عوامی نمائندوں کے کردار پر اُٹھتے سوال!: ایم اے کنول جعفری

0

ایم اے کنول جعفری

پارلیمنٹ میں نقدی اور تحائف لے کر سوال پوچھنے کے الزام میں ترنمول کانگریس کی تیزطرار رہنما اور پارلیمانی رکن مہوا موئترا کی رکنیت منسوخ کر دی گئی۔ یہ قدم پارلیمانی اخلاقیات کمیٹی کی سفارشات کی بنیاد پر اُٹھایا گیا۔ کمیٹی کے صدر وجے سونکرنے 500 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں مہوا کی رکنیت معطل کرکے قانونی تحقیقات کی سفارش کی۔ پارلیمانی کارروائی کے دوران اسپیکر اوم برلا نے بحث کے لیے آدھے گھنٹے کا وقت دیا۔ اپوزیشن نے رپورٹ کے مطالعے اور بحث کے لیے3-4دن اورمہوا موئترا کو اپنا موقف رکھنے کا مطالبہ کیا،لیکن اسے یہ کہہ کر نا منظورکردیا گیا کہ انہیںاخلاقیات کمیٹی کے سامنے اپنی بات رکھنے کا موقع مل چکا ہے۔ پارلیمنٹ کے سابق صدورنے ملزمان کو ایوان میں اپنی بات رکھنے کی اجازت نہیں دی ہے۔وہ اسے قانون مانتے ہوئے کوئی نئی روایت قائم نہیں کریں گے۔
پارلیمانی امور کے وزیر پرہلاد جوشی نے مہواموئترا کی رکنیت منسوخ کرنے کی تجویز پیش کی۔ اسپیکر نے مہوا موئترا کے فعل کو غیراخلاقی اور غیر مہذب بتاتے ہوئے ان کے پارلیمانی رکن بنے رہنے کو نامناسب قرار دیا۔ برطرفی کی تحریک منظور کیے جانے کے بعد ووٹنگ شروع ہوئی۔ اپوزیشن کے بائیکاٹ کے باوجود اسے صوتی ووٹ سے منظور کرلیا گیا۔ مہوا موئتراسیاست میں آنے سے قبل لندن کی مشہور کمپنی جے پی مارگن چیج میں انویسٹمنٹ بینکر تھیں، جہاں ملازمین کی اوسط تنخواہ کروڑوں روپے ہے۔ ایسی نوکری چھوڑ کر سیاست میں آنے والی خاتون پر رشوت لے کر سوال پوچھنے کی بات عجیب سی لگتی ہے۔21 جون 2019کو پارلیمنٹ میں ’نمو ٹی وی‘ بند کرنے کا مطالبہ کرچکی 49سالہ مہوا موئتر ا پارلیمنٹ میں فسطائیت کے خلاف زبردست تقریرکرنے کے بعد سرخیوں میں آئی تھیں۔ اُن پر پیسے لے کر گوتم اڈانی اور ان کی کمپنیوں کے گروپ کو نشانہ بناتے ہوئے ایوان میں لگاتار سوال پوچھنے کا الزام ہے۔ مہواموئترا کے سابق بزنس پارٹنر اور عدالت عظمیٰ کے وکیل جے اننت دیہادرائی نے اُن پر نقدی لے کر پارلیمنٹ میں سوال پوچھنے کا الزام لگاتے ہوئے سی بی آئی کے ڈائریکٹر جنرل کو کئی ثبوتوں کے ساتھ خط لکھا تھا۔اس شکایت کی بنیاد پر بی جے پی کے ایم پی نشی کانت دوبے نے 15اکتوبر کو اسپیکر کوخط لکھ کر رئیل اسٹیٹ گروپ ہیرانندانی گروپ کے اَرب پتی کاروباری اور سی ای او درشن ہیرانندانی سے نقدی اور مہنگے تحائف لے کر پارلیمنٹ میں سوال پوچھنے اور اُن کے کاروباری مفاد کو فائدہ پہنچانے کی مجرمانہ سازش رچنے کا الزام لگایا۔اوم برلا نے اس معاملے کو اخلاقیات کمیٹی کے پاس بھیج دیا،جس نے رکنیت منسوخی کی سفارش کی۔ مہوا موئترانے الزام کی تردید کی اور کہا کہ رقم یا تحفے لینے کا کوئی ثبوت نہیںہے۔ کمیٹی نے معاملے کی تہہ تک پہنچے بغیر رکنیت معطلی کی سفارش کی،جبکہ اُسے یہ حق حاصل نہیں ہے۔رکنیت منسوخی کا دارومدار اُن کے پارلیمانی پورٹل ’ لاگ اِن‘ شیئرکرنے پر ہے،جبکہ ’لاگ اِن‘ شیئر کو لے کر کوئی قانون نہیں ہے۔مہوا موئترا نے کہا کہ کنگارو کورٹ اور مودی حکومت انہیں خاموش نہیں کرا سکتی۔وہ یہ سوال کرتی رہیں گی کہ گوتم اڈانی کے 13ہزار کروڑ روپے کے کوئلہ گھوٹالے کا کیا ہوگا؟ بی جے پی کے پارلیمانی رکن ونود کمار سونکر کی سربراہی میں تشکیل پائی اخلاقیات کمیٹی نے 26اکتوبر اور2نومبرکے بعد 9 نومبر کی میٹنگ میں برطرفی کی سفارش کی رپورٹ تیار کی اور10نومبر کو اُسے اسپیکر کے پاس بھیج دیا۔ کمیٹی نے قومی سلامتی کو اہم بنیاد بناتے ہوئے سخت سزا کی سفارش کی۔الزام ہے کہ مہوا موئترا نے پارلیمانی اکاؤنٹ کی لاگ اِن آئی ڈی اور پاس ورڈ غیر مجاز افراد کے ساتھ شیئر کیا۔جنوری2019سے ستمبر 2023 تک اُن کے دبئی دوروں کے دوران پارلیمانی پورٹل پر اُن کے لاگ اِن اکاؤنٹ کا47مرتبہ استعمال کیا گیا۔ اس سنگین جرم سے قومی سلامتی متاثر ہوئی۔ اخلاقیات کمیٹی کے 10 اراکین میں پرنیت کور، ہیمنت گوڈسے، سمیدھانند، اپراجتا سارنگی، راجدیپ رائے اور صدر ونود کمار سونکر نے رپورٹ کے حق میں ووٹ دیا، جبکہ دانش علی، پی آر نٹراجن، ویتھی لنگم اور گردھاری یادو نے رپورٹ کی مخالفت کی۔
پارلیمانی رکنیت منسوخی کا یہ واحد معاملہ نہیں ہے۔ تقریباً 72برس قبل1951میں وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کی پروویزنل حکومت میں اہم کانگریسی رہنما ایچ جی مدگل کو بمبئی کی بُلین ایسوسی ایشن سے 5 ہزارروپے اور تحفے لے کر سوال پوچھنے کا الزام لگا تھا۔ 8جون 1951کو ٹی ٹی کرشنامچاری کی سربراہی میں پروفیسر کے ٹی شاہ،کاشی ناتھ راؤوید،جی دُرگا بائی اور سیدنوشیرعلی پر مشتمل5رکنی خصوصی تحقیقاتی کمیٹی بنائی گئی۔کمیٹی نے اگست1951میں پیش 387 صفحات کی رپورٹ میں الزامات کو صحیح ٹھہرایا۔ پارلیمنٹ میں بحث کے بعد ووٹنگ ہوئی،لیکن ایچ جی مدگل نے پہلے ہی استعفیٰ دے دیا۔ وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کی یوپی اے 1- سرکار میں12دسمبر2005کواسٹنگ آپریشن دریودھن میں ایوان زیریں کے10 اور ایوان بالا کے ایک ممبرپر سوال پوچھنے کے لیے پیسے لینے کا الزام لگا۔ 24 دسمبر 2005کو ووٹنگ کے ذریعہ بی جے پی کے وائی جی مہاجن، چھترپال سنگھ لودھا،اَنّا صاحب ایم کے پاٹل، چندر پرتاپ سنگھ،،پردیپ گاندھی،سریش چندیل،بی ایس پی کے نریندر کشواہا،لال چند کول اور راجہ رام پال سنگھ،آر جے ڈی کے منوج کار اور کانگریس کے رام سیوک سنگھ کی ایوان زیریں کی رکنیت ختم کی گئی۔ ان میں بی جے پی کے ایوان بالا کے رکن چھتر پال لودھا بھی تھے۔ رشوت کی رقم15 ہزارسے 1.10لاکھ روپے تک تھی۔اسپیکر سوم ناتھ چٹرجی نے ملزمان کو اپنا موقف رکھنے کی اجازت نہیں دی۔ بی جے پی نے ووٹنگ کا بائیکاٹ کیا۔جنوری 2007میں عدالت عظمیٰ نے بھی اراکین کی معطلی کو صحیح ٹھہرایا۔ پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس میں بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ رمیش ودھوڑی کی جانب سے بی ایس پی کے پارلیمانی رکن دانش علی پر فرقہ وارانہ تبصرے کا مدعا ابھی بھی اخلاقیات کمیٹی کے پاس زیرالتوا ہے۔اس پر اخلاقیات کمیٹی میں شامل دانش علی نے کہا کہ مہوا موئترا کو لے کر اخلاقیات کمیٹی بُلٹ ٹرین کی رفتار سے کام کر رہی ہے،لیکن اس سے پہلے کے معاملے پر گاڑی آگے نہیں بڑھ رہی ہے۔ الزام لگایا کہ حلف نامہ پیش کرنے والے درشن ہیرا نندانی سے پوچھ گچھ نہیں کی گئی۔
دوسری جانب رشوت لے کرپارلیمنٹ میں سوال پوچھنا بدعنوانی کے زمرے میں آتاہے۔ عوام جن نمائندوں کو منتخب کرکے ایوان میں بھیجتے ہیں،اُن سے پوری ایمانداری کے ساتھ کام کرنے، ملنے والی رقم کو حلقے کی فلاح و ترقی کے کاموں میں لگانے اور اپنے اُوپر بدعنوانی کا کوئی بھی داغ نہیں لگنے دینے کی توقع کی جاتی ہے،لیکن بدعنوانی کے معاملوں پر قدغن نہیں لگ پا رہا ہے۔2005میں حزب اختلاف کے لیڈر لال کرشن اڈوانی کی معطلی کو موت کی سزا سے تعبیر کیا تھا۔ اپوزیشن مہوا موئترا کی سزا کو جلدبازی میں لیا گیا فیصلہ اور برطرفی کو بڑی سزا کہہ رہاہے۔ معمولی سوئی تک جاپان سے منگانے والے ہندوستان کی 75برسوں کی ترقی، چاند فتح ا ور سورج کی جانب بڑھتے اقدام کا دنیا لوہا مان چکی ہے۔ ترقی پذیر سے ترقی یافتہ کی جانب تیزی سے بڑھ رہے ملک کے لیے قطعی لازم نہیں کہ1951کے قانون کو 2023 میں بھی سختی سے نافذ کیا جائے۔ کوئی بھی قانون آخری نہیں ہوتا۔ اُس میں تبدیلی کی گنجائش بنی رہتی ہے۔ ایوان سے برخاستگی کو بھی اسی نظریہ سے دیکھا جاسکتا ہے۔اگر پہلے اسپیکروں نے بدعنوانی کے ملزمان کو ایوان میں اپنا موقف رکھنے کی اجازت نہیں دی تواسے نظیر بناکر پیش کرنے کے بجائے بحث کے دوران انہیں اپنا مؤقف رکھنے کا موقع دینے سے اخلاقیات کمیٹی کی سفارشات، پارلیمنٹ کے فیصلوں اور اسپیکر کی حتمی مہر پر کوئی اثرنہیں پڑے گا۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور ادیب ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS