وطن عزیز ہندوستان کا یہ جمہوری نظام ہے کہ کوئی فیصلہ اگر کسی کے لیے باعث اطمینان نہ ہو تو وہ عدالتوں کا رخ کرسکتا ہے۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے پاس جاسکتا ہے، چنانچہ اگست 2019 میں آرٹیکل 370 کی تنسیخ کے فیصلے کو جو لوگ غلط مانتے تھے، انہوں نے اس کے خلاف عدالت عظمیٰ میں عرضی داخل کی تھی۔ اس معاملے میں کل 23 عرضیاں داخل کی گئی تھیں۔ عرضی گزاروں میں وکیل بھی تھے، سیاست داںاور صحافی بھی، کارکنان بھی تھے اور سماجی تنظیمیں بھی تھیں۔ اس معاملے پر عدالت عظمیٰ کی سماعت اور فیصلے کا انتظار بڑی شدت سے تھا۔ ہندوستان کے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی والی 5 رکنی آئینی بینچ نے، جس میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس سنجے کشن کول، جسٹس بی آر گوئی، جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس سنجیو کھنہ شامل تھے، 2 اگست، 2023 سے عرضیوں پر سماعت شروع کی تھی۔ 16 دن تک آرٹیکل 370 کی تنسیخ کے خلاف اور حمایت میں فریقین کے دلائل سننے کے بعد آئینی بینچ نے 5 ستمبر، 2023 کو فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ اس کے بعد سے اس بات کا انتظار کیا جا رہا تھا کہ عدالت عظمیٰ کیا فیصلہ سناتی ہے اور آج بروز پیر، 11 دسمبر، 2023 کو اس نے آرٹیکل 370 کی تنسیخ کو برقرار رکھنے کا فیصلہ سنا دیا۔
جموں و کشمیر کے گزشتہ اسمبلی انتخابات کے بعد پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اور بی جے پی کی حکومت بنی تھی مگر جون 2018 میں بی جے پی نے اتحادی حکومت سے حمایت واپس لے لی تھی۔ اس کے بعد وہاں گورنر راج نافذ کیا گیا۔ پھر صدر راج نافذکر دیا گیا تھا۔ آرٹیکل 370 کی تنسیخ کے وقت جموں و کشمیر میں صدر راج نافذ تھا، چنانچہ اس تنسیخ کے خلاف عرضی گزاروں کی ایک دلیل یہ تھی کہ مرکزی حکومت نے آرٹیکل 370 کو اس وقت ہٹایا جب جموں و کشمیر میں صدر راج نافذ تھا مگر فیصلہ سناتے ہوئے ہندوستان کے چیف جسٹس، ڈی وائی چندرچوڑنے کہا کہ ’صدر راج کے دوران ریاست کی طرف سے لیے گئے مرکز کے فیصلے کو چنوتی نہیں دی جا سکتی ہے۔ آرٹیکل 370 جنگ جیسی حالت میں انٹرم پرووژن تھا۔ اس کے ٹیکسٹ کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ عارضی پرووژن تھا۔‘ چیف جسٹس نے یہ بات بھی واضح کر دی ہے کہ لداخ کو جموں وکشمیر سے الگ کرکے مرکز کے زیرانتظام بنانے کا فیصلہ درست ہے۔ جموں و کشمیر کے ریاست کا درجہ ختم ہونے کے بعد سے کئی لوگوں کا یہ مطالبہ رہا ہے کہ اس کا مکمل ریاست کا درجہ بحال کیا جائے۔ ایک مطالبہ یہ بھی رہاہے کہ جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخاب کرائے جائیں۔ ان دونوں مطالبات کی نوعیت آرٹیکل 370 کو بحال کرنے کے مطالبے سے الگ تھی۔ عدالت عظمیٰ نے ان مطالبات پر بھی اپنا مؤقف واضح کیا ہے۔ جموں و کشمیر کے مکمل ریاست کا درجہ بحال کرنے کے سلسلے میں عدالت عظمیٰ نے کہا ہے کہ ’جموں و کشمیر کے مکمل ریاست کا درجہ جتنی جلدی بحال کیا جا سکتا ہے، کر دینا چاہیے۔ ‘ چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے الیکشن کمیشن کو یہ ہدایت دی ہے کہ جموں وکشمیر میں 30 ستمبر، 2024 سے پہلے اسمبلی انتخابات کرانے کے لیے اقدامات کرے۔
عدالت عظمیٰ کے آرٹیکل 370 کی تنسیخ کو برقرار رکھنے کے فیصلے کو وزیراعظم نریندر مودی نے ایک ’تاریخی‘ فیصلہ بتایا ہے۔ وزیراعظم کے مطابق، ’آرٹیکل 370 کی تنسیخ سے متعلق سپریم کورٹ کا آج کا فیصلہ تاریخی ہے اور 5 اگست 2019 کو بھارت کی پارلیمنٹ کے ذریعے لیے گئے فیصلے کو آئینی طور پر برقرار رکھتا ہے۔ یہ جموں، کشمیر اور لداخ میں ہماری بہنوں اور بھائیوں کے لیے امید، ترقی اور اتحاد کا ایک شاندار اعلان ہے۔ عدالت نے اپنی گہری دانشمندی سے اتحاد کے اس جوہر کو مضبوط کیا ہے جسے ہم، ہندوستانی ہونے کے ناطے، باقی سب سے اوپر مانتے ہیں۔‘ عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر جموں و کشمیر کے لیڈروں نے بھی اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے مگر ظاہر ہے، عدالت قانونی دلائل کی بنیاد پر فیصلے سناتی ہے، اس لیے اہمیت اس بات کی ہوتی ہے کہ اس نے کس بنیاد پر فیصلہ سنایا ہے، اس بات کی زیادہ اہمیت نہیں ہوتی کہ فیصلے سے کون خوش ہوا اور کون ناخوش۔ آرٹیکل 370 کی تنسیخ کے خلاف فیصلے پر پاکستان کی وزارت خارجہ نے بھی آرا کا اظہار کیا ہے مگر اس کی آرا کا ذکر بھی اہمیت کاحامل نہیں لگتا، کیونکہ یہ ہمارے ملک ہندوستان کا اندورونی معاملہ ہے اور اس سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ پاک حکومت کو اپنے ملک کے حالات پر توجہ دینی چاہیے تاکہ اس کے اپنے عوام خوشحال ہوں، ان کے لیے مسئلے باعث پریشانی نہ رہیں۔
[email protected]
آرٹیکل 370 پر سپریم کورٹ کا فیصلہ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS