بچوں کی پرورش پر خصوصی توجہ لازمی

0

بچوں کی پرورش میں ماں کا اہم کردار ہوتا ہے۔ ماں اپنے بچوں کی نگہداشت سے لے کر ان کی چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کا خیال رکھتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ماؤںکو اپنے بچوںکی پرورش میں بڑی دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔بچہ کی پیدائش کے کچھ ہفتے یا مہینے ماں کو کافی دقتوںکا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن جیسے جیسے بچے کی عمر میں اضافہ ہوتا ہے، بچہ اپنے آس پاس کے لوگوں کو پہچاننے لگتا ہے اور اس طرح ماں کے اوپر عائد ذمہ داریوں کا کچھ بوجھ کم ہوجاتا ہے، لیکن جو خواتین شادی کے بعد کسی مجبوری یا علیحدہ گھر میں رہنے کی خواہش کے سبب اپنے سسرال والوں سے الگ رہ رہی ہوتی ہیں، ان کے سامنے بچہ کی عمر میں اضافہ کے ساتھ ساتھ پریشانیوں میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔بچہ جب چلنا سیکھتا ہے اس وقت اس کو سنبھالنا بڑا مشکل ہوتا ہے، ایسے وقت میں ماں گھر کے دیگر کام کرے یا بچے کو سنبھالے، یہ مسئلہ ان کو ہمیشہ درپیش ہوتا ہے۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ خواتین ایسے وقت میں اپنی سسرال یا مائیکہ سے کسی کو بلالیتی تھیں یا بچہ کی دادی یا نانی کی وجہ سے بچہ کی پرورش میں کافی حد تک مدد ملتی تھی، لیکن گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ سماج میں ایسی تبدیلیاں آگئی ہیں کہ خواتین کو ایسے وقت میں بھی ساری ذمہ داریاں خود اٹھانی پڑتی ہیں، لیکن طریقہ کیا ہے اس پر غور فرمائیے۔ بچہ رو رہا ہے یا کھانا نہیں کھارہا ہے تو آج کی خواتین فوراً اپنے اینڈرائڈ فون میں موجود ویڈیو کلپ بچہ کو دکھانا شروع کردیتی ہیں، جس سے بچہ کا ذہن اس ویڈیو کلپ میں لگ جاتا ہے اور وہ کھانا کھالیتا ہے۔بچہ ماںکی توجہ کا طالب ہوتا ہے اورآج کل کی ماؤں میں صبر تو جیسے ہے ہی نہیں اور مزاج میں جلدی اتنی کہ کیا کہنے۔ بچہ کو بھوک لگنے پر ماں اسے دودھ پلاتی ہے اور بچہ چند گھونٹ دودھ پینے کے بعد پھر کھیل یا دیگر چیزوں کی طرف مائل ہونے لگتا ہے، جب کہ آج کل کی مائیں زبردستی اسے دودھ پلانے کے چکر میں موبائل پر کوئی گانا چلادیں گی یا پھر کوئی ویڈیو کلپ دکھانے لگیں گی اور تو اور یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ آج کل کی کچھ ماڈرن ماؤں نے اپنے موبائل میں کارٹون کلپ ڈلوا رکھی ہیں۔ بچہ کارٹون یا اس ویڈیو کلپ کے چکر میں دودھ پی لے گا اور خاتون اپنے بچہ کی طرف سے کچھ گھنٹوں کے لیے فری ہوجائے گی۔
لیکن دورجدید کی مائیں یہ نہیں سوچتیں کہ وہ اپنے آرام کے چکر میں بچہ کو غلط عادتیں ڈال رہی ہیں جو آہستہ آہستہ بچہ کے روٹین میں شامل ہوجاتی ہیں۔ آپ متعدد گھروں میں دیکھ لیجیے آپ کو یہی ماحول ملے گا اور گھر ہی کیوں آپ میٹرو میں یا کسی پکنک پوائنٹ پر دیکھ لیجیے کہ دوڈھائی سالہ بچہ کو کچھ کھلانے کے لیے مائیں کیسے ڈیل کررہی ہیں۔ ایک ہاتھ میں موبائل ہے جس پر بچہ کی نگاہیں مرکوز ہیں تو دوسری جانب ماں کے ہاتھ میں بسکٹ یا دودھ کی بوتل ہے جو وہ وقفہ وقفہ سے بچہ کے منھ میں دے رہی ہیں۔ اس کے علاوہ گھر کے دیگر کام کوانجام دینے کے لیے خواتین کا بچہ کو ایک جگہ بٹھانے کا جو خاص طریقہ دیکھنے میں آرہا ہے وہ یہ کہ خواتین ٹی وی آن کرکے اس پر کارٹون چینل لگادیں گی اور بچہ کو اس کے سامنے بٹھادیں گی۔ بچہ کی سمجھ میں کیا آئے گا، بس وہ رنگ برنگی تصویروں کو دلچسپی سے دیکھنے لگتا ہے اور ماں سمجھتی ہے کہ اس کا بڑا مسئلہ حل ہوگیا، لیکن وہ اس چیز سے ناواقف ہوتی ہے کہ یہی عادت آگے چل کر اس کے لیے کتنی نقصان دہ ہے۔ ننھی ننھی آنکھیں جب گھنٹوں ٹی وی سے نکلنی والی شعاعوں کی زد میں ہوں گی تو اس سے بینائی متاثر ہونی لازمی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آپ آج کل ننھے منھے بچوں کو نظر کا چشمہ لگائے ہوئے دیکھتے ہیں۔ بچہ جب کارٹون دیکھتا ہے تو اس میں موجود کردار جو اسے سب سے زیادہ اپنی طرف متوجہ کرتا ہے ،اس کے جیسے بولنے لگتا ہے اور اس کی دیگر حرکات بھی کارٹون کے اس کردار سے میل کھاتی ہیں۔ جب بچہ چھوٹا ہوتا ہے تو اس کا کسی کارٹون کے کردار کی طرح بولنا یا حرکتیں کرنا اچھا لگتا ہے، لیکن عمر میں اضافہ کے ساتھ اس کی یہ عادتیں پختہ ہوجاتی ہیں اور اس وقت ماں باپ کو بچے کی ان عادتوں کو چھڑانے میں کافی مشکل پیش آتی ہے۔
آج کل کی ماڈرن مائیں اگر سالہاسال کی پریشانیوں سے بچنا چاہتی ہیں تو بچہ کی پرورش کے ابتدائی سالوں کی تکلیفیں انہیں جھیلنی ہوں گی، اگر وہ ان پریشانیوں سے بچنے کے لیے ایسے طریقے اپنائیں گی تو وقتی طور پر تو انہیں لگے گا کہ ان کی پریشانی دور ہوگئی، لیکن آگے چل کر پتہ چلتا ہے کہ جسے وہ پریشانی کا ختم ہونا سمجھ رہی تھیں، درحقیقت وہ تو بڑی پریشانیوں کی شروعات تھی، جسے وہ اپنے وقتی سکون میں محسوس نہیں کرسکیں۔ ماں کے قدموں تلے جنت ہے اور ہر مذہب میں ماں کو بہت اہم مقام حاصل ہے، وہ مقام اسے ایسے ہی حاصل نہیں ہوگیا ہے، بلکہ اپنے بچہ کی پرورش میں آنے والی پریشانیوں اور دقتوں کے باوجود اپنے فرض منصبی کو خوش اسلوبی سے نبھانے نے اسے یہ مقام دلایا ہے۔ آج کی مائیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور بچوں کے کھیل کود کے لیے انہیں کھلونے لاکر دیں نہ کہ موبائل۔ اس کے علاوہ وہ اپنے بچوں کو خاندان کے دیگر بچوں کے ساتھ مکس اپ ہونے دیں یا پاس پڑوس کے بچوںمیں انہیں تھوڑا وقت گزارنے دیں، جس سے ان کے بچپن کی شرارتو ںکو نکلنے میں مدد ملے اور وہ ٹی وی اور موبائل میں موجود ویڈیو کلپ کے کرداروں کی بجائے اپنے اردگرد کے ماحول سے کچھ سیکھیں اور پروان چڑھیں۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS