اتنا سچ بول کہ ہونٹوں کا تبسم نہ بجھے

0

محمد حنیف خان

سچ اور جھوٹ زندگی کا لازمہ ہے،بس فرق یہ ہے کہ کسی کا محل جھوٹ پر تعمیر ہے تو کوئی سچ کی کٹیامیں بیٹھا آنسو بہا رہا ہے،کوئی سچ بول کر سزا پارہا ہے تو کوئی جھوٹ بول کر دنیاکو اپنا طرفدار کر رہا ہے،حالانکہ یہ بھی سچ ہے کہ سچ خود کو منوا لیتا ہے اسے ماننے پر کسی کو مجبور نہیں کرنا پڑتا۔ موجودہ ہندوستانی جمہوریت نے سچ اور جھوٹ کے عناصر سے ترکیب پائی ہے۔ ان دونوں کے درمیان عوام زندگی گزار رہے ہیں،جمہوریت کو جمہوریت اسی لیے کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں جمہور کی رائے اور ان کی خواہشات کا احترام کیا جاتا ہے۔ہر فرد کی ہر طرح کی آزادی کا خیال رکھا جاتا ہے،اگر کسی ملک میں جمہور یعنی ہر ایک کی سیاسی، سماجی،مذہبی اور لسانی آزادی کو سلب کرلیا جائے یا اس پر پہرے بٹھادیے جائیں یا پھر ایسا ماحول بنادیا جائے کہ وہ آزادی بے معنی ہو کر رہ جائے تو ایسے میں اس پر سوالیہ نشان لگنا ضروری ہے۔امریکی وزارت خارجہ کی جانب سے یو ایس کمیشن آن انٹر نیشنل رلیجیس فریڈم کی رپورٹ جاری ہوئی ہے جس میں بشمول ہندوستان متعدد ممالک میں مذہبی آزادی سے متعلق گفتگو کی گئی ہے اور ان سبھی ممالک کی صورت حال کا جائزہ لیا گیا ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کی اس رپورٹ پر جہاں گفتگو شروع ہوگئی ہے وہیں ہندوستانی وزارت خارجہ نے اس پر خفگی کا اظہا ر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ایسی رپورٹ گمراہ کن اطلاعات و غلط سمجھ پر مبنی ہوتی ہے‘‘۔یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے جب اس طرح کی رپورٹ شائع ہوئی ہو اور اس پر اسی تبصرے کی طرح تبصرہ نہ کیا گیا ہو۔اس سے قبل 2021کی رپورٹ کو بھی ہندوستان نے خارج کردیا تھا۔ابھی چند دنوں قبل میڈیا کی حالت زار سے متعلق جب ایک رپورٹ آئی تو اس کو بھی خارج کردیا گیااور ہندوستان کے مین اسٹریم کے میڈیا نے تو کمال کی صحافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس رپورٹ کو تیار کرنے والی فرم اور اس سے وابستہ افراد کا کالا چٹھا نکال کر عوام کے سامنے رکھنے کا دعویٰ کیا اور یہاں تک بتایا کہ کانگریس سے تعلق رکھنے والے افراد اس فرم میں شامل ہیں،جن کی وجہ سے ہندوستان کی شبیہ کو خراب کرنے کے لیے یہ رپورٹ پیش کی گئی ہے۔اس وقت یہ بھی کہا گیا تھا کہ چونکہ یہ رپورٹ کسی سرکار کی نہیں ہے بلکہ ایک پرائیویٹ ادارے کی ہے، اس لیے اس پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔
اس رپورٹ میں ہندوستان میں مذہبی آزادی پر سوالیہ نشان لگایا گیا ہے اور خواہش ظاہر کی گئی ہے کہ حکومتوں کو اقلیتوں کے حقوق کے تئیں اپنے رویے کو مثبت بناکر ان کی بہتری اور ترقی کے لیے کام کرنا چاہیے مگر حکومت یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہیں کہ کسی کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کیا جاتا ہے جس سے اس کی مذہبی آزادی سلب ہوتی ہو۔ رپورٹ میں مدھیہ پردیش کے کھرگون سے لے کر متعدد ایسے واقعات کا ذکر کیا گیا ہے جب مسلمانوں کے ساتھ سرکاری سطح پر ظلم و زیادتی کی گئی۔مثلاً اتر پردیش میں سی اے اے کے خلاف مظاہروں کے بعد جس طرح حکومت نے مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔جس طرح سے رام نومی کے جلوس کے وقت حالات خراب کیے گئے اور پتھر بازی ہوئی جس کے بعد مسلمانوں کے مکانات منہدم کیے گئے، وہ بھی سب کی نگاہوں کے سامنے ہے۔دہلی میں جس طرح سے مسلمانوں کو نشانہ بنایاگیا، اس پر گفتگو کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔
عبادت گاہوں کے خلاف جس طرح سے کارروائی شروع کی گئی ہے، وہ بھی سب کی نظروں کے سامنے ہے۔ عبادت گاہ ایکٹ 1991 ہونے کے باوجود عدالتوں میں جس طرح مساجد اور عید گاہوں کے خلاف مقدمات دائر کیے جارہے ہیں اور عدالتیں جس طرح انہیں قابل سماعت تسلیم کر رہی ہیں، وہ بھی ایک بہت بڑامسئلہ ہے،کیونکہ مندرجہ بالا ایکٹ کی موجودگی میں ان مقدمات کے علاوہ مقدمات ناقابل سماعت ہونے چاہیے تھے مگر عدالتیں انہیں قبول کر رہی ہیں اور چونکہ ہندوستان میں عدلیہ کو شجر ممنوعہ قرار دے دیا گیا ہے،اس پر سوالیہ نشان کو نا قابل معافی جرم تسلیم کرلیا گیا ہے ،اس لیے کوئی تنقید نہیں کرتا ہے حالانکہ اگر عدلیہ سے کوئی ایسا فعل سرزد ہو جو قوانین کے منافی ہے تو اس کی گرفت بھی کی جانی چاہیے مگر سب خاموش ہیں اور چونکہ حکومت میں ایسے افراد ہیں جن کا ایک خاص ایجنڈا ہے،جو کھلے طور پر ایسی لفظیات کا استعمال کرتے ہیں جس سے پولرائزیشن ہو، اس لیے ان کے لیے یہ فائدے کی بات ہوتی ہے۔
ہندوستان میں اقلیتوں کوآئینی سطح پر ضرور مذہبی آزادی حاصل ہے مگر کیا سماجی سطح پر ان کو ہر طرح کی آزادی حاصل ہے،کیا ان میں اقلیت ہونے کی وجہ سے خوف وہراس نے گھر نہیں کر لیا ہے اور اگر اقلیتوں کی نفسیات خوف و ہراس سے تشکیل پائی ہے تو اس کے لیے کون جواب دہ ہے، اقلیتیں یا حکومت؟جب بھی اس طرح کی کوئی بات آتی ہے تو فوراً پارسیوں اورجینیوں کی بات کی جاتی ہے کہ وہ مسلمانوں سے بھی قلیل تعداد میں ہیں، اس کے باوجود ان کو پریشانی نہیں ہوتی تو مسلمانوں کو کیوں ہوتی ہے؟ تو اس کو جواب بھی شاید دینے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہر شخص جانتا ہے کہ یہاں پولرائزیشن کے لیے ضروری ہے کہ مسلمانوں کو نشانہ بنایا جائے اور چونکہ اکثریت کی ایسی نفسیات بنا دی گئی ہے کہ وہ مسلمانوں کو زد و کوب کرنے اور انہیں پریشان کرنے والوں کے حق میں جمع ہوجاتی ہے، اس لیے سب سے آسان حربہ استعمال کیا جاتا ہے۔
حال ہی میں دو فلمیں ریلیز ہوئیں اور دونوں کا تعلق کیرالہ سے ہے،ایک کا کسی نے ذکر تک نہیں کیا جبکہ دوسری فلم (کیرالہ اسٹوری)کی تشہیر وزیراعظم سے لے کر ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ تک کر رہے ہیں، مرکز میں حکمراں پارٹی کی اقتدار والی ریاستوں میں ٹیکس فری کیا جارہا ہے۔ ملیالم زبان میں بنی فلم ’’اینو سواتھم شری دھرن‘‘ جس کا ترجمہ ہے ’’میرا اپنا شری دھرن‘‘، کو کتنے افراد جانتے ہیں؟ یہ فلم 51ویںانٹر نیشنل فلم فیسٹیول میں پیش کی گئی تھی جس میں مذہب کے بجائے انسان کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اس فلم میں ایک مسلم خاتون زبیدہ کو موضوع بنایا گیا ہے کہ کس طرح اس نے غیر مسلم بچے شری دھرن اور اس کی بہن کو پالا اور ان کی تربیت کی،کس طرح وہ خود غیرمسلم لڑکی کو اپنے ساتھ مندر لے کر جاتی تھیں اور پھر اس کی شادی بھی پورے رسم و رواج کے ساتھ کی۔شری دھرن بھی زبیدہ کو اپنی ماں ہی تصور کرتا تھا کیونکہ پیدائش کے وقت ہی اس کی ماں کا انتقال ہوگیا تھا۔یہ ایک ایسی فلم ہے جو ہندوستان جیسے مذہبی تنوع اور نفرت کے ماحول میں دلوں کو جوڑنے کا کام کرسکتی تھی مگر اس سے کسی کو اپنا مقصد حل ہوتا نہیں دکھائی دے رہا تھا،اس لیے کسی نے اس فلم کا ذکر تک نہیں کیا جبکہ اس کے برعکس ’’کیرالہ اسٹوری ‘‘ اور ’’کشمیر فائلس ‘‘ جیسی فلموں کی سیاست داں تشہیر کرتے ہوئے نظر آئے۔ملک میں اقلیتوں کے خلاف نفرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسی فلم کی ریلیز کے وقت این سی آر بی نے گجرات کے حوالے سے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ 2016سے لے کر 2020تک 41621خواتین غائب ہوگئیں،ان کے غائب ہونے کو لوجہاد کے تناظر میں دکھایا گیا اور اس کو اس طرح پیش کیا گیا جیسے ان خواتین کو مسلمانوں نے غائب کردیا ہے۔مگر اب جب اس کی حقیقت سامنے آئی تو سب خاموش ہیں کیونکہ خود پولیس نے بتایا کہ 39497یعنی 94فیصد خواتین کو پولیس نے تلاش کرلیا ہے اور یہ سب گھر سے بھاگی ہوئی لڑکیاں اور عورتیں تھیں جن کے فرار ہونے کے مختلف اسباب تھے۔جس میں اسمگلنگ اور لو جہاد جیسا کوئی معاملہ سامنے نہیں آیا۔اتر پردیش میں سرکاری سطح پر بنائے گئے قانون کا نام ’’ ان لا فل رلیجیس کنورژن آرڈیننس 2020ہے مگر خود اعیان حکومت اسے ’’لو جہاد ‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں اور باضابطہ بیانات تک دیتے ہیں،اس کے باوجود اگر حکومت کہتی ہے کہ یہ رپورٹ گمراہ کن اطلاعات پر مبنی ہے تو یہ سچ سے آنکھیں موندنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔حکومتوں کا یہ رویہ بھی قابل غورہے کہ جب کوئی رپورٹ اس کے حق میں آتی ہے تو اس کی خوب تشہیر کرتی ہے اور اس کو وزیراعظم کی قدر سے جوڑ دیتی ہے لیکن جب کوئی رپورٹ اس کے خلاف ہو تو فوراً کہا جاتا ہے کہ ملک کی شبیہ خراب کرنے کے لیے ایسا کیا گیا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت خود اپنے ہاتھوں سے اپنے ملک کی شبیہ درست کرے۔اگر وہ ایسا کرتی ہے تو اس سے جہاں اس کے اپنے عوام کو پرسکون اور خوشحال زندگی نصیب ہوگی، وہیں ملک بھی بہت تیزی سے ترقی کرے گا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS