جاسوسی باعث تشویش!

0

جاسوسی کرانے پر یہ خبر آئی ہے کہ ہیکنگ سافٹ ویئر پیگاسس سے ہندوستان کی کئی اہم شخصیتوں کی جاسوسی کی گئی۔ ایک گلوبل میڈیا کنسورٹیم کی تفتیش سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ جن موبائل نمبروں سے جاسوسی کی گئی، ان میں 300 ہندوستانی موبائل نمبر شامل ہیں۔ کانگریس صدر راہل گاندھی، انتخابی حکمت عملی تیار کرنے والے پرشانت کشور، مودی حکومت میں 2 وزرا، سیکورٹی ایجنسیوں کے موجودہ اور سابق سربراہ اور عہدیدار، صنعت کار اور 40 صحافیوں کی جاسوسی کرانے کی خبر واقعی حیران کن ہے۔ سبھی ناموں پر غور و خوض کے بعد یہ اندازہ لگانا بڑی حد تک آسان ہوگا کہ مختلف میدانوں کی شخصیتوں کی جاسوسی کیوں کی گئی۔ رپورٹ یہ آئی ہے کہ جاسوسی لوک سبھا الیکشن سے پہلے 2018-19 میں کی گئی تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا اس کا کچھ تعلق پچھلے پارلیمانی انتخابات سے تھا یا اس کا مقصد کچھ اور تھا؟
لیڈروں، صحافیوں اور ان لوگوں کی جاسوسی کرانے کی خبریں آتی رہی ہیں جو اپنا دائرہ اثر رکھتے ہیں اور جن کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان کی سوچ اور انداز کار حکومت کے لیے باعث پریشانی بن سکتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ اس طرح کی جاسوسی کیسے کر لی جاتی ہے؟ جاسوسی ہو رہی ہے، اس کی خبر پہلے کیوں نہیں ہو پاتی۔ کتنی حیرت کی بات ہے کہ لیڈروں اور صحافیوں کو تو چھوڑیے، سیکورٹی ایجنسیوں کے سربراہوں اور عہدیداروں تک کی جاسوسی کی جاتی ہے اور انہیں پتہ اس وقت چل پاتا ہے جب اس سلسلے کی کوئی تفتیشی رپوٹ لیک ہوتی ہے یا آتی ہے۔ ایسی صورت میں کیا ملک کی سیکورٹی پر تشویش ظاہر نہیں کیا جانا چاہیے؟ سب سے اہم سوال تو یہی ہے کہ جاسوسی کی جانکاری بروقت کیوں نہیں ہو پاتی؟ اس سوال کی اہمیت عام دنوں میں اتنی نہیں سمجھی جاتی جتنی جاسوسی کے کسی واقعے کی خبر آنے پر سمجھی جاتی ہے جیسے پیگاسس اسپائی ویئر کے بارے میں رپورٹ آنے پر یہ سوال پھر موضوع بحث ہوگا مگر یہ سوال آج تک جواب طلب ہے، کیونکہ حکمراں جماعت کے لیڈران اطمینان بخش جواب نہیں دیتے۔ فون ٹیپنگ اور جاسوسی پر سابق مرکزی وزیر روشی شنکر پرساد کا کہنا ہے کہ ’ کانگریس کی تو تاریخ ہی جاسوسی کی رہی ہے۔ یہ ملک مخالف ایجنڈا چلانے والوں کی سازش ہے۔‘ سوال یہ ہے کہ کیا یہ ان سوالوں کا جواب ہے کہ فون ٹیپنگ کیوں ہوئی؟ فون ٹیپنگ کیوں ہو رہی تھی؟ کیا ملک کے پاس ایسا نظام نہیں ہے کہ اس طرح کی ٹیپنگ روکی جا سکے؟ روی شنکر پرساد کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’ملک میں فون ٹیپنگ پر مستحکم قانون ہے۔ ان عوامل پر چلتے ہوئے فون ٹیپنگ ہو سکتی ہے۔‘ درحقیقت یہی بات باعث تشویش ہے، کیونکہ ملک کا قانون مشتبہ لوگوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا اختیار دیتا ہے، معلومات حاصل کرنے کا ایک نظام ہے، مثلاً : مشتبہ لوگوں کے فون ریکارڈ کیے جا سکتے ہیں، ان کی چال چلن پر نظر رکھی جا سکتی ہے، ان کے لوگوں سے ملنے جلنے پر نظر رکھی جا سکتی ہے، ان کے ملنے جلنے والوں سے ان کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات یکجا کی جا سکتی ہے، اس لیے پیگاسس اسپائی ویئر کے سلسلے میں کچھ نکات پر توجہ دینا ضروری ہے۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ جن لوگوں کی جاسوسی کی گئی، ان کی جاسوسی کرنے کا مقصد کیا تھا؟ یہ جاسوسی کس کے کہنے پر، کس کے لیے کی گئی؟ اس میں اندرونی ملک کے لوگ ملوث ہیں یا بیرونی طاقتوں کا یہ کھیل ہے؟
کھیل چاہے کسی کا بھی ہو، جاسوسی کا مقصد چاہے کچھ بھی ہو مگر پیگاسس اسپائی ویئر معاملے نے پھر اس ضرورت کا احساس دلایا ہے کہ ملک کی سیکورٹی پر مزید توجہ دی جائے۔ یہ ذکر بے محل نہ ہوگا کہ اسپائی ویئر پیگاسس ہندوستان کے دوست اسرائیل کی سائبرفرمس این ایس او گروپ یعنی نیو، شیلو اینڈ اومری (Niv, Shalev and Omri) نے بنایا ہے۔ راجیہ سبھا میں اپوزیشن کے ڈپٹی لیڈرآنند شرما نے حکومت سے پوچھا ہے کہ ’وہ کون سی ایجنسیاں ہیں جو پیگاسس لائیں؟ ‘ کیا اس سوال کا جواب جاننے اور اصل ملزمین تک پہنچنے کے لیے حکومت راست طور پر اسرائیلی حکومت کے توسط سے این ایس او گروپ سے مدد لے گی؟ ویسے این ایس او گروپ کا کہنا ہے کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف اقدام اور انسانوں کی فلاح کے لیے خودمختار حکومتوں کو ہی پیگاسس اسپائی ویئر دیتی ہے لیکن سرکار کا کہنا ہے کہ اس نے جاسوسی نہیں کرائی، چنانچہ اس سلسلے میں اپوزیشن کی یہ مانگ حق بجانب لگتی ہے کہ جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی سے تفتیش کرائی جائے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS