ریاست در ریاست بی جے پی سکڑ رہی ہے

0

عبیداللّٰہ ناصر

ہماچل پردیش
کے بعد کرناٹک میں بی جے پی کی شکست فاش سے وزیراعظم نریندر مودی کے ناقابل تسخیر ہونے کا بھرم ایک بار پھر ٹوٹ گیا ہے۔لیکن پھر بھی ان کی ایک صفت کی تعریف کرنی چاہیے کہ وہ آخر دم تک لڑتے رہتے ہیں اور انتخابی مہم میں کس حد تک جا سکتے ہیں، اس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ کوئی تصور کرسکتا ہے کہ ملک کا وزیراعظم انتخابی مہم کے دوران انتخابی ضابطہ اخلاق اور آئینی جوازوں کا اس طرح مذاق اڑائے گا جیسا کہ وزیراعظم نریندر مودی اور ان کے سپہ سالار وزیر داخلہ امت شاہ اڑاتے رہتے ہیں اور جس کی ساری حدیں انہوں نے کرناٹک میں انتخابی مہم کے دوران پار کر دیں۔ پہلی بات جو قبل تعریف ہے وہ یہ کہ یہ بات بالکل صاف تھی کہ بی جے پی کرناٹک میں الیکشن ہار رہی ہے پھر بھی مودی جی آخر دم تک ڈٹے رہے یہاں تک کہ منی پور میں آگ لگی ہوئی تھی لیکن انہیں اس کی فکر نہیں تھی، ان کی فکر صرف اپنی پارٹی کو چناؤ جتانے کی تھی حالانکہ منی پور میں انہی کی پارٹی کی سرکار تھی۔ بھکتوں کی نظر میں مودی جی کا یوں کرناٹک کے میدان میں ڈٹے رہنا قابل تعریف ہے اور گودی میڈیا ان کی اس مہم جوئی کی تعریف کر رہا ہے جبکہ عام ہندوستانی اس کو بد ترین غیر ذمہ داری قرار دے رہا ہے۔جہاں تک انتخابی مہم کے دوران ان کے بیانات کی بات ہے تو وہ ان کے لیے کوئی نئی بات نہیں، وہ کس حد تک جا سکتے ہیں یہ گجرات کے وزیراعلیٰ سے لے کر اب وزیراعظم تک بار بار دکھلاتے رہتے ہیں یہاں تک کہ سابق وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ اورفوج کے سابق سربراہ جنرل کپور پر اپنے ایک بیان کے سلسلہ میں انہیں اپنے ایک وزیر کے توسط سے راجیہ سبھامیں معافی بھی مانگنی پڑی تھی۔ اتر پردیش میں انتخابی مہم کے دوران شمشان قبرستان کو لے کر ان کے بیان کا معاملہ الیکشن کمیشن بھی گیا تھا اور تین میں سے دو کمشنروں نے تو ان کی باتوں کو نظر انداز کر دیا تھا لیکن لواسا صاحب نے ان کے خلاف کمنٹ لکھا تھا جو آج تک ظاہر نہیں کیا گیا، الٹے لواسا کو کمیشن سے ہٹا کر کہیں اور بھیج دیا گیا۔ مودی، یوگی اور امت شاہ سمیت بی جے پی کے لیڈران کھلے عام فرقہ وارانہ بنیاد پر انتخابی مہم چلاتے ہیں، مذہب کا کھل کر استعمال کرتے ہیں اور الیکشن کمیشن خاموش تماشائی بنا رہتا ہے جبکہ ایسے ہی ایک معاملہ پر آنجہانی بال ٹھاکرے سے ووٹنگ کا حق چھین لیا گیا تھا لیکن تب الیکشن کمیشن کی غیر جانب داری کافی حد تک برقرار تھی اور اب الیکشن کمیشن بی جے پی کی ہی ایک شاخ بن گیا ہے ورنہ جس طرح بجرنگ بلی کی جے بو ل کر ووٹ ڈالنے کی بات کہی تھی مودی جی نے، وہ الیکشن کو ہی خارج کر دینے کی مضبوط بنیاد ہے۔ کانگریس نے اس کی شکایت بھی درج کرائی تھی جس پر مودی جی کے خلاف کارروائی بھی ہو سکتی تھی لیکن اس کے لیے الیکشن کمشنروں کی ریڑھ کی ہڈی ہونا ضروری ہے، ہر کوئی سیشن اور لینگڈوہ نہیں ہو سکتا۔اتنے پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا، کیرالہ اسٹوری نام کی نہایت لغواور جھوٹ کا پلندہ فلم کو بھی اس دوران ریلیز کر دیا گیا اورپولنگ سے ایک دن پہلے اتر پردیش میں پی ایف آئی کے نام نہاد کارکنوں کی دھر پکڑ بھی کی گئی لیکن کرناٹک کے عوام نے ان سب کا کوئی نوٹس نہیں لیا اور بی جے پی کو اس کی تمام بد اعمالیوں کی سخت سزا دی۔
ایک طرف بی جے پی شروع سے ہی تاش کے بکھرے ہوئے پتوں کی طرح تھی، کرناٹک میں اس کے پاس عوام سے کہنے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا، اس کا صرف اور صرف اکلوتا سہارا فرقہ وارانہ کارڈ اور نریندر مودی کی نام نہاد مقبولیت تھی، اسی لیے ا نتخابی مہم کا پورا بوجھ مودی جی کے کاندھوں پر ہی تھا۔ ویسے بھی مودی جی کسی کو اپنے آس پاس پھٹکنے نہیں دیتے، بحالت مجبوری انہوں نے یدی یورپا کو اپنی بغل میں کھڑا ضرور رکھا اور بحالت مجبوری یدی یورپا کھڑے بھی ہوئے لیکن وہ سب عوام کو دکھانے کے لیے تھا، دونوں کے دل ایک دوسرے کی طرف سے صاف نہیں تھے۔ دوسری جانب کانگریس کرناٹک میں سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑی تھی، اس کی مرکزی قیادت ملکارجن کھڑگے، راہل گاندھی، پرینکا گاندھی، یہاں تک کہ سونیا گاندھی بھی میدان میں ڈٹی تھیں۔ ریاستی قیادت میں زبردست تال میل دیکھنے کو ملا، سدارمیا اور ڈی کے شیو کمار نے اپنے اختلافات کو منظرعام پر نہیں آنے دیا۔ ٹکٹ کی تقسیم اور اس کے بعد پارٹی کے کارکنوں میں تال میل بنا رہا جس کا بھر پور فائدہ پارٹی کو ملا لیکن اگر کسی ایک کو اس کامیابی کا سہرہ دیا جاسکتا ہے تو وہ ہیں راہل گاندھی، جن کی ’بھارت جوڑو یاترا‘ نے عوام کو سوچ بدلنے اور نفرت کی جگہ محبت کی سیاست کو جگہ دلائی۔ بی جے پی خاص کر بومئی کی سرکار میں مسلمانوں کا ہر طریقہ سے استحصال کیا گیا، جتنا گھناؤنا پن بومئی سرکار نے دکھایا، وہ تمام حدیں پار کر چکا تھا لیکن کرناٹک کے13فیصد مسلم ووٹروں نے پوری خاموشی بردباری اور حکمت عملی سے اس کا جمہوری طریقہ سے جواب دیا، نہ وہ اپنی قیادت کے چکر میں پڑے، نہ ہی جوانی قربان گینگ جیسی احمقانہ حرکتیں کیں بلکہ پوری طاقت اور سنجیدگی کے ساتھ کانگریس کے ساتھ چل پڑے جس کے نتیجہ میں جنتا دل ایس کا کنگ میکر بننے کا خواب چکنا چور ہوگیا، ورنہ بی جے پی کے پلان بی کے تحت وہ کمارسوامی کو وزیراعلیٰ بنا کر در پردہ حکومت پر قابض ہو جاتی۔کرناٹک کے مسلمانوں کی اس سیاسی فہم و فراست اور دوراندیشی کو دوسری ریاستوں کے مسلمانوں کو مثال بنا لینا چاہیے۔
کرناٹک میں کانگریس کی کامیابی نے اس کے لیے نہ صرف مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان کی راہ آسان کر دی ہے بلکہ 2024کے پارلیمانی الیکشن میں بھی اس کی پوزیشن اور مضبوط ہوگی۔ مذکورہ ریاستوں میں کانگریس کا تنظیمی ڈھانچہ بہت مضبوط ہے حالانکہ راجستھان میں اشوک گہلوت اور سچن پائلٹ کے اختلافات پارٹی کے حق میں بہتر نہیں ہیں اور مسئلہ یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کو کسی بھی طرح برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں، اس وقت سچن اپنے کارڈ عقل مندی سے نہیں کھیل رہے ہیں جس کی وجہ سے ان کے ہمدردوں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے۔ دوسری جانب اشوک گہلوت بھی کسی وسیع القلبی کا مظاہرہ نہیں کر رہے ہیں اور کسی بھی طرح سچن کو ایکوموڈیٹ کرنے کو تیارنہیں ہیں۔ کانگریس اعلیٰ کمان دونوں کو چھیڑنا بھی نہیں چاہتا ہے، اس چپقلش کی قیمت کانگریس کو اسمبلی الیکشن میں چکانی پڑ سکتی ہے، ویسے بھی راجستھان کی تاریخ ہر بار حکومت بدلنے کی رہی ہے۔دوسری جانب وہاں بی جے پی میں بھی سب خیریت نہیں ہے وسندھرا مودی کی پسند نہیں ہیں مگر راجستھان بی جے پی کی وہ مقبول لیڈر ہیں، ان کو چھیڑا گیا تو وہ کسی بھی حد تک جا سکتی ہیں، اس لیے مودی ان کوبرداشت کررہے ہیں۔ راجستھان ہی نہیں مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کا الیکشن بھی وہ اپنے چہرہ پر ہی لڑنا چاہیںگے لیکن ہماچل کے بعد کرناٹک نے ان کے چہرہ کی چمک چھین لی ہے۔ ریاستی قیادت کو نظر انداز کرنے کا خمیازہ بی جے پی بھگت رہی ہے۔ ان حالات میں دیکھنا ہے کہ ان ریاستی اسمبلیوں کے چناؤ میں بی جے پی کی حکمت عملی کیا ہوگی۔سیاسی لال بجھکڑوں کا کہنا ہے کہ پارلیمانی الیکشن میں مودی کے چہرہ کے آگے کوئی چہرہ ٹھہر نہیں سکے گا لیکن سیاست جو کروٹ لے رہی ہے، اس سے نہیں لگتا کہ 2024 بی جے پی کے لیے 2014 یا 2019 ثابت ہوگا۔ ریاست در ریاست بی جے پی سکڑتی جا رہی ہے، اس کے پاس حلیفوں کے نام پر کچھ ریاستوں میں چھوٹی چھوٹی علاقائی پارٹیوں کو چھوڑ کر کوئی قابل ذکر علاقائی پارٹی نہیں، دوسری جانب بی جے پی مخالف سیاسی گٹھ جوڑ روزبروز مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔ 2019کے پارلیمانی الیکشن میں کانگریس کو سیٹیں تو صرف 54 ملی تھیں لیکن اس کا ووٹ تناسب20فیصد تھا، اس بار اگر خراب سے خراب حالت میں اس کو پانچ فیصد ووٹ بھی زیادہ مل گئے تواس کے ممبروں کی تعداد100سے تجاوز کر جائے گی۔ دوسری جانب اگر بی جے پی کا پانچ فیصد ووٹ کم ہوا تو اس کی گنتی150سے 180 کے درمیان لٹک جائے گی اور ان حالات میں الیکشن کے بعد کا منظر دیکھنے لائق ہوگا ۔
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS