تو کیا ہم صرف نعرے لگانا جانتے ہیں؟

0

پنکج چترویدی

سپریم کورٹ نے عام لوگوں کے جذبات کا خیال رکھ کر صرف دو گھنٹے اور کم نقصان پہنچانے والی آتش بازیوں کی اجازت دی، لیکن دیوالی کی رات راجدھانی دہلی اور اس کے آس پاس نہ تو وقت کی پروا رہی اور نہ ہی خطرناک آتش بازی کا خیال۔ سپریم کورٹ دور اپنی نافرمانی پر کھسیاتا رہا۔ حالاں کہ سپریم کورٹ نے اپنے احکامات پر عمل درآمد کے لیے مقامی انتظامیہ اور پولیس کو ذمہ دار بتایا تھا۔ ظاہر ہے کہ نہ تو کوئی شکایت کرے گا اور نہ ہی گواہی دے گا۔ ظاہر ہے کہ ملک کے دوردراز علاقوں میں تو کوئی پابندی عائد ہی نہیں ہوگی۔ گزشتہ ایک ماہ سے دہلی این سی آر کی آب و ہوا زہریلی ہونے پر ہر دن اخبار لوگوں کو الرٹ کررہے ہیں، جن کے گھر میں کوئی سانس کا مریض، دل کی بیماری میں مبتلا شخص، بزرگ لوگ یا پالتو جانور ہیں، وہ تو سپریم کورٹ کے حکم سے پرامید تھے، لیکن ایسے نظریہ کے لوگ جو مذہب-عقیدت یا منافقت کو قوم سے اوپر سمجھتے ہیں، انہوں نے باقاعدہ مہم چلا کر زیادہ سے زیادہ لوگوں کی آتش بازی کے لیے حوصلہ افزائی کی۔ یہ صرف آتش بازی نہیں تھی، یہ ہم ہندوستانیوں کے نعرے بازی کی حقیقت تھی- کم سے کم کاربن کے اخراج یا آلودگی کی روک تھام کاعہد، کووڈ مریضوں کے تئیں ہمدردی کا اظہار اور صفائی کی تقریریں، اس اندھیری رات میں ایک ایک کرکے غائب ہوگئیں۔
ہوا کے آلودہ ہونے کی وجہ سے سپریم کورٹ اور این جی ٹی کے احکامات کے بعد پٹاخوں کی فروخت اور پٹاخوں کو پھوڑنے جلانے پر پابندی عائد ہے۔ باوجود اس کے خوب پٹاخے فروخت ہوئے اور جلائے بھی گئے۔ دیوالی پر زبردست آتش بازی ہوئی۔ شام سے لے کر رات بارہ بجے تک خوب پٹاخے جلائے گئے۔ چاروں طرف دھواں ہی دھواں بھرگیا۔ ایئرکوالٹی انڈیکس رات 12بجے 441پہنچ گیا۔ چھوٹی دیوالی بدھ کی رات بھی زبردست پٹاخے جلائے گئے۔ بدھ کو ایئرکوالٹی انڈیکس 353تھا۔ جمعرات کی رات شہر میں ہوئی زبردست آتش بازی کے بعد اے کیو آئی میں 88پوائنٹ کا اُچھال آیا اور غازی آباد ڈارک ریڈ زون میں چلا گیا۔ سڑکوں پر لائٹ جلنے کے بعد بھی دھواں بھرنے سے گاڑیوں کو فوگ لائٹ کا سہارا لینا پڑا۔ روشنی میں بھی وزیبلیٹی کم رہی۔ مرکز کے ذریعہ چلائے جارہے سسٹم ایئر کوالٹی اینڈ ویدر فارکاسٹنگ اینڈ ریسرچ یعنی سفر کے مطابق دہلی کی ہوا کے معیار میں تیزی سے تبدیلی ہوتی نظر آئی۔ دیوالی کی رات پٹاخوں کے سبب ایئر کوالٹی خطرناک سطح پر پہنچ ہی گئی۔ سبھی جانتے ہیں کہ کووڈ بنیادی طور پر انسان کے پھیپھڑوں کی صلاحیت کو متاثر کرتا ہے اور آتش بازی کا زہریلا دھواں ایسے لوگوں کے لیے زہر ہوتا ہے۔
6سال قبل دیوالی کے کوئی ایک ہفتہ پہلے ہی وزیراعظم نے ایک پہل کی،ایک نہایت ہی معاشرتی پہل، لازمی پہل اور ملک کی شبیہ دنیا میں بہتر کرنے کی ایسی پہل جس میں ایک عام آدمی بھی ہندوستان کی تعمیر میں اپنی شراکت بغیر کسی جمع پونجی خرچ کیے کرسکتا تھا- سوچھ بھارت ابھیان۔ پورے ملک میں جھاڑو لے کر سڑکوں پر آنے کی مہم سی چھڑ گئی- لیڈر، افسر، غیرسرکاری تنظیمیں، اسکول، ہر جگہ صفائی مہم کی ایسی دھوم رہی کہ بازاروں میں جھاڑوؤں کی قیمت آسمان پر پہنچ گئی۔ دیوالی ہر گھر میں صاف صفائی کا تہوار ہے، کہتے ہیں کہ جہاں گندگی ہوتی ہے وہاں لکشمی جی جاتی نہیں ہیں، لہٰذا گھروں کا کوڑا سڑکوں پر ڈالنے کا دور چلا۔ حد تو دیوالی کی رات کو ہوگئی، غیرقانونی ہونے کا اعلان ہونے کے باوجود سب سے زیادہ آتش بازی اس رات ہوئی، نہ قاعدوں کی فکر رہی، نہ ضوابط کی پروا۔ صبح ساری سڑکیں جس طرح گندگی، کوڑے سے بھری ہوئی تھیں، اس سے واضح ہوگیا کہ ہماری صفائی مہم ابھی دل و دماغ سے نہیں صرف منھ زبانی خرچ پر ہی چل رہی ہے۔
دہلی پولیوشن کنٹرول بورڈ نے پابندی والی رات کے بعد اعداد و شمار جاری کرکے بتایا کہ صبح 6بجے مختلف مقامات پر آلودگی کی سطح اپنی عام سطح سے کہیں زیادہ اوپر تھی۔ یہاں تک کہ کئی مقامات پر یہ 24گنا سے بھی زیادہ ریکارڈ کی گئی ہے۔ صبح 6بجے کے اعداد و شمار کی بات کریں تو پی ایم2.5کی سطح پی ایم 10سے کہیں زیادہ بڑھی ہوئی ہے۔ پی ایم 2.5وہ باریک ذرّات ہیں جو ہمارے پھیپھڑوں کے آخری سرے تک پہنچ جاتے ہیں اور کینسر کی وجہ بھی بن سکتے ہیں۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ پی ایم 2.5کی سطح انڈیا گیٹ جیسے علاقوں میں جہاں ہر روز صبح کئی لوگ آتے ہیں، وہاں 15گنا سے بھی زیادہ اوپر آیا ہے۔
یہ اب سبھی جانتے ہیں کہ آتش بازی سے لوگوں کے سننے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے، اس سے نکلے دھویں سے ہزاروں لوگ سانس لینے کی دقتوں کے مستقل مریض بن جاتے ہیں، پٹاخوں کا دھواں کئی مہینوں کی آلودگی میں اضافہ کردیتا ہے۔ اس تعلق سے اسکولی بچوں کی ریلی، اخباری اشتہارات، اپیلوں وغیرہ کا دور چلتا رہا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ جھاڑو لے کر صفائی کرنے کے فوٹو اخبار میں چھپوانے والے بغیر آتش بازی کے دیوالی منانے کی مہم پر جارحانہ رُخ اختیار کرکے اسے ’’مذہب مخالف‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ ٹوئٹر پر ایسے لوگوں نے ٹرینڈ کروایا کہ پٹاخے کے ساتھ دیوالی اور اس کے فوٹو ڈالیں۔ ایک وکیل نے تو اپیل کی کہ زبردست آتش بازی کرو، اگر کوئی قانونی مدد کی ضرورت ہوگی تو بغیر فیس خدمات انجام دے گا۔ کچھ لوگ عیدالاضحی پر گوشت کی مخالفت اور دیوالی پر پٹاخوں کی مخالفت کرنے کو فیشن بتاکر مذاق اڑا رہے ہیں۔ کچھ لوگ اسے ذاتی اور ملک کی خوشی بڑھنے سے منسلک کررہے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کئی برس قبل سپریم کورٹ بھی حکم دے چکا ہے کہ رات میں 10بجے کے بعد آتش بازی نہ ہو، کیوں کہ اس سے بیمار، معذور افراد کو کافی دقتیں ہوتی ہیں۔ دھماکوں کی آواز سے متعلق بھی 80سے 100اعشاریہ کی حد ہے، لیکن دس ہزار پٹاخوں کی لڑی یا دس ستلی بم ایک ساتھ جلاکر اپنی عقیدت یا خوشی کا اظہار کرنے والوں کے لیے قانون-قاعدے کوئی معنی نہیں رکھتے۔
اس مرتبہ پورے ملک میں آتش بازی کے سبب چھوٹے بڑے ہزار سے زیادہ آتشزدگی کے واقعات ہوچکے ہیں، چین سے آئے غیرقانونی پٹاخوں کو جلانے میں نہ تو ملک سے محبت آڑے آئی اور نہ ہی نظریاتی عزم۔ کچھ لوگ صفائی ملازمین کو کوس رہے ہیں کہ سڑکوں پر آتش بازی کا ملبہ صاف کرنے وہ صبح جلدی نہیں آئے، یہ سوچے بغیر کہ وہ بھی انسان ہیں اور انہوں نے بھی گزشتہ رات دیوالی منائی ہوگی۔ یہ بات لوگ، خاص طور پر جھاڑو ہاتھ میں لے کر دنیا بدلنے کے نعرے دینے والے سیاسی کارکن، نہیں سمجھ پاتے کہ ہمارے ملک میں صفائی سے بڑا مسئلہ بے قابو کوڑا ہے۔ پہلے کوڑا کم کرنے کی کوشش ہونی چاہیے، ساتھ میں اسے زائل کرنے کی۔ دیوالی کے دھویں اور کوڑے نے یہ بات تو ثابت کردی ہے کہ ابھی ہم ذہنی طور پر وزیراعظم جی کی اپیل پر عمل کے لیے تیار نہیں ہوئے ہیں۔ جس گھر میں چھوٹے بچے، پالتو جانور یا بزرگ اور دل کے مریض ہیں ذرا ان سے جاکر پوچھیں کہ روایت کے نام پر ماحولیات میں زہر گھولنا کتنا افسانوی، لازمی اور مذہبی ہے۔ ایک بات اور ہندوستان میں دیوالی پر پٹاخے چلانے کی روایت بھی ڈیڑھ سو سال سے زیادہ پرانی نہیں ہے اور اس دور میں برائیاں ختم بھی ہوئیں اور پیدا بھی ہوئیں، روایت تو اسے کہا نہیں جاسکتا۔
شاید یہ ہندوستان کا رواج ہی ہے کہ ہم نعروں کے ساتھ آواز تو زور سے لگاتے ہیں لیکن انہیں زمینی سطح پر لانے میں ’اگر-مگر‘ کرنے لگتے ہیں۔ ہر انسان چاہتا ہے کہ ملک میں بہت سے شہید بھگت سنگھ پیدا ہوں، لیکن ان کے گھر تو امبانی یا دھونی ہی آئے، پڑوس میں ہی بھگت سنگھ پیدا ہوں، جس کے گھر ہم کچھ آنسو بہانے، نعرے لگانے یا یادگار بنانے جاسکیں۔ جب تک خود دیپ بن کر جلنے کی صلاحیت پیدا نہیں ہوگی، تب تک دیا-باتی سے اندھیرا جانے سے رہا۔ اب تو لگتا ہے کہ کمیونٹی اور اسکولی سطح پر اس بات کے لیے نعرے گڑھنے ہوں گے کہ نعروں کو نعرے نہ رہنے دو، انہیں ’نر-ناری‘(مرد-عورت) کا مذہب بنادو۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS