مطالعۂ کتب ذہن سازی کا بہترین ذریعہ

0
The Statesman

علیز ے نجف
موجودہ دور میں علم کے منتقل ہونے کے بیشمار ذرائع ہیں، جو کہ نوع انسانی کے لئے کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہیں، بیشک علم ہر دور میں اپنے اپنے طور پر ایک زمانے سے دوسرے زمانے تک منتقل ہوتا رہا ہے اور اس ارتقائی دور کی ایک لمبی داستان ہے، جو کہ فی الوقت زیر بحث نہیں ہے ،اس دوران ارتقاء میں کاغذ اور چھاپہ خانے کی ایجاد نے ترویج علم کو وہ مہمیز عطا کی، جس کی رفتار وقت کے ساتھ بڑھتی ہی گئی، جس کے نتیجے میں ہر روز ہزاروں سے زائد کتب شائع ہونے لگیں، جس نے ہمارے سیکھنے میں ایک بنیادی کردار ادا کیا، اب ہم شہر بہ شہر کی خاک چھانے بغیر بآسانی اس سے مستفید ہو رہے ہیں۔ اکیسویں صدی کی ڈیجیٹل دنیا نے اس کی رفتار کو برق رفتاری میں تبدیل کردیا اور اب ہم ایک کلک پر بآسانی پوری دنیا کے علوم سے بہرہ ور ہوسکتے ہیں، ہاں میرا اشارہ کتب بینی کی طرف ہے اور اگر بات کتب بینی کے فوائد کی جائے تو اس ضمن میں ابن الجہم نے بڑی بامعنی بات کہی ہے، ‘ جب میں کسی کتاب کو منگواتا ہوں اسے اچھا اور مفید پاتا ہوں تو تم مجھے یوں دیکھو گے کہ میں پڑھتا ہوا یہ دیکھتا ہوں کہ کتنے ورق باقی بچ گئے، ڈر رہتا ہے کہ کتاب ختم ہو جائے گی اور اس کے فوائد سے محروم ہو جاؤں گا ہاں اگر کتاب بڑی اور ضخیم ہوتی ہے تو میری خوشی کا کیا پوچھنا بس زندگی مل جاتی ہے ۔‘‘
ابن الجہم کا یہ جملہ واقعی طلب علم کی ایک سچی مثال ہے، جس کو ہر احساس رکھنے والا محسوس کر سکتا ہے۔ نپولین نے بھی ایک موقع پر کہا تھا کہ ’’تم مجھے قارئین کی ایک جماعت دے دو میں تمھیں قائدین کی ایک جماعت دے دوں گا ‘‘ بیشک ایک سچا اور غیر متعصب قاری اپنی کتب بینی کے ذریعے صرف ایک ہی نہیں کئی زندگیاں جیتا ہے وہ اپنی زندگی میں دوسروں کے تجربات سے بھرپور فائدہ اٹھاتا ہے وہ اپنے نظریات کو وقت اور حقائق کے ساتھ ہم آہنگ رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے وہ نہ صرف اپنے آپ کو سمجھتا ہے بلکہ دوسروں کی جگہ پہ خود کو رکھ کر ان کے رویوں و ردعمل کی اصل علت کو سمجھنے کی اہلیت رکھتا ہے، بیشک کتب بینی انسانی شخصیت و صلاحیت کو جلا بخشتی ہے وہ انسان کو نئی جہت سے سوچنا سکھاتی ہے، جبکہ ایک عام انسان جو کہ learning spirit سے محروم ہو اپنے نظریات کے دلدل میں پھنسا ساری زندگی تگ ودو میں گزار دیتا ہے، یوں تو سیکھنے کے بہت سارے ذرائع ہیں کتابیں ان میں سے ایک بہترین مستند ذریعہ ہیں ۔
یہ کتابیں ہی ہیں جو کسی کی شخصیت سازی کرتی ہیں اور کسی کے دکھوں کا مداوا ثابت ہوتی ہیں وہ فرصت کے لمحات میں بہترین وقت گزاری کا ذریعہ ہیں اور بہتوں کے لئے سچی مونس و غمخوار اور خلوت و جلوت میں بہترین رفیق ثابت ہوتی ہیں، یہ کسی بھی لمحے آپ کی دلجوئی سے منحرف نہیں ہوتی، یہ کتابیں ہی ہیں جو گزری عظیم شخصیات کے نظریات سے ہمیں آگاہ کرتی ہیں، جن سے ہماری زندگی بہت سے تلخ تجربات سے بچ جاتی ہے ،یہ نہ صرف انسانی ذہن کو تروتازہ و آسودہ بناتی ہیں بلکہ تعمیری پہلو کو بھی بیدار کرتی ہے اور ضروری نہیں کہ ہر وہ انسان جو کتابوں کا رسیا ہے اس کے اندر مذکورہ ساری خصوصیات پیدا ہی ہوں کیوں کہ کچھ ذہن ایسے بھی ہوتے ہیں ،جو سیکھنے کی غرض سے نہیں بلکہ نمود علم کی تسکین کے لئے پڑھتے ہیں اور کچھ اصلاح کے نام پہ دوسروں کی زندگیوں میں مداخلت کرنے کے لیے پڑھتے ہیں اور کچھ ایسے ہیں، جو کہ پڑھے گئے دقیق جملوں کے ذریعے دوسروں پر اپنی دھاک بٹھانے کے لئے پڑھتے ہیں وہ ایسے کھارے پانی کی طرح ہوتے ہیں، جس برتن میں سماتے ہیں اسے اپنے کھارے پن سے کھردرا بنادیتے ہیں صرف وہی لوگ ہی صحیح معنوں میں کتب بینی کا حق ادا کرتے ہیں جو نہ صرف اپنے علم میں اضافہ کرتے ہیں بلکہ اپنے رویوں اور نظریات پہ بھی کام کرتے ہیں وہ خود کو صحیح ثابت کرنے کے لئے نہیں بلکہ خود کو صحیح بااصول انسان بنانے کے لئے پڑھتے ہیں ،ان کا مقصد اپنی ذہنی، جسمانی و معاشرتی اور مذہبی صحت کو بہتر بنانا ہوتا ہے اور ساتھ میں دوسروں کی خیرخواہی اور رہنمائی کرنا ہوتا ہے۔
کتب بینی کے ضمن میں ایک اہم پہلو کتابوں کا انتخاب بھی ہے کیونکہ ہر ذہن ایک خاص طرزفکر کے ساتھ پیدا ہوتا ہے اور وہ اسی میدان میں عبور پیدا کرسکتا ہے، کچھ مجتہدانہ ذہنیت رکھتے ہیں تو کچھ مقلدانہ، اس کو مد نظر رکھ کر ہی وہ اپنی ذہنی بلوغت کی راہ ہموار کر سکتا ہے اور اس کے مطابق ہی وہ کتب بینی کے ذریعے ان علوم سے استفادہ کر سکتا ہے اس رجحان اور تعمیری عوامل کو مدنظر رکھنا ازحد ضروری ہے، کتابوں کا تعلق خواہ کسی بھی زمرے سے ہو مثلاً فنون لطیفہ، فقہ، تاریخ، ادب، اخلاقیات و مذہبیات، معاشرت وغیرہ وغیرہ ان کو پڑھنے کا مقصد ایک قاری کے نزدیک ہمیشہ انسانی زندگی کو بہتر بنانا ہو، ہم نصاب تعلیم کے نام پر بھی کتابیں پڑھتے ہیں، لیکن ہماری شخصیت کی تعمیر کے لئے ضروری ہے کہ ہم غیر نصابی کتابوں کا بھی مطالعہ کریں اس سے سوچ کو وسعت ملتی ہے اور تصور کو آفاقی و احساس عطا ہوتے ہیں۔
کتابیں پڑھنے کا ایک بہترین طریقہ یہ بھی ہے کہ قاری کتابیں پڑھنے کے بعداس کو خیال میں ہی سہی summerize ضرور کرے، اس سے پوائنٹ اور قابل ذکر باتیں ازبر ہو جاتی ہیں اور پھر زندگی میں ان پہلوؤں کو پیش نظر رکھنا آسان ہو جاتا ہے
دور جدید کی ترقی میں کتابوں کی فراہمی کا اب کوئی مسئلہ نہیں رہا اب بآسانی پی۔ڈی۔ایف کی صورت میں کتابیں بنا کسی مشکل اور خطیر رقم خرچ کئے بغیر مل جاتی ہیں، لیکن شاید کبھی کبھی آسانیاں بھی لوگوں کو تساہل پسند بنادیتی ہیں، اب لوگ کتب بینی کو ایک پرانے فیشن کی طرح متروک بنانے پر بضد ہیں، اب لوگوں کے اندر مطالعہ کی وہ روح مضمحل ہوتی جارہی ہے، جو پچھلے وقتوں میں ہماری قوم و نوع انسانی کا قابل فخر سرمایا تھا، ہاں حالات ابھی اتنے ناگفتہ بہ نہیں ہیں کہ ناامیدی و مایوسی کی تیرگی آنکھوں کو چبھنے لگے، لیکن اتنے امید افزاء بھی نہیں کہ اس طرف سے یکسر غافل ہوجائیں ،ہمیں اپنے سے وابستہ لوگوں کو اس طرف توجہ دلانے کی خاص ضرورت ہے، کیونکہ تفریحی مواد کی چکاچوند نے انھیں اتنا حواس باختہ بنا دیا ہے کہ وہ اس کی گرفت سے نکلنا ہی نہیں چاہ رہے ہیں اور بعض اوقات چاہ کے بھی اس سے خود کو آزاد کرنے میں ناکام نظر آ رہے ہیں کچھ دنوں پہلے میری نظر سے ایک ریسرچ گزری، جس میں بتایا گیا تھا 80 سے 88 فیصد لوگ اپنا 4G data صرف تفریحی مواد دیکھنے میں خرچ کرتے ہیں اور باقی چند فیصد لوگ ہی تعمیری سرگرمیوں میں خرچ کرتے ہیں، یہ ریسرچ ایک المیہ ہی تو ہے جس کے بدترین اثرات موجوہ وقت میں ہی نظر آنا شروع ہوچکے ہیں اور مستقبل کیا ہوگا یہ اظہر من الشمس حقیقت ہے، بچوں میں screen addiction کے بڑھتے کے رجحانات کا تعلق کیا اسی قبیلے سے نہیں ہے، ہمیشہ کی طرح میں آج بھی کہوں گی توازن زندگی کا حسن ہی نہیں بلکہ روح ہے اس کو maintain کرنے میں ہی ہماری بھلائی ہے، ہر نعمت انسان ہی کے لئے ہے، لیکن انتہاپسندی ہمیشہ سے ہی ضرر رساں رہی ہے خدارا اس طرف متوجہ ہوں اور اپنی اقدار کو زندہ رکھیں، مطالعہ ہمارے اسلاف کی روایت ہے تو ہماری ضرورت بھی ہے اور ذہن سازی کے لئے بہترین ذریعہ بھی ہے ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS