سوڈان خانہ جنگی کی راہ پر گامزن

0

ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

8 سال کی طویل مدت گزر جانے کے بعد، لاکھوں معصوم جانوں کی تباہی اور سخت مہلک امراض و بھکمری سے دوچار ہونے کے باوجود بھی ابھی تک یمن کی خانہ جنگی کا خاتمہ نہیں ہو سکا ہے جہاں بنیادی طور پر دو مخالف جماعتیں اقتدار پر قابض ہونے کے لیے آپس میں بر سر پیکار ہیں کہ پھر سے ایک نیا محاذ سوڈان میں کھول دیا گیا ہے اور وہاں بھی تقریباً یمن جیسے حالات کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ سوڈانی فوج اور ایک نیم فوجی جماعت جس کا نام ریپیڈ سپورٹ فورسز یا آر ایس ایف ہے اس کے درمیان سنیچر سے زبردست لڑائی کا آغاز ہو گیا ہے۔ سوڈانی فوج اور آر ایس ایف کے درمیان تناؤ کی کیفیت کئی مہینوں سے جاری تھی اور وہاں کے ماہرین لگاتار آگاہ کر رہے تھے کہ صورت حال کبھی بھی خراب ہوسکتی ہے اس لیے اس کی روک تھام کے لیے ضروری اقدامات ناگزیر ہیں لیکن اس پر توجہ نہیں دی گئی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شنبہ کے روز سوڈان کی راجدھانی خرطوم میں ہر طرف بندوق کی گولیوں اور بم پھٹنے کی آوازیں سننے کو ملنے لگیں۔ یہ واقعات مرکزی خرطوم کے اندر ملٹری ہیڈکوارٹرس اور وزارت دفاع کے ارد گرد پیش آنے شروع ہوئے اور دھیرے دھیرے صدارتی محل اور ایئرپورٹ بھی ان کی زد میں آگئے۔ اس کے بعد شہر کے الگ الگ حصوں سے تشدد اور بمباری کی خبریں موصول ہونے لگیں۔ سڑکوں پر فوج کے جوانوں کی تعیناتی عمل میں آئی اور افراتفری کا ماحول شروع ہوگیا۔ عام شہری پناہ ڈھونڈنے کے لیے ادھر ادھر بھاگنے لگے کیونکہ توپ کے گولوں اور بندوق کی گولیوں کی آواز سے ہر طرف خوف کا ماحول قائم ہوگیا تھا۔ چشم دید گواہوں نے بیان دیا ہے کہ جنوبی سوڈان جہاں آر ایس ایف کا مرکز واقع ہے وہاں بھی جھڑپوں، گولہ باریوں اور مقابلوں کا منظر نظر آیا۔اب تک تشدد کی آگ نے کئی سوڈانی شہروں کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ بریگیڈیر جنرل نبیل عبداللہ نے میڈیا کو بتایا کہ آر ایس ایف نے خرطوم اور سوڈان کے الگ الگ حصوں میں آرمی کے ٹھکانوں پر حملہ کر دیا ہے۔ جھڑپیں جاری ہیں اور فوج کی جانب سے ان کا جواب دیا جا رہا ہے اور ملک کے مفاد کے تحفظ کے سلسلہ میں تمام کوششیں کی جا رہی ہیں۔ دوسری جانب آر ایس ایف نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس کے جنگجوؤں نے خرطوم ایئرپورٹ کو اپنے قبضہ میں لے لیا ہے۔ اس کے علاوہ شمالی سوڈان کے شہر میروئے اور جنوبی سوڈان کے شہر العبید میں واقع ایئرپورٹوں پر بھی ان کا قبضہ ہوچکا ہے۔ آر ایس ایف نے اس بات کا بھی دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے صدارتی محل پر مکمل تسلط حاصل کر لیا ہے لیکن سوڈان کی ملٹری اور جنرل انٹیلی جنس سروسز نے ان دعوؤں کو غلط اور بے بنیاد قرار دیا ہے۔ سوڈانی فوج اور آر ایس ایف کے درمیان جاری اس جنگ میں سوڈانی عوام سب سے بڑی قیمت چکا رہے ہیں کیونکہ اب تک ان میں سے پچاس سے زائد جاں بحق ہوچکے ہیں اور سوڈانی ڈاکٹروں کی جماعت کے مطابق پانچ سو سے زیادہ لوگ زخمی ہوچکے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ آر ایس ایف اور سوڈانی فوج کسی زمانہ میں ایک ہی پالے میں ہوا کرتے تھے اور دونوں نے باہمی تعاون کے ذریعہ 25 اکتوبر 2021کو سوڈان کی عبوری حکومت کے خلاف بغاوت کرکے اسے گرا دیا تھا اور اس طرح سوڈان کو عوامی جمہوریت کی راہ پر جانے سے روک دیا تھا۔ لیکن جب اس اقدام کے خلاف عوام کا سخت احتجاج شروع ہوا جو ایک سال تک جاری رہا اور بین الاقوامی برادری کی طرف سے دباؤ ڈالا جاتا رہا تو اس کے نتیجہ میں 5 دسمبر 2022 کو ایک معاہدہ پر دستخط کرنے پر وہ مجبور ہوگئے جس کو فریم ورک معاہدہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس معاہدہ کی رو سے ایک نیا سیاسی پروسیس شروع ہوا تھا اور اس فریم ورک معاہدہ کے مطابق یہ طے کیا گیا تھا کہ حتمی معاہدہ سے قبل ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جائے گی جو تناؤ کا ذریعہ ہیں اور اس کے بعد ایک شہری حکومت عبوری طور پر تشکیل دی جائے گی جس کی ذمہ داری ہوگی کہ دو سال کے اندر انتخابات کروائے اور اس طرح سوڈان میں جمہوری نظام کی بحالی کا عمل پایۂ تکمیل کو پہنچ جائے گا۔ لیکن یہ کام اتنا آسان نہیں رہا جتنا کہ عالمی برادری نے سوچا تھا۔ اس راہ میں سب سے مشکل کام یہ تھا کہ سیکورٹی سیکٹر میں بنیادی اصلاحات کی ضرورت تھی جس کے لیے کسی قدر سنجیدگی اور واضح حکمت عملی کی ضرورت تھی۔ البتہ عالمی برادری کی جانب سے اس معاملہ میں عجلت پسندی کا مظاہرہ کیا گیا اور مہینوں کے کام کو ہفتوں اور دنوں میں سمیٹنے کی کوشش کی گئی جس کی وجہ سے یہ صورتحال پیدا ہوئی۔ فریم ورک معاہدہ سوڈانی فوج اور آر ایس ایف دونوں کے لیے اپنے وجود اور بقاء کی جنگ میں تبدیل ہوگیا کیونکہ اس کے تحت آر ایس ایف کو سوڈانی فوج میں ضم ہوکر اپنا مستقل وجود ختم کرنا تھا اور سوڈانی فوج کے لیے یہ لازم قرار دیا گیا تھا کہ وہ نفع بخش اقتصادی دائروں سے خود کو الگ کرکے ملک کی سالمیت پر اپنی توجہ مرکوز کریں گے۔ اس کے علاوہ فوج کے عناصر کو یہ فکر بھی ستانے لگی تھی کہ انہوں نے ماضی میں جو زیادتیاں کی تھیں ان کا حساب انہیں دینا پڑے گا۔ اس طرح اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ معاہدہ کے تئیں دونوں کی نیت کتنی صاف تھی۔ اس سے بھی بڑا مسئلہ فوج اور آر ایس ایف دونوں کے سامنے یہ تھا کہ ہر ایک طبقہ یہ سوچ رہا تھا کہ وہ دوسرے کے مقابلہ میں کمزور ہوجائے گا۔ گویا اپنے اپنے ذاتی اور محدود مفادات دونوں کے سامنے تھے اور ملک اور عوام کے مفاد سے انہیں کوئی سروکار نہیں تھا۔ آر ایس ایف کا رکارڈ انسانی حقوق کے معاملہ میں ویسے بھی بہت خراب رہا ہے اور ملینیم کے آغاز میں دارفور کے اندر جو بربریت روا رکھی گئی تھی اس کے لیے ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس کے عناصر کو ذمہ دار مانا ہے۔ لیکن اس کی موجودہ جداگانہ حیثیت 2013 میں پیدا ہوئی جب سوڈان کے معزول شدہ صدر عمر البشیر نے اسے سیدھا اپنے کنٹرول میں رکھ لیا تھا اور ان کا مقصد یہ تھا کہ یہ گروپ انہیں طاقتور جنرلوں اور خوفناک سمجھے جانے والے جنرل انٹیلی جنس کے اعلیٰ افسران سے ان کی حکومت کی حفاظت کرے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہو سکا اور عمر البشیر کی تمناؤں کے برعکس آر ایس ایف اور سوڈانی فوج نے آپس میں اتحاد کرلیا اور عمر البشیر کے خلاف 2019 میں عوام کی جانب سے جمہوریت بحالی کی جو تحریک شروع ہوئی اس کو حمایت فراہم کرکے خود عمر کو ہی معزول کر دیا اور انہیں پس زنداں ڈال دیا گیا۔ لیکن اصل کھیل اس کے بعد شروع ہوا۔ آر ایس ایف اور فوج نے اپنے اپنے دائروں میں آزادانہ طور پر کام کرنا جاری رکھا۔ ساتھ ہی ملک کی ثروت پر قابض ہونے، بیرون ملک مددگاروں کی تلاش اور اندرون ملک اپنے جواز کی راہ ہموار کرنے میں لگ گئے اور اپنے اپنے خیموں میں نئے نئے ممبران کی بھرتی کے کام میں بھی مصروف رہنے لگے۔ یہی حال فوج میں موجود عمر البشیر کے وفاداروں کا تھا۔ انہیں ڈر تھا کہ اگر فریم ورک معاہدہ کامیاب ہوگیا تو ان کے سیاسی اور اقتصادی مفادات کو سخت نقصان پہنچے گا۔ اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ دونوں کے درمیان اتحاد کی کوئی ٹھوس بنیادی نہیں تھی اور دونوں کی راہوں کا الگ ہونا ناگزیر تھا جیسا کہ تجزیہ نگاروں نے ابتداء میں ہی آگاہ کر دیا تھا۔ انہیں اندازہ تھا کہ جب آر ایس ایف اپنے آقا عمر البشیر کو اپنے مفاد کی حفاظت کے لیے دھوکہ دے سکتا ہے تو پھر اس سے یہ امید نہیں کی جا سکتی کہ وہ فوج میں ضم ہوکر اپنے وجود کو ختم کرنے پر راضی ہوجائے گا۔ اس قسم کا داخلی تناؤ پہلے سے موجود تھا لیکن عالمی برادری بطور خاص امریکہ، برطانیہ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے جو حالیہ دنوں میں آر ایس ایف اور سوڈانی فوج کے درمیان ثالثی کا کردار نبھا رہے تھے اس کو نظر انداز کر دیا۔ سوڈان کی ریسرچ اسکالر ندا وانی نے الجزیرہ سے گفتگو کے دوران بتایا کہ نوشتہ دیوار کو پڑھنے میں عالمی برادری ناکام رہی اور اسی لیے یہ کیفیت پیدا ہوئی ہے اور اندازہ یہ ہے کہ بہت جلد یہ جھگڑا نہیں سلجھے گا جیسا کہ آر ایس ایف کے سربراہ محمد حمدان داغلو کے اس بیان سے اندازہ ہوتا ہے جو اس نے الجزیرہ عربی کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں دیا تھا۔ داغلو نے کہا تھا، سوڈانی فوج کا سربراہ عبدالفتاح البرہان یا تو اپنے کیے کی سزا پائے گا یا کتوں کی موت مرے گا۔
لیکن جو مسئلہ ان دونوں سے بھی زیادہ اہم ہے وہ یہ ہے کہ عوام کو اس جنگ سے بچایا جائے اور یمن کی طرح انہیں فقر و فاقہ اور گھر بدری کی ذلت کے ساتھ ساتھ بے دردی کی موت کے حوالہ نہ کیا جائے ورنہ یہ مسئلہ مزید سنگین ہوجائے گا۔ابھی لیبیا اور شام کی حالت بھی ٹھیک نہیں ہوئی ہے تو پھر ایک الگ مسئلہ کیوں پیدا کیا جائے؟ لیکن یہ عرب اور مسلم دنیا کی بدقسمتی ہے کہ وہاں یا تو طاقتور فوجی افسران زندگی کے تمام وسائل پر قابض ہوتے ہیں یا پھر مطلق العنان حکمراں سیاہ و سفید کے مالک ہوتے ہیں جو ہر قیمت پر صرف اپنے مفادات کی حفاظت کرنے کو ترجیح دیتے ہیں خواہ اس کے لیے پورے ملک اور عوام کو ہی تباہی کے غار میں کیوں نہ دھکیل دینا پڑے۔مصر، شام، عراق اور لیبیا ہر جگہ کہانی ایک جیسی ہے۔سوڈان کی حالت بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS