پیوش دیویدی
ملک میں انتخابی اصلاحات کا موضوع اکثر اٹھایا جاتا ہے لیکن حالیہ دنوں میں الیکشن کمیشن کی جانب سے اس سمت میں کچھ سرگرمی بھی دکھائی گئی ہے۔ ابھی کچھ عرصہ قبل الیکشن کمیشن کے ذریعہ سیاسی جماعتوں کے انتخابی وعدوں کے حوالے سے ایک دو صفحات پر مشتمل پرفارما جاری کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ سیاسی جماعتیں اپنے اعلان کردہ وعدوں کو پورا کرنے کے طریقے اور ان کے لیے مالیاتی انتظامات عام کریں۔ اب کمیشن نے مرکزی وزارت قانون کو ایک تجویز بھیجی ہے، جس میں ایک شخص کے صرف ایک سیٹ سے الیکشن لڑنے کے اصول کو نافذ کرنے کی بات کہی گئی ہے۔ اگر آئینی ترمیم کے ذریعہ یہ تجویز منظور ہوجاتی ہے تو پھر لیڈروں کے لیے دو سیٹوں سے الیکشن لڑنے کا راستہ بند ہو جائے گا۔
غور کریں تو عوامی نمائندگی ایکٹ1951کے مطابق کسی بھی امیدوار کو کتنی بھی سیٹوں سے الیکشن لڑنے کی اجازت تھی جو1996کی آئینی ترمیم کے ذریعہ دو سیٹوں تک محدود کردی گئی تھی۔ آج اس اصول کے تحت لیڈر دو سیٹوں سے الیکشن لڑ سکتے ہیں۔ لیکن وقتاً فوقتاً دو سیٹوں کے اصول کو بھی تبدیل کرکے ایک شخص ایک نشست کے نظام کو نافذ کرنے کی بات کی جاتی رہی ہے۔ الیکشن کمیشن نے اب سے قبل 2004 میں بھی اس سلسلے میں مرکزی حکومت کو ایک تجویز بھیجی تھی۔ لیکن تب اس تجویز پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی اور معاملہ ٹھنڈے بستہ میں چلا گیا۔ 2015میں لاء کمیشن نے بھی انتخابی اصلاحات سے متعلق اپنی 211 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں مشورہ دیا تھاکہ امیدواروں کو ایک سے زیادہ نشستوں سے انتخاب لڑنے سے روکنے کے لیے قانون بنایا جائے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہندوستانی سیاست میں ایک شخص-ایک سیٹ کے اصول کی بات کافی عرصے سے ہورہی ہے، لیکن آج تک اس سمت میں کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔ ایسے میں آج جب دوبارہ الیکشن کمیشن نے وزارت قانون کو اس سلسلہ میں ایک تجویزبھیجی ہے تو دیکھنا ہوگا کہ حکومت اس پر کیا قدم اٹھاتی ہے۔ وزیر قانون کرن رجیجو نے حال ہی میں اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’’بدلتے وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ کچھ انتخابی قوانین کی نظرثانی کی جائے جس میں مناسب شفافیت اور جوابدہی کو یقینی بنانے کی کمی ہے۔ میں الیکشن کمیشن سے تفصیلی بات کر رہا ہوں یہ جاننے کے لیے کہ عوامی نمائندگی ایکٹ اور دیگر انتخابی قوانین میں کیا بنیادی تبدیلیاں کی جائیں۔‘‘
ایک اعداد و شمار کے مطابق2014کے لوک سبھا انتخابات میں30ہزار کروڑ روپے خرچ ہوئے تھے، جو 2019میں دوگنا ہو کر60ہزار کروڑ روپے ہوگئے۔1998سے 2019 کے درمیان تقریباً20سال کے عرصے میں انتخابی اخراجات میں6سے7گنا اضافہ ہوا ہے۔ واضح رہے کہ ہندوستان میں انتخابات ایک بہت مہنگا عمل ہے۔ انتہائی وسیع ووٹر طبقہ تک پہنچنا اور محفوظ طریقے سے ان کی ووٹنگ کو یقینی بنانے کے لیے بڑی رقم درکار ہوتی ہے۔ ایسے میں جب کوئی امیدوار دو سیٹوں سے الیکشن لڑکر دونوں جگہ سے جیتنے کے بعد ایک سیٹ چھوڑ دیتا ہے تو وہاں ضمنی الیکشن کروانا پڑتا ہے جو انتخابی عمل کے اخراجات میں غیر ضروری اضافہ کا سبب تو بنتا ہی ہے، ساتھ ہی بار بار انتخابات ہونے سے ووٹروں میں الیکشن کے تئیں عدم دلچسپی پیدا ہوتی ہے۔ الیکشن کمیشن نے2004میں اس سلسلے میں مرکز کو بھیجی گئی اپنی تجویز میں یہی دلیل دیتے ہوئے اسے فنڈز کا غلط استعمال قرار دیا تھا۔ ساتھ ہی اس صورتحال کے پیش نظر سیٹ چھوڑنے والے منتخب امیدوار کو حکومت کے اکاؤنٹ میں ایک مخصوص رقم جمع کرنے کا اصول بنانے کی سفارش بھی تب الیکشن کمیشن کے ذریعہ کی گئی تھی۔ مگر اس تعلق سے زمینی سطح پر کچھ بھی نہیں ہوا۔
ایک شخص-ایک سیٹ کی مخالفت میں دلیل یہ دی جاتی ہے کہ ایسا کرنے سے الیکشن لڑنے والے امیدواروں کے ’وسیع متبادل‘ کے حقوق کی خلاف ورزی ہوگی اور سیاست میں امیدواروں کی کمی ہوسکتی ہے۔ غور کریں تو یہ دلیل پوری طرح سے فضول محسوس ہوتی ہے، کیونکہ جب جمہوریت میں سب سے اہم سمجھے جانے والے عوام کو الیکشن کے دوران ایک سے زیادہ علاقوں میں ووٹ ڈالنے کا حق نہیں ہے ،تب کسی امیدوارکے لیے ایک سے زیادہ سیٹوں سے الیکشن لڑنے کا حق کیسے ہو سکتا ہے؟ اصل بات تو یہ ہے کہ اس طرح کے دلائل کی آڑ میں لیڈر دو سیٹوں سے الیکشن لڑنے کی اپنی ناجائز سہولت کو بچائے رکھنا چاہتے ہیں۔
درحقیقت طویل عرصے سے بحث میں رہنے کے باوجود اگر ایک شخص-ایک سیٹ کے اصول پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہوسکا ہے تو اس کے پیچھے وجہ یہی ہے کہ ملک کی تقریباً تمام اہم سیاسی جماعتوں کے لیڈر ایک سے زیادہ نشستوں میں الیکشن لڑنے کے اصولوں کا فائدہ اٹھاتے رہے ہیں۔اندرا گاندھی، اٹل بہاری واجپئی اور سونیا گاندھی تک ایک سے زیادہ سیٹوں سے الیکشن لڑ چکے ہیں۔ دوسری پارٹیوں میں بھی یہی صورتحال ہے۔
سیاستدانوں کی ایک سے زیادہ نشستوں سے الیکشن لڑنے کی بہت سی وجوہات ہوتی ہیں۔ کئی بار بڑے اور بااثر لیڈر اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے اور مختلف علاقوں کے عوام کو متاثر کرنے کے مقصد سے دو سیٹوں سے الیکشن لڑتے ہیں۔وہیں جب کسی لیڈر کو اپنی ایک سیٹ سے جیت کی امید نہیں رہتی تو وہ دوسری سیٹ سے بھی الیکشن میں اترجاتا ہے۔ 2019کے لوک سبھا الیکشن میں کانگریس لیڈر راہل گاندھی اپنی روایتی سیٹ امیٹھی سے جیت کے تئیں پرامید نہ ہونے کے سبب وائناڈ سے بھی الیکشن میں اترے تھے۔ نتیجہ آیا تو وہ امیٹھی سے ہار گئے لیکن وائناڈ سے جیت کر اپنی لوک سبھا کی رکنیت کو بچانے میں کامیاب رہے۔ ظاہر ہے کہ ایک سے زیادہ نشستوں سے انتخاب کا اصول مکمل طور پر لیڈروں کے سیاسی مفادات کی تکمیل کا آلہ محض ہے، اس کا عوامی مفاد سے کوئی تعلق نہیں۔ ایسے میں مناسب ہوگا کہ مودی حکومت الیکشن کمیشن کی مذکورہ تجویز پر ضروری کارروائی کرتے ہوئے ایک شخص-ایک نشست کے اصول کو عمل میں لاکر دیگر سیاسی جماعتوں کے لیے ایک مثال قائم کرے۔ مودی حکومت نے اب تک کئی اصلاحاتی فیصلے لیے ہیں، اس لیے اس سے اس حوالہ سے بھی امید کی جا سکتی ہے۔
[email protected]