سر سیّد احمدخاں ؒ کے نظریۂ تعلیم کا بلو پرنٹ

0

شاہد زبیری

سر سیّد احمدخاں ؒایک ایسی شخصیت کا نام ہے جس نے مسلمانوں کی کئی نسلوںکو متاثر کیا خاص طور پرجدید تعلیم کے میدان میں آج بھی جب مسلمانوں کی تعلیم کے حوالہ سے بات ہو تی ہے تونظر سیّد احمد خاںؒ پر جاتی ہے ۔سیّد احمد خاں کے شدید ترین مخالف بھی اس بات کے معترف رہے ہیں اور ہیںکہ برِّ صغیر کے مسلمانوں میںجدید تعلیم کے آج جو چراغ روشن ہیںان کی روشنی سیّد احمدؒ کے تعلم کے جلائے ہوئے چراغ سے ہے اسی لئے برِ صغیر کے مسلمانوں میں جوجدید تعلیم کا رجحان اور احساس پیداہوااسکا سہرہ سر سیّد ؒ کے سر جا تا ہے ۔انکی پیدائش 17اکتوبر 1817اور یومِ وفات 27مارچ 1885ہے ۔
سیّد احمد خاں ؒ نے مغل سلطنت کا اقبال ختم ہو تے اور 1857 کے ناکام انقلاب کی پاداش میں انگریزوں کے ہاتھوں مسلمانوں کو تباہی وبربادی اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی جگہ ہندوستان کا اقتدارملکہ وکٹوریہ کے ہاتھوں میں منتقل ہو تے ہو ئے دیکھا تھااور ایک نئی تہذیب کا سورج ان کی آنکھوں کے سامنے روشن ہوا تھا اورمسلمان اس نئی تہذیب سے مفاہمت کیلئے رتی بھر تیا ر نہ تھے جبکہ برادرانِ وطن نے ہوا کا رخ پہچان کر حالات سے مفاہمت کرلی تھی لیکن مسلمانوں کو انگریز اور ان کی لائی ہوئی نئی تہذیب دونوں سے شدید نفرت تھی اور وہ 1857کے بعد سے انگریزوں کے خلاف قلم اور تلوار دونوں سے صف آراء تھے اس ماحول میں سیّد احمد خاں ؒ نے اپنے والدکے انتقال کے بعد گھر کی کفالت کیلئے جب انگریز سرکار کی ملاز مت شروع کی تو ان کی عمر محض 22سال تھی جہاں سے ان کی زندگی کے ایک نئے سفر کا آغاز ہوا تھا اور ان کو مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی اور ترقی کا شدید احساس ہو ا تھا اور اس احساس نے انہیں ہمیشہ مضطرب اور پریشان رکھا ۔اور اسی اضطراب نے ان کو حیاتِ جاوداں بخشی سرسیّدؒ آج بھی لاکھوں دلوں میں زندہ ہیں جبکہ ان کے مخالفوں کے نام بھی لوگ نہیں جانتے۔ سر سیّدؒ نے اپنے نظریئہ تعلیم کا جو بلو پرنٹ یا یوں کہے ابتدا ئی خاکہ تیار کیا تھا اس کو عملی شکل دینے میں انہوں نے اپنی پوری زندگی صرف کردی۔
ڈاکٹر سیّد عابد حسین ؒاپنی کتاب ـ’ہندوستانی مسلمان آئینئہ ایّام میں ‘ ص42 میں لکھتے ہیں کہ’ سر سیّدؒ نے سرکار انگریز کی ملازمت ایک چھوٹی سی جگہ پر شروع کی اور اس کے بعد 18 سال کے عرصہ میں دفتری اور انتظامی کام اس قدر محنت اور قابلیت کیساتھ انجام دئے اور قانون کی تحصیل میں اس قدر نمایاں کا میابی حاصل کی کہ ترقی کرکے صدر امین کے عہدے پر پہنچ گئے ۔’
دورانِ ملازمت سر سیّدؒ نے یہ محسوس کرلیا تھا کہ اگر مسلمانوں نے وقت کی نبض کو نہیں پہچانا اور 1857کی طرح پھر جوشِ جذبات میں اقتدار سے ٹکراگئے تو وہ کہیں کے نہیں رہیں گے ۔ سیّد احمد خاں ؒ جب مراداباد میں تعینات تھے انہوں نے 1859میں ایک مدرسہ فارسی کی تعلیم کا کھولا ،مرادا باد سے غازی پو ر تبا دلہ ہو گیا تو 1864میں غازی پور میں بھی فارسی کا ایک مدرسہ قائم کیا جو آگے چل کر وکٹوریہ ڈگری کالج کے نام سے مشہور ہوا اسی زمانہ میں انہوں نے سائنٹیفک سو سائٹی قائم کی۔ بنارس میں قیام کے دوران سرکاری ملازم رہتے ہوئے وہ انگلینڈ کے سفر پر گئے تو وہاں انہوں جدید تعلیم کے ثمرات کو اپنی آنکھوں سے دیکھااور یہاں سے سر سیّد احمد خاںؒ کے نظریئہ تعلیم میں تبدیلی کا آغاز ہوا۔انگلینڈ میں انہوں نے وہاں کے اخبارات دیکھے یو نیورسٹیاں دیکھیں تو انہوں نے وہاں سے لوٹ کر 1870 میںدو کمیٹیاں ‘کمیٹی خواستگار ترقی تعلیم مسلمانان ‘اور دوسری کمیٹی’ مجلس خزینتہ البضاعتہ ‘ کے نام سے تشکیل دیں ۔اوّل الذکر کمیٹی نے 5سفارشات پیش کیں آخری سفارش میں کہا گیا کہ’ مسلمانوں کو اپنے علوم ِقدیمہ کے محفوظ رکھنے ،علومِ جدیدہ سے مستفید ہو نے اور اپنی تمام ضرورتوں کے مواقف اپنی اولاد کی تربیت کر نے کیلئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ اپنی تعلیم کی فکر آپ کریں،اسی رپورٹ میں مجوزہ کالج کی اسکیم اور طریقہ تعلیم بھی مندرج ہیں جوسر سیّد نے کمیٹی کے سامنے پیش کئے ‘۔
اس کمیٹی میں نواب محسن المک اور نواب وقار الملک شامل تھے’حیاتِ جاوید’ مولا نا حا لی ص175 ۔’ کمیٹی خواستگار ترقی تعلیم مسلمان’ ۔ کی رپورٹ میں سرسیّد ؒ کی ایک پوری تقریر کے حوالہ سے ڈاکٹر عابد حسین ؒ نے’ مسلمان آئینہ ایّام میں’ ص 56-57 پر لکھا کہ: کمیٹی کی رپورٹ میں سر سیّد ؒکی ایک پوری تقریر نقل کی گئی ہے جس میں مسلمانوں کی تعلیمی کے ایک ہمہ گیر منصوبہ کے ضمن میں ایک اقامتی دارالعلوم کے قیام کی مفصل تجویز ہے (1) ایک انگریزی مدرسہ آکسفورڈ اور کیمبرج کے نمو نے پر ان لو گوں کیلئے جو گورنمنٹ کے اعلیٰ عہدو ں کے پا نے کی تمنّا رکھتے ہیں( 2) ایک اردو مدرسہ ان لو گوں کیلئے جو تمام علوم و فنون اپنی زبان کے ذریعہ حاصل کرنا چا ہتے ہیں تاکہ غیر زبان میں پڑھنے سے جو رکاوٹ انگلستان کے کالجوں کے تعلیمی معیار تک پہنچنے اور’ لیا قتِ کامل’ حاصل ہو نے میں پڑتی ہے وہ دور ہوجائے ۔(3) ایک عربی فارسی مدرسہ ان لوگوں کیلئے جو انگریزی مدرسہ اور یا اردو مدرسہ میں تعلیم سے فراغت پا نے کے بعد عربی یا فارسی زبان کے لٹریچراور علوم حاصل کر نا چاہیں ۔’تینوں مدرسے مل کر حقیقت میں ایک مدرسہ ہو گا ۔’ چنانچہ سر سیّدؒ کے تعلیمی نظریہ کے اس ابتدائی خاکہ یا یوں کہے کہ بلو پرنٹ کی بنیاد پر 24مئی 1875کو مدرستہ العلوم قائم ہوا جو محمڈن اینگلو اورینٹل کے نام سے مشہور ہوا اور سر سیّدؒ کے انتقال کے بعد 1920میں مسلم یو نیورسٹی کا تناور درخت بن کر برگ و بار لایا ۔
اقا متی مدرسہ کا قیام سر سیّدؒ کے پیشِ نظر اس لئے تھا کہ اس کے بغیر تعلیم کیساتھ تربیت ممکن نہیں تھی، سائنٹیفک سو سائٹی کے قیام اور اقامتی تعلیمی ادارہ کی ان کی کوشش سے یہ صاف ظاہر ہیکہ سر سیّد ؒ کے نزدیک تعلیم کا مقصد محض جدید تعلیم یا انگریزی تعلیم اور سرکاری ملا زمتوں کا حصو ل نہیں تھا بلکہ مسلمانوں میںientific Approach ) Sc) پیدا کرنا اور عقل و خرد کی راہ پر ڈالنا بھی تھا ۔سر سیّدؒ کا یہ قول آج بھی لوگ دہراتے ہیں کہ سر سیّدؒ مسلمان نوجوانوں کے ایک ہاتھ میں قرآن دوسرے ہاتھ میں سائنس اور فلسفہ اور سر پر لا الہٰ الاللہ کا تاج دیکھنا چا ہتے ہیں ۔
سر سیّدؒ کے نظرئیہ تعلیم اور تعلیمی تحریک پر یہ اعتراض بھی کیا جاتا رہا ہیکہ سرسیّد ؒ کے اس بلو پرنٹ میں لڑکیا ں کہیں نظر نہیں آتی ہیں لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ مسلمان لڑکوں کی جدید تعلیم کیلئے ہی آمادہ نہ تھے لڑکیوں کی تعلیم کی وہ کیسے حامی بھرتے اگر سر سیّدؒ اس وقت لڑکیوں کی تعلیم کا بیڑا اٹھا تے تو مزید پریشا نیوں میں گھر جا تے اسی لئے لڑکیوں کی تعلیم کی بابت سوال پر سرسیّد ؒکی یہ بات نقل کیجا تی ہیکہ پہلے لڑکے تعلیم حاصل کر لیں لڑکیاں بھی تعلیم یا فتہ ہو جا ئیں گی اور ایسا ہوا بھی سر سیّد ؒ نے جس دانش گا ہ کی بنیاد رکھی تھی اسی دانشگاہ سے قانون کی تعلیم حاصل کرنے والے خان بہادر شیخ محمد عبداللہ نے پہلے لڑکیوں کو تعلیم کیطرف راغب کر نے کیلئے 1904میں ماہنامہ, خاتون’جا ری کیا اور ان کی کوششوں سے علیگڑھ میں لڑکیوں کا مدرسہ بھی 1907میں قائم ہو گیا جسکی شدید مخالفت بھی ہو ئی۔
یہاں تک کہ بورڈنگ ہائوس میں رہنے کیلئے لڑکیاں نہ ملیں چو نکہ اس زمانہ میں بو رڈنگ ہا ئوس میں لڑکیوں کا رہنا معیوب سمجھا جاتا تھا ۔اس کا آغاز شیخ عبداللہ نے اپنے گھر سے کیا اوران کی بیگم وحید جہاں خود آکر بورڈنگ ہائوس میں رہنے لگیں اور انہوں نے اپنے عزیزو اقارب کی لڑکیوں کو بورڈنگ ہائوس میں رکھا مدرسہ میں پڑھنے کیلئے بھی لڑکیاں نہیں تھی بمشکل ایک استانی کا انتظام ہوا استانیوں کی کمی کو بیگم عبداللہ اور ان کی دو بہنوں نے پورا کیا ۔مدرسہ ترقی کے منازل طے کرتا ہوا اس مقام تک پہنچا کہ1929میں اس کا الحاق مسلم یو نیورسٹی سے ہوا ۔اسکی تفصیلات سیّد طفیل احمد منگلو ری کی کتاب ‘مسلمانوں کا روشن مستقبل ‘میں دیکھی جا سکتی ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS