جیلوں کی اصلاح کیلئے صحت مند معاشرہ ناگزیر

0

عبدالسلام عاصم

زائداز ایک صدی قبل دنیا کے مہذب معاشروں کو سماجی اورسیاسی آلودگی سے محفوظ رکھنے کیلئے سماج دشمن عناصرکی سرکوبی کے اقدامات کے تحت قید و بند کا جو قانون مرتب کیا گیا تھا وہ جرائم میں ملوث ہونے والوں کو حراست میں رکھنے اور جیلوں میں سخت نظم و ضبط کے نفاذ پر مرکوزتھا۔ اس قانون پر دنیا کے مختلف خطوں بشمول بر صغیر میں آج بھی عمل کیا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک نے سابقہ چند دہائیوں میں عالمی سطح پر جیلوں اور جیلوں میں سزا کے طور پر قید مجرموں کے تعلق سے ایک نیا نقطہ نظر پیش کیا۔ یہ نیا نقطۂ نظر یہ تھا کہ جیلوں کو محض عقوبت خانے میں سزا کاٹنے اور پشیمانی کے دن گزارنے کی جگہ نہ رہنے دیا جائے بلکہ اُنہیں اصلاح گھر میں تبدیل کیا جائے تاکہ گمراہ ہونے کی حد تک جرم کرنے والوں کی اصلاح ہوسکے اور انہیں دوبارہ صحتمند سماج کا حصہ بنایا جا سکے۔
دنیا کے ایک سے زیادہ ترقی یافتہ ملکوں نے اس اختراعی کوشش کو لبیک کہا اور صحت مند سماج کا دائرہ وسیع کرنے میں اس سے استفادہ کرنا شروع کیا۔ ان ملکوں کی کامیابی کا مشاہدہ کرنے کے بعد بعض ترقی پذیر ملکوں نے بھی اس رُخ پر سوچنے اور عملی طور پر سر گرم ہونے کی ہمت جٹائی۔ زمانے کی رفتار سے ہم آہنگی کے جذبے کو اس سمت میں آگے بڑھانے کی سوچ ہندوستان میں بھی پیدا ہوئی جہاں 1894 کا جیل خانہ جات ایکٹ آزادی سے بہت پہلے کے دور کا ہے اور تقریباً 130 سال پرانا ہے۔ مہذب معاشروں کو سماجی اورسیاسی آلودگی سے محفوظ رکھنے کیلئے سماج دشمن عنا صرکی سر کوبی کے اقدامات کے تحت اس ایکٹ میں بھی ساری توجہ مجرموں کو حراست میں رکھنے اور جیلوں میں سخت نظم و ضبط کے نفاذ پر مرکوز ہے۔ اس میں قیدیوں کی اصلاح اور اُنہیں دوبارہ صحت مند سماج کا حصہ بنانے کا کوئی نظم نہیں ہے۔ بہ الفاظ دیگر آج بھی دنیا کی بیشتر جیلوں میں قیدیوں کے ساتھ بس انتقامی کارروائی کی جاتی ہے، ان کی اصلاح کرکے انہیں قانون کی پاسداری کرنے والے شہریوں میں بدل کر معاشرے کا دوبارہ حصہ بنانے کی بابت سوچا بھی نہیں جاتا۔
ہمارے یہاں رفتارِ زمانہ سے جیل ایکٹ کی اس غیر ہم آہنگی کو بظاہر بہت پہلے محسوس کیا جانے لگا تھا۔ مفاد پرستوں کے ہتھّے چڑھ جانے والے سیکولر اور ترقی پسند عہد میں اس رُخ پر کئی کوششیں بھی کی گئیں۔ سابقہ صدی میں جب ترقی پسند سوچ بالی ووڈ کی فلموں کا نمایاں حصہ ہوا کرتی تھی، ایک بڑی منفرد فلم پردۂ سیمیں کی زینت بنی تھی، اُس کا نام ’’دشمن‘‘ تھا۔ اس فلم میں اُس وقت کے سپر اسٹار راجیش کھنہ اور جذباتی اداکاری کی ملکہ مینا کماری نے فلم بین معاشرے کو واقعی چونکا دیا تھا۔ جس طرح ’’عمل اور ردِّ عمل‘‘ پر مبنی فلم ’’سماج کو بدل ڈالو‘‘ دیکھ کر نکلنے والے خوشحالوں کے خلاف تشدد پر اُتر آتے تھے، اس کے ٹھیک برعکس ’’حکمت انگیز‘‘ فلم دشمن نے چھوٹے موٹے اور اتفاقی جرائم سے نمٹنے کے سماجی رویے میں واقعی خوشگوار تبدیلی محسوس کی جانے لگی تھی۔ بُرا ہو مذاہب سے منفی استفادہ کرنے والے فرقہ پرستوں کا جن کی روز افزوں بڑھتی ہوئی بدمعاشیوں نے وطن عزیز میں رنگ اور نسل، ذات اور مذہب سے مرحلہ وار بالاتر ہونے والے معاشرے کو نظر لگا دی۔ اس طرح جہاں جیلوں کو قید خانہ کے بجائے اصلاح گھر بنانے کی سوچ ابھی کاغذی سفر ہی طے کر رہی تھی، وہاں دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک کو نفرت اور انتقام کا عقوبت خانہ بنا دیا گیا۔
سماجی، سیاسی، تہذیبی اور اقتصادی غرض ہر طرح کے رشتے گزشتہ چند دہائیوں میں اس قدر آلودہ کر دیے گئے ہیں کہ لوگ اخبارات تا سوشل میڈیا نارمل اور تفریحی بات چیت کرنا جیسے بھول گئے ہیں۔ برقی سوشل میڈیا کی ہر پوسٹ اور اخبارات کے ادارتی صفحے پر بس ناصحانہ اور اچھی باتوں کی بھر مار ہے۔ یہ تجزیہ مبنی بر ادعا ئیت نہیں بلکہ سائنسی مشاہدہ ہے۔ سماج میں ہمیشہ جن اقدار کا فقدان رہتا آیا ہے لوگ انہی کے مسلسل تذکروں سے دل بہلاتے آئے ہیں۔ سر دست ہم اسی منظر نامے کا حصہ ہیں۔ جسے دیکھو وہ اصلا حی پوسٹ، تنقیدی مضامین، ماضی کے عبرت والے مبالغہ آمیز قصے اور کہانیوں سے دل بہلا رہا ہے۔ ان میں سے کوئی بھی اُن خرابیوں کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں جو سماج میں عام ہیں اور جن کی وجہ سے لوگوں کو بہ کثرت ذہنی اعتبار سے اور وقفے وقفے سے جسمانی طور پر نقصِ امن کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سب ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے تک اپنی ذمہ داریاں محدود کیے ہوئے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر ہم نے اپنے سامنے کے پورے معاشرے کو ہی ایک انتقام گاہ میں بدل دیا اور ماضی کی قبریں کھود کھود کر مطلوبہ ضرورتیں پوری کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
بہر حال اچھی اور خوش آئند تبدیلیوں کے قحط میں بھی کبھی کبھی کوئی ایسی خبر سامنے آ جاتی ہے جسے پڑھ کر جینے کی ٹوٹتی ہوئی امید پھر سے بندھنے لگتی ہے۔ ایسی ہی ایک خبر گزشتہ دنوں نظر سے گزری جس میں ہندوستانی جیلوں کو سزا کاٹنے کی جگہ اصلاح گھر میں بدلنے اورقیدیوں کو کسی صنفی امتیاز کے بغیرمساوی امکانات فراہم کرکے ایک بار پھر سماج کے لیے موافق بنانے کے اقدامات کی محض بات نہیں کی گئی بلکہ عملی مظاہرے کی راہ ہموار کی گئی ہے۔ وزارت داخلہ نے گزشتہ کچھ برسوں میں موجودہ جیل ایکٹ میں، جس کے تحت ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں جیل انتظامیہ کام کرتی ہے، کئی خامیاں محسوس کرتے ہوئے ایک نیا جیل قانون بنانے کے رخ پر قدم اٹھایا ہے جس پر چند ریاستوں نے تجرباتی عمل بھی شروع کر دیا ہے۔
سرکاری رپورٹ کے مطابق عصرحاضر کے جدید تقاضوں اور اصلاحی نظریہ کے مطابق نوآبادیاتی دور کے فرسودہ جیل ایکٹ کا جائزہ لینے کے بعد اس پر نظرثانی کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ وزارت داخلہ نے جیل ایکٹ 1894 پر نظر ثانی کا کام بیورو آف پولیس ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کو سونپا ہے۔ بیورو نے ریاستی جیل حکام، سوشل سائنس دانوں اور اصلاحی ماہرین وغیرہ کے ساتھ وسیع مذاکرات کے بعد ایک مسودہ تیار کیا ہے جس میں مجموعی طور پر رہنمائی فراہم کرنے اور موجودہ جیل ایکٹ میں موجود خلا کو دور کرنے کے مقصد سے جیل کے انتظام میں ٹیکنالوجی کے استعمال، پیرول کی منظوری کے لیے مؤثر انتظامات، اچھے اخلاق کی حوصلہ افزائی کے لیے قیدیوں کی معافی کے صاف ستھرے نظم، خواتین/ تیسری صنف کے قیدیوں کے لیے خصوصی انتظامات، قیدیوں کی جسمانی اور ذہنی تندرستی اور اُن کی عملی اصلاح اورصحت مند بحالی وغیرہ پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔
اچھے اخلاق کی ترغیب دینے کے لیے قیدیوں کو قانونی امداد کی فراہمی کے علاوہ ان کے لیے پیرول پر یا قبل از وقت رہائی وغیرہ کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ ہائی سیکورٹی جیل، کھلے جیل (اوپن اور سیمی اوپن) وغیرہ کے قیام اور انتظام سے متعلق گنجائشیں بھی سامنے لائی گئی ہیں۔ خاتون اور تیسری صنف والے قیدیوں وغیرہ کے لیے علیحدہ رہائش کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے جیل انتظامیہ میں شفافیت لانے کی خاطر جیلوں میں ٹیکنالوجی کے استعمال کو لازمی بنایا گیاہے۔ قیدیوں کو پیشہ ورانہ تربیت اورمعاشرے میں ان کی دوبارہ شمولیت پر عملاً توجہ دی جا رہی ہے۔
حکومت وقت اِس محاذ پر کتنی کامیاب ہوتی ہے، اس کا بہت کچھ انحصار اُن سیاسی، سماجی، تہذیبی اور تعلیمی ذمہ داروں پر ہے جن کی نگرانی میں موجودہ نئی نسل پروان چڑھ رہی ہے۔ یہی چاروں ذمہ داران کسی بھی معاشرے کا خط و خال تیار کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ نفسیاتی طور پر ثابت ہے کہ حال اپنے اندر ماضی کی بنیاد رکھتا ہے۔ ہماری موجودہ تباہ حالت ہمارے ماضی کی ٹیڑھی بنیاد کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ اس ادراک کے ساتھ ہمیں اب یہ مان کر آگے قدم بڑھانا ہے کہ مستقبل کی جو تیاریاں آج چل رہی ہیں اُن کی خوش سمتی ہی نسل نو کو اُس زندگی سے نجات دلا سکتی ہے جو زندگی ہم اپنے بزرگوں کی وجہ سے گزارنے کے نام پر جھیلنے پر مجبور ہیں۔
جیلوں کی حالت سدھارنے اور انہیں عملاً اصلاح گھر میں بدلنے کیلئے بنیادی طور پر ہمارے سیاسی اور سماجی ذمہ داروں کو تہذیبی اور تعلیمی محاذ پر سخت نگرانی کرنا ہوگی۔ تاریخ میں درج واقعات و سانحات سے اتفاق اور اختلاف کے اظہار کو ذہانت کی ایک ایسی مشین سے گزارنا ہو گا کہ نئی نسل تک حقائق چھن کر پہنچیں۔ یہ کام محض تاریخ کے چند ابواب حذف کر دینے اور حسبِ خواہ اضافے سے کام لینے سے نہیں ہوگا۔ اس سے اور گمراہی پھیلے گی۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS