لوجہاد معاملے میں یوپی پولیس نے سونپی رپورٹ، کہا کسی سازش یا غیر ملکی فنڈگ کے ثبوت نہیں

0

نئی دہلی:اترپردیش کے کانپور ضلع میں’لو جہاد‘کے واقعات کی جانچ پڑتال کے لئے خصوصی طور پر تشکیل دی گئی(سی
آئی ٹی)نے پیر کو اپنی رپورٹ کانپور کے پولیس کے نگران(آئی جی)کے سونپ دی۔ تفتیش میں کسی بھی طرح کی سازش یا
فنڈنگ​یا منطزم طریقہ جبرن مذہب کی تبدیلی کی بات سامنے نہیں آئی ہے۔
 یہ رپورٹ ایسے وقت میں آئی ہےجب یوگی حکومت ریاست میں بڑھتے’لوجہاد‘کے معاملے کا حوالہ دے کر اس کے خلاف
قانون لانے کی بات کررہی ہے۔ 
کانپور شہر کے تمام 22 تھانوں سے  ہندو مسلم تعلوقات کو کو شک کی بنیاد پر رپورٹ دینے کو کہا گیا تھا،لیکن صرف 14
معاملے سامنے آسکے تھے،جس کی ایس آئی ٹی نےجانچ کی ہے۔
دی وائر کے ذریعہ حاصل کی گئی ایس آئی ٹی رپورٹ کے مطابق 14 میں سے 8 معاملوں میں لڑکیوں نے کہا کہ ان کا تعلق
رضامندی اور محبت پرمنحصر تھا۔ اس میں سے 6معاملے میں شادی ہوئی تھی اور باقی کے 2 معاملوں کو پولیس نے محبت سے
متعلق گروپ میں ڈالا۔
جن6 معاملوں میں نکاح ہوا ہے،لیکن اس میں پولیس نے شوہر کو ملزیم بنایا ہے۔ ،لیکن وہ کوئی بھی ایسا ثبوت پیش کرنے میں ناکام
رہے ہیں۔ جو یہ ثابت کر سکے کے جبرن نکاح کرایا گیاہے۔ رپورٹ کے مطابق،ایک عورت نے بتایا کہ ان کے درمیان اور اس کے
درمیان محبت سے متعلق تعلقات تھے اور وہ بہت پہلے ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ ایک خاتون نے کہا کہ ان کےاور ملزمین کے
بیچ محبت تھی اور وہ اسے بہت پہلے سے جانتی تھی۔ ایک دوسری خاتون نے پولیس کو واضح کیا کہ وہ رضامندی سے ملزم کے
ساتھ گئی تھی، جسمانی تعلقات اوراپنی مرضی سے اس سے شادی کرنے کا فیصلہ کیا۔ 
ایک اور خاتون نے آپنے بیان میں کہا کہ وہ ملزم سے شادی کرنے کا اس پر کوئی دبائو نہیں تھااور وہ اپنے من سے اس کے پاس
گئی تھی۔ ایک اورخاتون نے کہا کہ اس نے اپنی مرضی سے ملزم کےساتھ نکاح کیا ہے۔
کانپور رینج کے آئی جی موہت اگروال نے بتایا کہ ایس آئی ٹی نے انہیں رپورٹ سونپ دی ہے۔ایس آئی ٹی نے کل 14 واقعات کی
جانچ کی، جن میں سے  11میں کسی نا کسی طرح کا جرم ہونا پایا گیاہے۔ ان معاملوں میں ایس آئی ٹی نے پایا کہ ملزمین نے
دھوکہ دھڑی کرکے یا کسی دوسرے طریقہ سے ہندو لڑکیوں سے محبت سے تلعلقات بنائے تھے۔ 
اس کو  یکر پولیس نے ملزمین کے خلاف دفعہ 363(اغوا)،366(اغوا،اغوا یا خاتون کو اس کی شادی کے لئے مجبور کرنا
وغیرہ)اور دیگر دفعات کے تحت کارروائی کی ہے۔ اس میں سے 8 معاملوں میں یہ پایا گیا کہ لڑکیاں نابالغ تھیں۔باقی تین لڑکیوں
نے اپنی مرضی سے شادی کرنے کی بات کہی ہےاور اس میں پولیس نے کلوز رپورٹ سونپ دی ہے۔ ایس آئی ٹی جانچ میں کسی
سازش یا فنڈنگ یا کسی ادارے کےشامل ہونے یا منصوبہ بند طریقہ سے مسلمانوں کے ذریعہ ہندو لڑکیوں سے شادی کرنے کے
ثبوت نہیں ملے ہیں۔
انڈین ایکسپریس سے بات چیت میں اگروال نے بتایا کہ’ان معاملوں میں سازش کی امید نہیں کی جاسکی ۔جانچ ٹیم نوجوانوں(
ملزمین)کے پیچھے کسی ادارے کا ہاتھ ہونے کا بھی پتا نہیں چلا ۔ ساتھ ہی انہوں نے غیر ملکوں سے کسی طرح کی فنڈنگ بھی
نہیں کی گئی تھی ۔
انہوں نے بتایا کہ شروع میں جانچ کے دائرے میں صرف 6 معاملے تھے،لیکن میڈیا میں معاملہ آنے کے بعد کچھ اور معاملے
آئے اور اب کل  14 معاملے ہوئگے۔ 4 معاملے کے ملزمین کے کال تفصیل کی تحقیق سے پتا چلا کہ ایک دوسرے سے لمبے
وقت سے بات چیت ہوتی تھی۔
انسپکٹر جنرل پولیس نے بتایا کہ 11 میں سے 8 معاملوں میں چارج شیٹ داخل کی گی اور 11 ملزمین کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔
اس میں سے ایک کیس شارخ نام کے شخص کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 360(اغوا)اور 366(جبرن شادی کرانا)کے
تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔ چونکہ ناکافی ثبوت ہونے کی وجہ سے شارخ کو ایک مہینے کے اندر ضمانت دے دی گئی تھی، جو
کہ دوسرے معاملوں میں بھی ملزمین پرسوالیہ نشان واضح کرتا ہے۔ دی وائرسے بات کرتے ہوئے شارخ کی وکیل اعزرانےکہا
کہ یہ دور دور تک لوجہاد کا معاملہ نہیں تھا۔ جب دی وائر نے اس معاملے میں خواتین سے بات کرنے کے لئے کال لگائی تو ان
کے بھائی نے فون اٹھایا اور بات کرانے سےانکار کردیا۔انہوں نے کہا ، ‘میری بہن کو لڑکے بہکا دیا تھا‘
اس سوال پر کہ جن مولویوں نےوہ شادی کرائی، کیا ان کے خلاف بھی کوئی کارروائی ہوگی ، اگروال نے کہا،’ابھی تک جتنے
بیان درج کئے گئے ، ان میں ہر معاملے میں مولوی الگ الگ ہیں ۔ لڑکی نے انہیں جو نام بتایا،اس حساب سے انہیں نکاح کرایا، اس
لئے ابھی تو لڑکیوں کے فریقین ہی ملزم ہیں۔
جن 11 معاملات میں کارروائی کی گئی ہے،اس میں سے تین معاملے میں ایس آئی ٹی نے پایا کہ لڑکے نے عارضی طور پر
اپنی فرضی شناخت بتائی تھی اورفرضی دستاویزات تیارکرائے تھے۔ تین معاملات میں پولیس نے ملزمین کے خلاف دھوکہ دھڑی  
کا معاملہ درج کیا ہے۔
ان معاملے میں سازش کی جانچ کرتے ہوئے ایس آئی ٹی نے پایا کہ صرف 4مسلم لڑکے ایک دوسرے کو جانتے تھے، لیکن اس کی
وجہے یہ تھی کہ وہ چاروں ایک ہی کالونی کانپور کے جوہی کالونی میںرہتے تھے آئی جی نے بتایا کہ،‘11 میں تین معاملے
میں مظلوم (لڑکی)نے دعوی کیاہے کہ ان کازبردستی مذہب تبدیل کرایا گیا ہے۔ باقی تین معاملوں میں لڑکیوں نے بتایا کہ ان کا  زبردستی شادی کرائی گی ہے۔ 
اس کے علاوہ ایس آئی ٹی کی قیادت کررہے ڈی سی پی وکاس پانڈے نے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ،‘11 معاملوں میں ہم نے پایا
کہ شادی سے پہلے لڑکیوں کے نام بدلنے کا طریقہ اپنایا کیا ۔ ساتھ ہی ان کی شادی اہم قوانین کے تحت رجسٹرڈ نہیں ہوئی
تھی۔ ‘
اس ایس آئی ٹی کو آئی جی موہت اگروال نے قائم کیا تھا،جب وشو ہندو پریشد،سمیت کچھ دکشن پنتھی ہندو اداروں نے الزام لگایا تھا
کہ مسلم یوا دھرم کے لئے ہندو لڑکیوں کو شادی کرنے کا لالچ دے رہے ہیں۔ انہیں غیر ملکوں سے فنڈ مل رہا ہے اور لڑکیوں سے
انہوں نے اپنی پہچان چھپا رکھی ہے ۔ ان کی جانچ کے لئے پولیس سب انسپکٹر وکاس پانڈے کی رہنمائی میں ستمبر میں 8ممبروں
والی ایس آئی ٹی شکیل دی گئی تھی۔
اس کال کو لے کر اس وقت تنازعہ کھڑا ہوگیا تھا جب کانپور کی شالنی یادو نامی عورت کے ذریعہ ایک مسلم شخص سے شادی کرنے کی بات سامنے آئی تھی۔ ویسے تو یادو نے زبردستی مذہب کی تبدیلی کی بات کو نامنظور کیا تھا اور اس کو لیکر ایک ویڈیو بھی بنائی تھی، لیکن ان کی ماں نے کہا کہ وہ دبائو میں ایسا کہ رہی ہے اور اترپردیش حکومت نےاس معاملے میں جانچ کرنے کا فیصلہ لیا ہے۔
آئی جی نے کہا کہ پولیس کا اہم مقصد یہ ہے کہ کسی بھی لڑکی کو سازش کے تحت نہ پھنسایا جائے۔ اگر وہ سچھی محبت ہے
تو اس میں پولیس اور قانون کی کوئی پریشانی نہیں ہے ۔ اگر لڑکے نے نام غلط بتاکر محبت کی کے جال میں پھنسایا ہے یا لڑکی
نابالغ ہے،توقانون اپنا کام کرے گا۔ اگر لڑکی بالغ ہے اور وہ دوسرے مذہب میں شادی کرنا چاہتی ہے تو ماں باپ کی مداخلت کے
باوجود پولیس قانون کے دائرے میں ان کا ساتھ دتی ہے ۔
اگر کچھ لوجہاد لفظ ہندووادی گروپوں کے ذریعہ تشکیل دیا گیاہے، جس کا مقصد ہندو لڑکیوں کا مسلم سماج میں شادی ہونے سے
روکنا ہے ۔ ایسا کرنے کےپیچھے وہ دلیل دیتے ہیں کہ مسلم نوجوان سازش کے تحت ہندو لڑکیوں سے شادی کر ان کا مذہب تبدیل
کررہے ہیں اور اس کے لئے غیر ممالک سے فنڈنگ بھی ہوتی ہے
ان کا دعوی ہے کہ اس طرح کے مذہب تبدیل کرا کر مسلم،ہندو کو اس ملک میں اقلیت بنانا چاہے رہے ہیں۔
ان حالت میں اترپردیش کےعلاوہ بی جے پی والی ریاست جیسے کرناٹک،ہریانہ اور مدھیہ پردیش کے بھی وزیر اعلی نے بھی
لوجہاد کے خلاف قانون لانے کا اعلان کیاہے ۔
بشکریہ :thewire

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS