’ایک قوم- ایک زبان‘

0

ہندی ’ مسلط ‘کیے جانے کے خلاف تمل ناڈو کی قانون ساز اسمبلی میں قرار داد منظور کی گئی ہے۔ ریاست میں ایم کے اسٹالن کی قیادت والی حکمراں جماعت ڈی ایم کے کی پیش کردہ قرار داد کی حمایت میں ماسوابی جے پی تمام پارٹیوں نے ووٹ ڈالا۔ڈی ایم کے کی یہ قرار داد مرکزی تعلیمی اداروں میں ہندی کو ذریعہ تعلیم بنانے کی سفارش کے بعد سامنے آئی ہے۔اس سے قبل تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے اس سلسلے میں وزیراعظم نریندر مودی کو ایک خط بھی لکھا جس میں انہوں نے کہا کہ ہندی کو مسلط کرنے کی حالیہ کوشش ناقابل عمل ہے اور یہ تقسیم کا باعث بنے گی۔ایم کے اسٹالن کا کہنا ہے کہ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کی سربراہی والی کمیٹی نے دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی سفارش کی ہے کہ مرکزی حکومت کے اداروں جیسے آئی آئی ٹی، آئی آئی ایم، اے آئی آئی ایم ایس، مرکزی یونیورسٹیوں میں ہندی کو لازمی قرار دیا جائے۔ تعلیمی اداروں میں ذریعہ تعلیم انگریزی کی جگہ ہندی ہونی چاہیے۔نیز بھرتی کے امتحانات میں لازمی پرچوں میں سے ایک کے طور پر انگریزی کو ہٹا کرنوجوانوں کو مخصوص ملازمتوں کیلئے صرف اس صورت میں اہل قرار دیا جائے جب انہوں نے ہندی پڑھی ہو۔
یہ کوشش ہمارے آئین اور ہماری قوم کے کثیر لسانی تانے بانے کو نقصان پہنچائے گی۔’ ایک قوم- ایک زبان‘ کے نام پر ہندی کو فروغ دینے کی مسلسل کوششیں مختلف زبانوں اور ثقافتوں کے لوگوں کے بھائی چارے کے جذبے کو ختم کر دیں گی، یہ صورتحال ملک کی سالمیت کیلئے بھی نقصان دہ ہو گی۔ایم کے اسٹالن کی اس بات سے بہرحال انکار نہیںکیاجاسکتا ہے کیوںکہ بنگلہ دیش کی زندہ مثال ہمارے سامنے ہے جس کی لڑائی کی بنیادی وجوہات میں سے ایک بنگلہ زبان تھی۔ویسے بھی تمل ناڈو میں ہندی مخالف تحریک کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ سال 1937 میں جب صوبہ مدراس میں انڈین نیشنل کانگریس کی حکومت قائم ہوئی اور حکومت کے سربراہ چکرورتی راج گوپال اچاریہ نے ہندی کو لازمی قرار دینے کی کوشش کی تو دراوڑی رہنما ’پیریار‘ کی قیادت میں ہندی مخالف تحریک چلی۔ تحریک اتنی شدید اور اثر انگیز تھی کہ حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پڑے تھے، اس کے بعد جب ملک آزاد ہوا تو زبان کی بنیاد پر ریاستوں کی تشکیل کی تجویز کو بھی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔50 اور 60 کی دہائی میں بھی جب ہندی کو مسلط کرنے کی کوشش کی گئی تو زبردست تحریک چلی، کئی مقامات پر تشدد بھی ہوا،کچھ لوگوں کی جان بھی گئی۔وہاں کی ریاستی اسمبلی کے انتخابات بھی ہندی کے ایشو پر ہی ہوتے ہیں اور یہ ایشو اٹھانے والی پارٹی کامیاب بھی ہوتی ہے۔کچھ ایسی ہی صورتحال شمال مشرقی ریاستوں میں بھی ہے جہاں کی آبادی ہندی کے تسلط کے خلاف ہے اور اسے اپنی تہذیب و ثقافت پرحملہ تصور کرتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان جیسے لسانی تنوع والے ملک میں کسی ایک خاص زبان کا تسلط اور نفاذ ’تنوع میںاتحاد‘کے فلسفہ کے خلاف اورلسانی اقلیتوں کے حقوق پر ڈاکہ ہی نہیں بلکہ یہ ملک کے اتحاد و سالمیت کیلئے بھی نقصان دہ ثابت ہوگا۔لیکن برا ہو سیاست کاکہ ان سب خدشات کے باوجود یہ کوشش کی جارہی ہے۔
ویسے تو زبان آوازوں کے ایسے مجموعہ کا نام ہے جسے انسان اپنا خیال دوسروں پر ظاہر کرنے کیلئے ارادتاً نکالتا ہے۔لیکن یہ ایک سماجی شے ہے اور سماج میں ہی بنتی بگڑتی ہے۔ہر خطہ اور علاقہ کی زبان اپنی سماجی و معاشرتی ضرورتوںکے مطابق الگ الگ ہوتی ہے۔بقول احتشام حسین انسان کی سماجی ضرورتیں زبان کی تشکیل کرتی ہیں اور بالارادہ اس میں تغیرات بھی پیدا ہوتے ہیں۔ہر زبان کا ایک تشکیلی پس منظر بھی ہوتا ہے اور یہ اپنے علاقہ اور خطہ کی تہذیب وثقافت کی بھی امین ہوتی ہے۔ زبان میںسماجی، سیاسی، نسلی،ثقافتی اور اقتصادی ارتقا کی بے شمار تہیں بھی پنہاں ہوتی ہیں۔تشکیل زبان کے اس پس منظر کی روشنی میں دیکھاجائے تو ہندوستان جیسے کثیر ثقافتی،کثیرلسانی اور متنوع ملک میں تفہیمی وحدت کے نام پر کسی ایک خاص زبان کا نفاذ عملاً ممکن نہیں ہے۔اسی لیے ہندوستان میں کسی ایک خاص زبان کا تسلط قائم کرنے کے بجائے مختلف زبانوں میںآپسی انسلاک کو ترجیح دی گئی تھی۔ لیکن اب صورتحال بدلتی ہوئی نظرآرہی ہے۔ مرکز کی موجودہ حکومت پورے ملک میں ’ایک قوم -ایک زبان ‘کانعرہ لگارہی ہے۔ حکومت کی خواہش ہے کہ ایک قوم -ایک ٹیکس (جی ایس ٹی ) کی طرح ہی پورے ملک میں ایک زبان (ہندی) بھی ہوجائے۔ شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک پورے ہندوستان میں ہندی کو مسلط کرنے کی کوشش بھی شروع کردی گئی ہے۔پہلے مرحلہ میں وزیرداخلہ امت شاہ نے ہندی دیوس کے موقع پر کہاتھا کہ ہندی ہندوستان میں بولی جانے والی زبان ہوسکتی ہے اور یہ ملک کو آپس میں جوڑ کرہماری عالمی شناخت بن سکتی ہے۔ انہوں نے تنوع میں اتحاد کے بجائے یک رخی یکجہتی کی بات کہی۔اس سے قبل آنے والی نئی تعلیمی پالیسی کے مسودے میں بھی ہندی کو لازمی مضمون کے طور پر شامل کرنے اور اس کے بعد ’ایک قوم- ایک زبان‘ کی تجویز نے پہلے سے ہی لوگوںمیں ذہن میں خوف پیدا کردیاتھا۔امت شاہ کی بات گویابارودخانہ کوآگ لگانے جیسی ثابت ہوئی اور ملک کی مختلف ریاستوں خاص طور سے جنوبی اور شمال مشرقی ریاستوں سے اس کے خلاف آوازاٹھ رہی ہے۔ کاش ہندی کے مقابلہ میں خودسپردگی کاجذبہ رکھنے والے اہل اردو بھی اس طرح کی کوئی آواز اٹھانے کی ہمت پیداکرتے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS