علامہ اقبال کی شخصیت کے کچھ اہم پہلو: عبدالعزیز

0

عبدالعزیز

کچھ یادیں کچھ ملفوظات:

کسی بڑے آدمی کا ہمارا ہم عصر ہونا ہمارے ذاتی کمال کا نتیجہ نہیںہوتا‘ پھر بھی ہم اس بات پر فخر محسوس کرتے ہیں کہ ہم ایسے زمانے میں پیدا ہوئے جب وہ عظیم انسان ہمارے درمیان موجود تھا۔ علامہ اقبال کے وجود ذی وجود کے طفیل ایسا ہی فخر ہزاروں دوسرے مسلمانوں کے ساتھ مجھے بھی حاصل ہے۔
اقبا ل کو سب سے پہلے میں نے ان کی جوانی کے زمانے میں دیکھا۔ یہ میرے بچپن کے دن تھے۔ اس لیے تصویر کے خدوخال بہت واضح نہیں ہیں۔ لاہور کے میکلوڈ روڈ پر اس وقت کے میلا رام کے تالاب کے سامنے ایک کوٹھی تھی جس میں ان دنوں مولانا ظفر علی خان مقیم تھے۔ یہ کوٹھی اب بھی موجود ہے، اگرچہ میلا رام کے تالاب کی جگہ اب ہوٹل اور بسوں کے اڈے کھڑے ہیں۔ میرے بچپن کا کچھ حصہ اسی مکان میںگزر ا تھا۔ ایک دن کا ذکر ہے کہ اقبال مولانا ظفر علی خاں کے یہاں دوپہر کے کھانے پر مدعو تھے۔ میں نے یہاں پہلی مرتبہ ایک نظر دیکھا۔ شدید گرمی کی اس دوپہر کی بعض کیفیتیں میرے حافظے پر نقش ہیں۔ مجھے معلوم تھا کہ سامنے کے کمرے میں ایک بڑا آدمی طعام و کلام میں مصروف ہے لیکن مجھے اس کمرے کے قریب جانے کی اجازت نہ تھی۔ تاہم اپنے بچپن کے صدقے میں مجھے کچھ آزادیاں بھی میسر تھیں۔ میں اس کمرے کے دروازے کے بالکل سامنے ذرا فاصلے پر دھوپ میں کھڑا تھا اور عہد طفلی کی پوری بے تکلفی سے ٹکٹکی باندھے اس بڑے آدمی کی حرکتوں کا معائنہ کر رہا تھا۔ جو بات میں اب تک نہیں بھولا وہ یہ ہے کہ اقبال اس وقت ننگے سر فرش پر بیٹھے تھے۔ ایک سفید برا ق قمیص اور اتنی براق ہی شلوار میں ملبوس تھے۔ میں نے دیکھا کہ ہنسی مذاق کی باتیں ہو رہی ہیں۔ اقبال کا ہنستا ہوا سرخ و سفید چہرہ سنجیدگی سے کوسوں دور ہے۔ لطیفوں پر قہقہے گونج رہے ہیں اور بار بار اقبال ہنسی کے مارے لوٹ پوٹ ہو جاتے ہیں۔اقبال کی دوسری تصویر جو میرے حافظے پر ابھرتی ہے وہ بھی اسی زمانے کے قریب کی ہے۔ لاہورکے موچی دروازے کے باغ میں (اس حصہ باغ میں جو دروازے سے باہر نکلتے ہوئے بائیں ہاتھ پر پڑتا ہے) مولانا ظفر علی خاں کے زیر اہتمام ایک جلسہ عام ہو رہا تھا۔ علامہ اقبال اسٹیج پر بیٹھے تھے مگر انہیں اہل لاہور سے خطاب کرنے میں تامل تھا۔ مولانا ظفر علی خاں انہیں ہاتھ پکڑ پکڑ کر اٹھاتے تھے اور ساتھ ساتھ اہل جلسہ کو بھی ترغیب دیتے جاتے تھے کہ اپنے نعروں سے اقبال کو اٹھنے پر مجبور کر دیں۔ میرا خیال ہے کہ اس دن اقبال کی ہر جنبش کی قیمت کے طور پر جنگ بلقان کیلئے اچھا خاصا چندہ جمع ہو گیا تھا۔ بہرحال آخر کار اقبال اٹھے اور انہوںنے اپنی ایک نظم اہل جلسہ کو سنائی۔ مجھے کچھ یاد نہیں کہ یہ کون سی نظم تھی مگر اپنے موجودہ علم کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ یہ ان کی مشہور نظم ’’جواب شکوہ‘‘ تھی۔

تعددِ ازدواج کے بارے میں جلسہ:

میرا مقصوداس وقت ان تفصیلات کا بیان نہیں ہے کہ کس طرح جلسے کے ایک گوشہ سے بڑی پرزور آواز بلند ہوئی (مولوی تاج الدین احمد مجددی و نقشبندی کی آواز جن کے ہاتھ میں ا س وقت ایک عصا تھا) کہ ’’ہم مرزائیوں کی حمایت میں کوئی قرارداد منظور نہیں کریں گے‘‘ کس طرح جلسہ عام میں اتنا ہنگامہ پیداہوا کہ لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد جلسہ گاہ کو چھوڑکر بھاگنے لگی۔ کسی طرح مولانا ظفر علی خان نے ایک بے قابو ہجوم کو پھر ٹھیک کیا اور اس سے وہی قرارداد منظور کرائی جس کے خلاف بطور احتجاج اس نے جلسہ گاہ سے اٹھ کر جانا ضروری سمجھا تھا۔ یہاں جو واقعہ میں بیان کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ا س دن اقبال کے عالمانہ انداز گفتگو اور پرسکون طبیعت کا میرے دل پر بڑا گہرا اثر ہوا۔ جلسے کے بے قابو ہو جانے پر علامہ اقبال کی فلسفیانہ بے نیازی ، سکون خاطر اور ادھر مولانا ظفر علی خاں کی طرف سے زور دار خطابت اور عوامی قیادت کے تمام گروں کا استعمال ایک عجیب شان تقابل دکھا رہا تھا۔
علامہ اقبال نے اس جلسے میں جو تقریر کی اس میں انہوںنے فرمایا کہ تعدد ازدواج فی نفسہٖ کوئی عیب نہیں اور پھر ا س کا رواج کچھ مسلمانوں سے مخصوص نہیں ہے۔ بعض دوسری قوموں میں بھی دو یا دو سے زیادہ شادیاں کرنا بالکل جائز سمجھا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں آپ نے مارمن فرقے کا ذکر کیا اور ہندو قوم کا بھی نام لیا۔ یہ ذکر حاضرین جلسہ میں سے کسی ہندو صاحب کو شدید ناگوار گزرا۔ انہوںنے کاغذ کے ایک پرچے پر کچھ فقرے لکھ کر صدر جلسہ کو بھیجے جس کا مفہوم یہ تھا کہ آپ نے ہندوئوں کے تعدد ازدواج کے رائج ہو نے پر جو کچھ کہا ہے وہ جھوٹ ہے۔ مجھے آج تک یاد ہے کہ اس کا جواب دینے کیلئے جب علامہ اقبال کھڑے ہوئے تو ان کا لب و لہجہ اور الفاظ ہر قسم کے غصے یا طنز یا تعریض کے شائبے سے پاک اور ایک بڑے عالم کی شان کے عین مطابق تھے۔ آپ نے معترض کا بھیجا ہوا پرچہ حاضرین جلسہ کی اطلاع کیلئے پڑھا اور فرمایا کہ میں نے جو کچھ کہا ہے اور آپ اسے غلط بھی سمجھتے ہیں تب بھی آپ کو میری نیت اور راستی میں شبہ نہیں کرنا چاہیے۔ ہمارے عقیدے کے مطابق تعدد ازدواج ایک مستحسن چیز ہے۔ اگر میں نے کہا کہ ہندوئوں میں بھی تعددازدواج کا رواج ہے تو میں نے اپنے عقیدے کے مطابق ایک اچھی چیز آپ سے منسوب کی ہے نہ کہ بری۔ مجھے یاد ہے کہ اس تشریح کے بعد ان صاحب کی طرف سے اور کوئی اعتراض نہ ہوا۔
یہ قصہ جو میں نے ابھی بیان کیا ہے اس وقت پیش آیا جب میں اسلامیہ ہائی اسکول کی پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا، اس کے بعد میں چار سال کیلئے وزیر آباد کے مشن ہائی اسکول میں منتقل ہو گیا اورپھر 1918 کے اواخر میں دوبارہ لاہور آ گیا۔ اب میں دسویں جماعت کا طالب علم تھا اور سن شعور کو پہنچ چکا تھا، شعر سمجھنے کی کچھ شد بد ہو گئی تھی۔ میں واپس لاہور آیا توظاہر ہے کہ بااقبال لاہور میںواپس آیا یعنی یہاں مجھے کسی نہ کسی رہ گزر پر یا جلسہ عام میں علامہ اقبال کی جھلک ضرور نظر آجاتی تھی۔ اگر میں غلطی نہیں ہوں تو 1920 اور1922 کے درمیانی عرصے میں (اگرچہ صحیح طور پر نہیں کہہ سکتا کہ کس سال) مجھے ایک بڑے جلسے میں علامہ اقبال کی زبانی ان کی ایک اور نظم سننے کا موقع ملا، یہ نظم مجھے خوب یاد ہے۔ اسلامیہ کالج کے میدان میں انجمن حمایت اسلام کا سالانہ جلسہ ہو رہا تھا۔ گرامی مرحوم بھی اس جلسے میں شریک تھے۔ اقبال نے اپنی نظم ترنم سے سنائی یہ وہ مشہور نظم تھی جس کا پہلا شعر ہے ؎
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز … چراغ مصطفویؐ سے شرار بولہبی
جس لے میں اقبال نے یہ نظم پڑھی وہ اب تک کانوں میںگونج رہی ہے۔اسی طرح وہ نظم بھی جس کا پہلا شعر ہے ؎
اخبار میں یہ لکھتا ہے لندن کا پادری … ہم کو نہیں ہے مذہب اسلام سے عناد
میں نے اسی زمانے میں خود اقبال کی زبانی انجمن حمایت اسلام کے کسی جلسے میں سنی یہ نظم انہوںنے گاکر نہیں تحت اللفظ پڑھی تھی۔
اب تک میں اقبال کو ایک دور کے تماشائی اور عقیدت مندکی حیثیت سے جانتا تھا بلکہ اس کے بعد کئی برس تک لاہور سے باہر رہنے کے باعث میں اس دور کے نظارے سے بھی محروم رہا۔ آخر اکتوبر 1926 میں ایک دن وہ بھی آیا کہ میں پہلی مرتبہ بطور خاص علامہ اقبال کی خدمت میں حاضرہوا۔ اس حاضری کی تحریک ایک ذاتی ضرورت سے ہوئی۔ میں نے ’بی اے‘ کی سند حیدر آباد دکن کی جامعہ عثمانیہ سے لی تھی اور اس کے بعد ایم اے کیلئے لاہور کے گورنمنٹ کالج میں داخلہ لینا چاہتا تھا لیکن دقت یہ تھی کہ پنجاب یونیورسٹی اس وقت عثمانیہ یونیورسٹی کی ڈگریوں کوتسلیم نہیں کرتی تھی؛ تاہم میں مایوس نہیںتھا، میری طالب علمی کی فرد عمل خاصی حوصلہ افزاتھی، پھر جوانی یوں بھی امید کا زمانہ ہے۔ میں نے سر اکبر حیدری سے سفارش کے دو خط لیے ایک سر محمد شفیع مرحوم کے نام اور دوسرا مسٹر عبداللہ یوسف علی پرنسپل اسلامیہ کالج لاہور کے نام او ر بہ زعم خود گورنمنٹ کالج میں اپنے داخلے کا انتظام کر کے لاہور آ پہنچا۔
اب میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ خیال میرے دل میں کیوں آیا اور میں نے کیونکر یہ جسارت کی کہ اس سلسلے میں علامہ اقبال کی مدد حاصل کروں۔ بہرحال اتنا بخوبی یاد ہے کہ ایک شام میں اپنے بھائی حامد علی خاں کی معیت کو سہارا بنا کر علامہ مرحوم کی خدمت میں جا پہنچا۔ وہ اس وقت اپنی میکلوڈ روڈ والی کوٹھی میں قیام فرما تھے۔ ان کا دربار ہر خا ص و عام کیلئے کھلا رہتا تھا۔ لوگ بے روک ٹوک ان کے پاس آ بیٹھتے تھے اور پھر جتنی دیر جی چاہے بیٹھے رہتے تھے۔ اس کے بعد میں بیسیوں مرتبہ ان کی خدمت میں حاضر ہوا، لیکن میں نے کبھی یہ نہیں دیکھا کہ انہوںنے وقت کی کمی یا کسی مصروفیت یا اور عذر کی بنا پر کسی ملاقاتی کو اٹھ جانے کو کہا ہو یا خود مجلس سے اٹھ گئے ہوں۔ جس دن کا میں ذکر کر رہا ہوں اس دن اگر میراحافظہ خطا نہیںکرتا تو ان کی مجلس میںکچھ زیادہ لوگ نہیں بیٹھے تھے، شاید ایک یا دو صاحب ہوں۔ علامہ اقبال برآمدے میں آرام کرسی پر کرتا اور تہمد پہنے بیٹھے تھے اور کبھی کبھی پائوں کو ہاتھ سے سہلا لیتے تھے۔ میں نے تھوڑی دیر کی گفتگو کے بعد خود ہی اپنا تعارف کرایا اور اپنا مطلب گوش گزار کیا۔ اب مجھے اپنی اس حرکت پر خود بھی تعجب ہے کہ پنجاب یونیورسٹی تو میرے بی اے کی سند کو تسلیم نہیںکرتی تھی اور میں تھا کہ ایم اے میں داخلے کی تجویز کر رہا تھا۔ علامہ اقبال امید کے پیغمبر تھے مگر معلوم ہوتا ہے کہ ان کو بھی میری اس حد سے بڑھی ہوئی، رجائیت میں دیوانگی کی جھلک نظر آئی۔ انہوںنے مجھے سمجھایا کہ جو طریق کار تم نے اختیار کیا ہے وہ غلط ہے۔ اس طرح پنجاب یونیورسٹی تمہارے داخلے کی درخواست کو فوراً رد کر دے گی۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ تمہاری یونیورسٹی کے وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی کو خط لکھیں اور پہلے اپنی ڈگریوں کو تسلیم کرائیں۔ اس کے بعد تمہارے داخلے کیلئے راستہ صاف ہو جائے گا۔ یہ بات بالکل معقول تھی، لیکن اس وقت میرے جنون کیلئے عقل کو خاطر میں لانا دشوار تھا۔ میںنے اپنے حق میں بہت سی تاویلیں پیش کیں اور کہا کہ میں درجہ اول میںکامیاب ہوا ہوں۔ یونیورسٹی میںاول آیا ہوں اس لیے میرے داخلے میں کوئی رکاوٹ نہیںہونی چاہئے۔ علامہ اقبال کی انسانی عظمت ملاحظہ فرمائیے کہ میری اس پریشاں سرائی پر انہوںنے نرمی سے جواب دیا کہ سوال قابلیت کا نہیں، قاعدے اوراصول کا ہے۔ آپ اگر چند اچھی کتابوں کے مصنف بھی ہوتے تو بھی ’بی اے‘ کی باقاعدہ ڈگری کے بغیر ’ایم اے‘ کے امتحان میں شامل ہونا ناممکن تھا۔ آج اس پورے واقعے کا تصور کرتا ہوں تو میں اپنی اس بے باکی (اقبال کی بے باکی) پر حیرت زدہ ہو جاتاہوں کہ میں نے اس کے باوجود اصرار کیا کہ گورنمنٹ کالج کے کسی پروفیسر کے نام مجھے تعارف کا ایک خط دے دیجئے۔ اسے علامہ کی شخصی رافت و شفقت کا کرشمہ سمجھئے کہ یہ درخواست انہوںنے فوراً منظور فرما لی اور میرے رخصت ہونے سے پہلے میرے ہاتھ سے ایک مختصر سی چٹھی پروفیسر مرزا محمد سعید کے نام مجھے لکھ کر دی۔
مجھے یاد ہے کہ اس دن کی گفتگو میں علامہ اقبال نے مجھ سے یہ بھی پوچھا کہ ایم اے میں کیا مضمو ن لینا چاہتے ہو؟ میں نے جب جواب دیا کہ انگریزی تو انہوںنے فوراً یہ دوسرا سوال کیا کہ کیا یہ ممکن نہیںکہ انگریزی کے بجائے کوئی دوسرا مضمو ن مثلاً اکنامکس یا سائنس لے لو؟ میں نے جواب میں کہا کہ بی اے میں انگریزی او ر فلسفہ میرے خاص مضمون رہے ہیں اور میں انہی دو مضمونوں سے ایک مضمون ایم اے میں لے سکتا ہوں۔ اس پر علامہ مرحوم نے فرمایا کہ یہ دونوں مضمون تہذیب نفس کیلئے بہت اچھے ہیں (انہوںنے کلچر کا لفظ استعمال نہیں کیا) لیکن مسلمانوں کی توجہ اس طرف زیادہ اور ٹھوس علمی مضامین کی طرف بہت کم رہی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ مسلمان نوجوان سائنس کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے پر اب زیادہ زور دیں۔
(پروفیسر حمید اللہ خاں مرحوم علامہ اقبالؒ کے ہم عصر تھے۔ پیش نظر مضمون میں ان کی ایک کتاب سے استفادہ کیا گیا ہے)
mail:[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS