب ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا۔
(مضمون نگارسینئر صحافی اور سالیسٹر برائے انسانی حقوق ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS