مکالمہ کے سماجی اثرات

0

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی

معاشرتی توازن اور سماجی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہے کہ ہندوستان جیسے تکثیری سماج میں باہمی رکھ رکھاؤ کے ساتھ رہا جائے۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ آج بہت ساری باتیں اور چیزیں ایسی رائج ہوچکی ہیں جن کا حقیقت یا اصل سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔ یہ باتیں ہندوستان کے تقریباً تمام مذاہب کے متبعین میں ملتی ہیں۔ اصحاب علم وفضل کی یہ کاوش ہونی چاہیے کہ وہ معاشرے میں رائج کسی بھی طرح کی غلط فہمی کا ازالہ کرنے کی نہ صرف سعی کریں بلکہ حقائق کو سامنے لائیں اور معاشرے کو بتائیں کہ سچائی یہ ہے۔ عوام تک جن باتوں کو پہنچایا گیا ہے، یا کسی بھی طرح پہنچ گئی ہیں وہ حقیقت نہیں ہے۔ اب دیکھیے اس وقت ہم تکثیری یا مخلوط سماج میں رہ رہے ہیں۔ مخلوط سوسائٹی کے اپنے تقاضے اور ضرورتیں ہوتی۔ کیونکہ تکثیری سماج میں متعدد افکار ونظریات اور متنوع مذاہب و عقائد کے افراد سے واسطہ پڑتا ہے۔ ہر مذہب والا اپنے مذہبی رسم و رواج اور دینی اقدار کے ساتھ رہنا پسند کرتا ہے۔ اس لیے کسی بھی مخلوط سماج کا اولین تقاضا یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کی تہذیب اور تمدن کو نہ صرف جانیں بلکہ اس میں غیر معمولی درک حاصل کریں۔ عالمی تناظر میں نہ صحیح ، اپنے ملک بھارت کو دیکھیے اور تجزیہ کیجیے کہ مسلمان اہل علم میں کتنے لوگ مذاہب کی تاریخ اور خصوصاً ہندوستان کے بڑے دھرم یعنی ہندو مذہب کی تاریخ و تہذیب سے واقف ہیں۔ ہمارے یہاں کتنے لوگ ہیں جنہوں نے ہندو دھرم کو سمجھنے کے لیے اس مذہب کے اصل متون سے رجوع کیا ہے ؟ یقینا ہندوستان میں اس طرح کے افراد کی تعداد انگلیوں پر شمار کی جاسکتی ہے۔ اور تو اور ہمارے یہاں مدارس کی تعداد اچھی خاصی ہے ان مدارس میں کتنے ایسے مدارس ہیں جن میں تقابل ادیان اور مطالعہ مذاہب یا مکالمات پر تحقیق و تفتیش ہوتی ہے ؟ کتنے علماء￿ ہم ایسے تیار کررہے ہیں جو اپنے ملک بھارت کی متنوع مذہبی اور ثقافتی قدروں کو سمجھ کر اسلام کی درست ترجمانی کرسکیں ؟ یہی نہیں بلکہ ابھی بھی بہت سارے افراد کی یہ سوچ بنی ہوئی ہے کہ کسی بھی دوسرے دھرم کو پڑھنا اور اس سے علمی اخذ و استفادہ کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ اگریہ کہا جائے تومبالغہ نہ ہوگا کہ مدارسِ دینیہ نے ابھی تک مطالعہ ادیان کو سنجیدگی سے نہیں لیا ہے ،موجودہ رویہ سے ایسا لگتا ہے کہ ہمارے مدارس کی توجہ ابھی بھی مطالعہ ادیان کی طرف بالکل نہیں ہے۔ ذرا سوچیے کہ آج بھارت میں رہنے والی اکثریت ان لوگوں کی ہے جو اپنے آپ کو ہندو دھرم سے وابستہ کرتے ہیں۔ کیا ایسے وقت میں یہ ضروری نہیں ہے کہ افہام وتفہیم کی راہ نکالی جائے، تاکہ سماجی ہم آہنگی اور رواداری کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہوسکے۔ مکالمہ کے جو اثرات عالمی سطح پر مرتب ہوتے ہیں وہ غیر معمولی ہیں۔ اسی وجہ سے علی نذیر مائکل نے اپنی معروف کتاب Mission and Dialogue London Society for promoting Christian Knowledge میں مکالمہ کی سماجی افادیت پر زور دیتے ہوئے لکھا ہے۔
” دنیا میں اس وقت تک امن و امان کا قیام ممکن نہیں جب تک مذاہب کے درمیان امن قائم نہیں ہوگا۔ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا حوصلہ ، مذہبی شعار کا احترام اور عبادت گاہوں کا احترام نہیں ہوگا۔جب خالق کائنات نے لوگوں کو مختلف رنگ و نسل ،سوچ اور عقائد دییے ہیں تو یہاں اختلاف کیوں ہورہے ہیں، ان تمام باتوں سے بالائے طاق ہوکر دنیا میں پر امن فضا پیدا کرنا مکالمہ کا اولین مقصد ہے” بین مذہبی مذاکرات کی اصل تصویر یہی ہے کہ سماج میں امن و امان اور خوشحالی کی راہ ہموار کرنے کے لیے مکالمہ کو اختیار کیا جائے۔ سماج میں ایک دوسرے کے دین ودھرم کے متعلق متوازن سوچ و فکر کے افراد تیار ہوں۔ کسی کے دھرم کے حوالے سے منفی نظریہ رکھنا ، کسی دھرم اور دین کے رسوم و روایات کی توہین کرنا ،مکالمہ اور افہام وتفہیم کی راہ میں سد باب ہے۔ مطالعہ مذاہب سے جہاں معاشرہ میں امن و امان اور سلامتی قائم ہوتی ہے وہیں علمی اور تحقیقی طور پر اس سے فائدہ ہوتا۔ فکر و نظر میں وسعت اور گہرائی و گیرائی حاصل ہوتی ہے۔ اس حوالے سے شیخ احمد دیدات جو کہ تقابل ادیان کے ماہرین میں شمار کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب ‘ تقابل الادیان السماویہ ‘ میں لکھا ہے۔ ” مذاہبِ پر غور وفکر کرنے سے ہمارے مطالعہ میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور مفید معلومات حاصل ہوتی ہیں ، جن سے رواداری اور مخالف نقطہ کو برداشت کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے ، نیز پتہ چلتا ہے کہ مختلف مذاہب میں بعض مشترک تعلیمات پائی جاتی ہیں جو ازلی اور ابدی انسانی اقدار ہیں اور فی الحقیقت یہی صداقتیں اور اقدار پائدار ہیں جو ہر زمانہ اور ہر مذہب میں موجود رہی ہیں۔ اسی طرح مذاہب کے مطالعہ سے تمام مذاہب کی خوبیوں سے آشنا ہوتے ہیں اور عملا انہیں اپنا سکتے ہیں جس سے بلند کرداری ، فکری بالیدگی اور روحانی سکون حاصل ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں مطالعہ مذاہب سے یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ عموماً عالی ہمت راست گو ، مستقل مزاج اور نسل انسانی کا بہترین گروہ تھا جو ہم سب کے لیے قابل فخر طبقہ ہے۔ اس کے برعکس ان کے مخالفین ، کینہ پرور ، خود غرض ، دنیا پرست ، کم ہمت ، بے صبر اور گھٹیا کردار کے حامل تھے۔ لہذا ہمیں رزائل اخلاق سے پرہیز اور فضائل اخلاق کو اپنانا چاہئے ”
بین مذہبی مذاکرات اور مطالعہ مذاہب کی یہ وہ صداقتیں اور خوبیاں ہیں جن سے معاشرہ میں آفاقیت اور عالمگیریت ہی پیدا نہیں ہوتی ہے بلکہ فکر اور مزاج میں قوت برداشت اور تحمل کا عنصر پیدا ہوتا ہے، جو آج کی ایک اہم اور بنیادی ضرورت ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ سماج میں قوت برداشت اور انگیز کرنے کا جو تصور تھا وہ اب بہت حد تک مفقود ہوتا نظر آرہا ہے۔ اس لیے معاشرہ کو قوت برداشت جیسے جوہر سے ہم آہنگ کرنے اور فکری و نظریاتی طور پر توسع پیدا کرنے کے لیے بھی مذاہب کی معلومات کے ساتھ ساتھ قوموں اور معاشروں کی تاریخ و تہذیب سے مکمل واقفیت پیدا کرنا نہایت ضروری ہے۔ اس سے معاشرے میں مختلف مذاہب کی اقدار اور ان کی تعلیمات کو اختیار کرنے اور اس حوالے سے جو بھی غلط فہمیاں پیدا ہوگئی ہیں ان کا آسانی سے ازالہ کیا جاسکتا ہے۔ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ آج کا عالمی بحران مذہبی ، سیاسی ، سماجی ،اقتصادی اور معاشی طور پر دنیا کو بری طرح متاثر کررہا ہے۔ جس کے باعث معاشروں میں بے چینی ، نفرت اور اضطراب کی کیفیت بڑھ رہی ہے۔ اس لیے مذاہب وادیان اور تہذیبوں کے درمیان مکالمہ ، گفتگو اور مطالعہ کو عہد حاضر کی سب سے بڑی ضرورت محسوس کیا جا رہا ہے۔ تاہم یہ کوئی نئی کوشش اور جد وجہد نہیں ہے ، بلکہ ماضی میں بھی متعدد اور مختلف الخیال طبقوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی کاوشیں ہوتی رہی ہیں۔ اس کی نظیریں تاریخ کے اوراق میں جابجا ملتی ہیں۔ یہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ تعدد پسند طبقات میں گفت و شنید کے لیے اسلام کا فلسفہ نہاہت متوازن اور مبنی بر حقیقت ہے۔ دین اسلام نظریاتی و فکری اختلافات کی تائید کرتا ہے۔ یاد رکھیے! برداشت ، احترام اور محبت کی پالیسی کو اس وقت عمل میں لایا جاسکتا ہے جب کہ ایک دوسرے کے نظریات کا احترام کیا جائے۔وہ معاشرے اپنا وجود اور شناخت کھو تے ہیں جو وقت اور حالات کے تناظر میں خود کو تیار نہیں کرتے۔ اپنی نسلوں کو ان خطوط پر چلنے کی اجازت نہیں دیتے ہیں جن سے عصری تقاضوں کو سمجھا جائے۔ مسائل ہمیشہ رہتے ہیں۔ مسائل کی شکل بدلتی رہتی ہے۔ اس لیے آج جن حالات اور مسائل سے مقابلہ ہے وہ یہ کہ ایک طرف وہ طبقہ ہے جو ہندو دھرم کی تعبیر و تشریح اپنے سیاسی ایجنڈے کے مطابق کررہا ہے اور دوسری طرف خود ہندو دھرم ہے جس کے اندر بہت ساری ایسی حقیقتیں پائی جاتی ہیں جو انسانی حقوق سے ہم آہنگ ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہمیں ہندو دھرم کو سمجھنے کے لیے کسی طبقہ کی ضرورت نہ پڑے۔بلکہ خود پڑھ کر اسے سمجھا جائے۔ اور بتایا جائے کہ اصل مذہب کی حقیقی روح یہ ہے نہ کہ وہ جسے سنگھ اپنے مخصوص نظریہ کے مطابق پیش کررہا ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS