عتیق اور اشرف کا قتل

0

سابق ممبر پارلیمنٹ عتیق احمد اور اس کے بھائی سابق ممبراسمبلی اشرف کو جس طرح قتل کیا گیا، اسے اتفاق نہیں کہہ سکتے ۔عتیق احمد اوردیگر مارنے کا اندیشہ پہلے سے ظاہر کررہے تھے، تبھی تو عتیق احمد کوجب پچھلی بار گجرات کی سابرمتی جیل سے پریاگ راج لایا گیا تو اس نے اترپردیش میںجان کو خطرہ ظاہر کرکے سابرمتی جیل بھیجنے کی خواہش ظاہر کی تھی ۔ عدالت نے اسے وہاں بھیج بھی دیا تھا۔اب دوبارہ اترپردیش لایا گیا توپھر وہی اندیشہ ظاہرکیا گیااوروہ اندیشہ صحیح ثابت ہوا ۔پولیس کی حراست میں ہی نہیں زبردست سیکورٹی ، میڈیا اورکیمرے کے سامنے3 جرائم پیشہ افرادنے اندھادھند فائرنگ کرکے دونوں بھائیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیااورپولیس ان کوبچانے کیلئے کچھ نہیںکرسکی ۔ جواب میں ایک گولی تک نہیں چلاسکی ۔لولیش، سنی اور ارون نام کے قاتلوں نے جس طرح عتیق اوراشرف کو مارا، اس سے کوئی بھی سمجھ سکتا ہے کہ وہ منظم قتل تھا ، انہیںعتیق ا وراشرف کی حرکات وسکنات کی جانکاری تھی ،تبھی وہ وہاں پہنچے ، اپنا کام کیا اورکام کی تکمیل کے بعد خودکو سرینڈر کردیا ۔ قاتل معمولی قسم کے جرائم پیشہ نہیں ہوسکتے ، پولیس کے حصار میں داخل ہوکر فائرنگ کرنے کی ہمت عام غنڈہ نہیں کرسکتا ۔وہ تربیت یافتہ تھے ، اسی لئے ان کی اندھا دھند فائرنگ میں گولی صرف عتیق اور اشرف کو لگی ،کسی اورکو نہیں۔گولی بھی سرپر ماری جس سے فوراً ہی موت ہوجائے ۔یہ کام پیشہ وراورسپاری کلر ہی کرسکتا ہے ۔صرف 2دن پہلے ہی عتیق کے بیٹے اسد احمد اورغلام کو انکائونٹر میںمارا گیا تھا، جہاں پولیس نے یہ کہا تھاکہ دونوں نے گولی چلائی تو جوابی کارروائی میں مارے گئے اوریہاں عتیق اوراشرف پر پولیس کے سامنے گولیاں چلتی رہیں اورجواب میں پولیس نے کچھ نہیں کیا۔عتیق احمد کو اسی دن مارا گیا جس دن اس کے بیٹے کی تدفین ہوئی ، جس میں وہ شریک نہیں ہوسکا ،پولیس دن بھر ان دونوں کو لے کر مختلف علاقوں میںچھاپہ مارتی رہی اور رات میں میڈیکل کرانے کیلئے اسپتال لے گئی تو ان کاقتل ہوگیا، ایسے حالات میں ان کے کنبہ کے باقی افرادبھی خود کومحفوظ نہیں سمجھ سکتے ۔ پولیس عتیق اوراشرف کی سیکورٹی کے تئیںاتنی لاپروا اور غیرمستعدکیسے ہوسکتی ہے ؟ عتیق اوردیگر لوگوں کا اندیشہ صحیح ثابت ہوا ، جو ریاست میں لااینڈ آرڈر پر بڑا سوالیہ نشان لگاتا ہے ۔
بتایا جاتا ہے کہ عتیق اوراشرف کو جس جگہ مارا گیا ، وہاں سے صرف 3کلومیٹر کی دوری پر الہ آباد ہائی کورٹ اور6کلومیٹر کی دوری پرپریاگ راج ایس ایس پی کی رہائش گاہ ہے ۔ایسے میں کہا جاسکتا ہے کہ صرف عتیق اوراشرف کا قتل نہیں ہوا بلکہ قانون کا بھی قتل ہوا، لوگوں میں قانون اورپولیس کا ڈر ختم ہوگیاہے، تبھی تو یہ واقعہ پیش آیا ۔ایسے واقعات میں معمول کے مطابق حکومت اترپردیش نے بھی قتل کی جانچ کیلئے سہ رکنی جوڈیشیل کمیشن تشکیل دے دیاہے، جو 2ماہ میں رپورٹ پیش کرے گا ۔فی الحال پوری ریاست میں دفعہ 144لگادی گئی اور حساس علاقوں میں پولیس کی گشت بڑھادی گئی ہے تاکہ حالات خراب نہ ہوں ۔یہ مستعدی اگر پولیس عتیق واشرف کے قتل سے پہلے دکھاتی ، جب مارنے کا اندیشہ ظاہر کیا جارہا تھا،تو قتل جیسا سنگین جرم کرنے کی نوبت نہیں آتی ۔عتیق کو اس کے کئے کی سز ا عدالت دے رہی تھی اوروہ جانچ میں تعاون کررہا تھا ، جس کیلئے وہ دوبارگجرات سے پولیس کی حراست میں اترپردیش آیا ، لیکن پولیس نے اپنی ذمہ داری نہیں نبھائی اوراپوزیشن پارٹیوں کو ریاست میں نظم ونسق کی صورت حال پر سوال اٹھاتے ہوئے غنڈہ ، مافیا اورجنگل راج جیسے الفاظ کا اسی طرح استعمال کرنے کا موقع مل گیا جو بی جے پی اس طرح کے حالات میں مخالف ریاستی حکومتوں کے بارے میں بولتی رہتی ہے ۔ اتنا تو طے ہے کہ یہ ایساواقعہ ہے ، جسے لااینڈآرڈر کے لحاظ سے نہ تو نظر انداز کیا جاسکتاہے اورنہ اس کی تاویل کی جاسکتی ہے۔شاید اسی لئے بی جے پی بیک فٹ پر نظر آرہی ہے ۔
عتیق احمد اور اشرف کا قتل ایسے وقت ہوا جب ہمارا ملک گروپ 20-کی صدارت کررہا ہے اورملک بھرمیں کانفرنسوں کا انعقاد کررہا ہے ۔گروپ 20-کے نمائندے ہمارے ملک آرہے ہیں ، یہاں کے حالات، واقعات اورکلچر کا مشاہدہ کررہے ہیں۔سیکورٹی کے تعلق سے ان کو کیا پیغام جائے گا ؟جب پولیس کی حراست وسیکورٹی اورمیڈیا کی موجودگی میں عتیق احمد جیسے لوگ محفوظ نہیں تو عام لوگوں کا کیا حال ہوگا ؟کل ملاکردیکھا جائے توعتیق احمد اوراشرف کے ساتھ جوہوا اچھا نہیں ہوا ، ان کو عدالت سے سزامل رہی تھی ، پھر ایساکرنے کی ضرورت نہیں تھی ۔اس سے بلاوجہ غلط پیغام گیا اورسوالات کھڑے ہوئے ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS