کیا مغربی ممالک یوکرین کو بھول گئے ہیں ؟

0

7اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد یوکرین کو لگ رہا ہے کہ عالمی طاقتوں بطور خاص ناٹو حلیفوں کی توجہ یوکرین بحران سے ہٹ گئی ہے۔ تقریباً ڈیڑھ سال سے زائد عرصہ سے یوکرین روسی جارحیت کا شکار ہے اور مغربی ممالک نے یوروپ کے رقبے کے حساب سے ملک یوکرین میں روس کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے پوری طاقت جھونک دی، مغربی ممالک اور ناٹو حلیف ،یوکرین کو عسکری امداد اقتصادی مدد فراہم کراتے رہے ہیں۔ مگر غزہ پر اٹھنے والے تنازع گزشتہ 38دنوں سے چلی اسرائیلی جارحیت نے پوری دنیا کی توجہ مغربی ایشیا کی طرف مرکوز کردی ہے اور صور ت حال یوکرین کے لیے پریشان کن ہے۔ اس کرب کا اظہار گزشتہ روز یوکرین کے صدرولاد یمر زیلسنکی نے کی ہے۔
انہوںنے کہا ہے کہ موسم بدل رہا ہے اور انتہائی سرد موسم میں روس شمال حصے میں اپنی فوجی سرگرمیاں تیز کرسکتا ہے۔ ولاد یمر زیلسنکی نے کہا ہے کہ اہل یوکرین کو کسی بھی طویل اور شدید جارحیت سے ہوشیار رہنا چاہیے اور مستقبل کے حالات سے باخبر اور لڑنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ زیلسنکی کو لگتا ہے کہ موجودہ حالات ایسے نہیں ہیں کہ مغربی دنیا غزہ کو چھوڑ کر یوکرین پر توجہ مرکوز کرے۔ مغربی ایشیا میں مغرب بطور خاص امریکہ کے مفادات زیادہ ہیں۔ اسرائیل امریکہ اور مغربی ممالک کا منظور نظر ہے اور ناٹو کے کئی ملک اسرائیل کی مدد کرتے ہیں۔ اسرائیل کی مدد سیاسی ، سفارتی اور اقتصادی ، ہر سطح پر کی جاتی ہے۔ اسرائیل مغربی ممالک کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ امریکہ نے پہلے ہی واضح کردیاہے کہ اسرائیل پر ہونے والے حملے کو وہ اپنے اوپر حملے کی طرح دیکھتا ہے۔
امریکہ کے وزیر خارجہ اور وزیر دفاع غزہ میں پیدا ہونے والی صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے پہلے روز سے ہی اسرائیل اور قرب وجوار کے عرب ملکوں کے دورے پر ہیں اور کئی امریکی بیڑے بحر روم اور بحر احمر میں لنگر انداز ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ نے شام ، عراق اور عرب ملکوں کے اپنے حلیف ممالک کو کسی بھی دھماکہ خیز صورت حال سے نمٹنے کے لیے الرٹ کردیا ہے۔ ان ملکوں میں امریکی فوجی بڑی تعداد میں موجودہیں اور 7اکتوبر کے بعد سے اس پورے خطے میں امریکہ نے اپنی موجودگی اور چوکسی بڑھا دی ہے۔ عراق اور شام میں امریکی فوجی اڈوں پر ایران کی حمایت یافتہ جنگجو تنظیموں اور گروپوں کی کارروائی میں حالات کو اور پیچیدہ بنا دیا ہے۔ دوسری جانب حزب اللہ اور حوثی جنگجوئوں کی فوجی کاررائیوں نے حالات کو مزید دھماکہ خیز بنا دیاہے۔ جنگی ماہرین کا خیال ہے کہ اگر صورت حال اسی طرح برقرار رہی تو امریکہ کو اپنے حلیفوں سے مخالفت کا سامناکرناپڑ سکتا ہے۔
حالات کی سنگینی اور پیچیدگی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ کئی مغربی ممالک دبے انداز میں اسرائیل کی غزہ پر اندھا دھند کارروائی کو لے کر کھلے عام مختلف رائے ظاہر کرچکے ہیں۔ ان میں سب سے مختلف نقطۂ نظر فرانس میں دکھائی دیا ہے۔ فرانس نے فوری طور پر غزہ میں اسپتالوں اور شہری علاقوں میں بمباری کی مخالفت کی ہے۔ پچھلے دنوں فرانس کی راجدھانی پیرس میں ایک اہم میٹنگ ہوئی جس میں غزہ میں انسانی جانوں کے اتلاف پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور غزہ کی تعمیر نو پر غورو فکر ہوا۔ کہا جاتاہے کہ فرانس کے اس رویے سے اسرائیل خوش نہیں ہیں اور جس طریقے سے وہ جنگ بندی کی ہر اپیل کو یہودی مخالف قرار دے رہا ہے اس سے یہ لگتا ہے کہ حالات خراب ہیں ۔ عالمی سطح پر اسرائیلی کی بدنامی خوب ہوچکی ہے مگر اسرائیل کے پرانے دوست اور رفیق بھی الگ نقطۂ نظر ظاہر کرنے لگے ہیں۔ ایسے حالات میں نہیں لگتا ہے کہ یوکرین کو وہ توجہ مل پائے گی جو 7اکتوبر سے پہلے سے مل رہی تھی۔ پچھلے دنوں یہ خبریں آرہی تھی کہ یوکرین کے خرسان علاقے میں روس کی فوج کی پیش قدمیوں کو یوکرین کسی حد تک روک دیا تھا اور جون میں اس کو اپنے علاقے واپس لینے میں اچھی خاصی کامیابی ملی تھی لیکن اب حالات میں تبدیلی کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ روس کی فوج سرد موسم اور برفیلی وادیوں میں لڑنے میں ماہر ہے۔ پچھلے سال سخت سرد موسم میں روس نے یوکرین کے کئی علاقوں میں پیش قدمی کی تھی۔ جیسا کہ اوپر کی سطروں میں بتایا گیا ہے کہ جون میں ان میں سے کچھ علاقوں کو واپس لے لیا تھا اس کامیابی کے پس پشت مغربی ممالک کی یوکرین کو حمایت حاصل ہے۔ یوکرین کی قیادت کے ٹوٹتے حوصلوں کے درمیان امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلنکن نے ٹوکیو میں گروپ 7ممالک کی کانفرنس میں یوکرین کو یقین دہانی کرائی ہے کہ یوکرین کو حمایت اسی طرح دی جاتی رہے گی ۔ برطانیہ ، فرانس، جرمنی ، اٹلی، جاپان کناڈا اور امریکہ نے کہاہے کہ آج کے حالات میں بھی (جب مغربی ایشیا میں جنگ کی صورت حال ہے)یوکرین کو حمایت اسی طرح دی جاتی رہے گی۔ یہی نہیں روس پر پابندیوں کو سخت کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ مگر یوکرین کو کچھ الگ سے محسو س ہورہا ہے کہ دنیا پہلے کے مقابلے میں کو کرین کو کم توجہ دے گی ۔
یوکرین نے مغربی ایشیا کے اس تنازع میں مغربی ممالک کی زیادہ دلچسپی پر تشویش کااظہار کیا تھا جس کے بعد جرمنی ، ڈنمارک اور ناروے ملک نے اپنی فوجی اور اقتصادی مدد بڑھا دی تھی۔ امریکہ اور یوروپی ممالک نے اپنے طور پر ہر ملک نے 80ملین ڈالر کی فوجی اور اقتصادی مدد یوکرین کو دی تھی۔ اس کے علاوہ کچھ مغربی ممالک یوکرین سے اپنی توجہ ہٹا رہے ہیں اور جنگ کو لمبا ہوتے دیکھ کر ان ممالک کی توجہ ہٹ گئی ہے۔ یہ صورت حال رو س کے لیے بہتر ہے ۔ اس بحران سے سب سے زیادہ خوش روس کے صدر ویلاد یمیر پوتن نظرآرہے ہیں۔ پوتن کو لگتا ہے کہ مغربی ممالک یوکرین سے زیادہ اسرائیل کو مدد پہنچا رہے ہیں اور گزشتہ دوسال کے مقابلے میں یوکرین پر اب کم توجہ دی جا رہی ہے۔
rvr

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS