فلسطین کی سیاست میں تبدیلی کے آثار

0

فلسطیناتھارٹی کے ’’صدر‘‘محمود عباس جو 86 سال کے ہو چکے ہیں اور اب اپنی وراثت منتقل کرنا چاہتے ہیں ان کے ممکنہ وارث کے طور پر حسین الشیخ کا نام لیا جا رہا ہے مگر انہوں نے کہا ہے کہ اتھارٹی کے صدر کا الیکشن ہونا چاہیے ۔ مغربی کنارے اور غازہ میں ہی فلسطینیوں کو کچھ اختیارات حاصل ہیں ، دونوں علاقوں میں الگ الگ پارٹیوں کا اقتدار ہے، غازہ میں حماس اور مغربی کنارے میں الفتح کا اقتدار ہے، الفتح کے پاس اتھارٹی کی ’قیادت‘ ہے ۔ حسب استطاعت اسرائیل سے لوہا لیتے رہتے ہیں۔ ایسے حالات میں دورہ فلسطینیوں کے آنسو تو نہیں پونچھ پائے گا مگر اسرائیل کو ایک بار پھر جواز فراہم کردے گا۔
ارض فلسطین میں کیا صورت حال ہے یہ کسی سے پوشیدہ نہیں مگر دونوں خطوں جن کے درمیان کوئی زمینی رابطہ یا راہداری نہیں ہے ، دونوں ٹکڑے اپنے اپنے طور پر انسانی حقوق کی بد ترین صورت حال سے دوچار ہیں۔ معربی کنارے میں اسرائیل فلسطین کو لے کر اپنے یہودی مذہب کے لوگوں کو دنیا بھر سے لا لا کر اور ڈھونڈڈھونڈ کر ارض فلسطین میں بسا رہا ہے۔ یوکرین کے روس کے حملہ کے بعد وہاں کے لاکھوں شہری بے گھر ہوئے تو اسرائیل نے یہودیوں کو وہاں سے نکالنے کے لیے خصوصی مہم چلائی اور مغربی کنارے اور دوسرے اسرائیلی علاقوں میں بسا دیا۔ حال ہی میں یتا مسافر نام کی ایک بستی کو اجاڑنے کے لیے اسرائیل حکام نے سب سے بڑی عدالت سے اجازت حاصل کر لی ہے، یتا مسافر کا شمار مغربی کنارے کی قدیم ترین بستی میں ہوتا ہے ۔ جہاں عرب اور بدوؤں کی کئی نسلیں یتا مسافر میں رہتی چلی آ رہی ہیں۔
اسرائیل کی فوج نے اسی علاقوںکو خالی کرانے کے لیے مہم اور مقدمہ لڑا۔ اقوام متحدہ ادارے برائے انسانی حقوق نے عدالت کے اسی فیصلہ کی مذمت کی ہے مگر اسرائیل کو اس کی پروا نہیںہے۔ اس سے بد ترین صورت حال مغربی کنارے کی ہے وہاںکے لوگوں کو اپنے وطن کی کھلی جیل سے نکلنے کے لیے بڑے جتن کرنے پڑتے ہیں۔ مئی 2021 میں اسرائیل نے غازہ کے بنیادی ڈھانچہ پربمباری کر کے تباہ کر دیاتھا اس کارروائی میں ساڑھے تین سو افراد شہید ہوئے تھے۔ ، اسکول ، اسپتال، رہائشی علاقے، پانی سپلائی کرنے والی تنصیبات تباہ کی گئی تھیں تاکہ نقصان کے اثرات زیادہ دیر پا ہوں۔ اسرائیل کی فلسطینیوں کو اجتماعی طور پر سزا دینے کا نتیجہ یہ رہا کہ غازہ کی نئی نسل نفسیاتی بیمار ہوگئی ہے۔ایک معتبر عالمی میڈیا ادارے کے مطابق غازہ میں رہنے والے 84 فیصد بچے خوفزدہ رہتے ہیں اور 80 فیصد بچے اداس، اور 78 فیصد غمزدہ رہتے ہیں۔ خوف کی وجہ سے 59فیصد بچے بات نہیں کرپاتے ہیں، مغربی اور سیکورٹی فوسیز بچوں کو نفسیاتی طور پر کمزور کر نے کے لیے ان پر بندوق تان دیتی ہے اور ڈراتی ہیں۔ حراست میں رکھ کر پریشان کرتی ہیں اور یہاں تک کہ 48 فیصد بچے یکسوئی حاصل نہیں کر پاتے اور ان کی تعلیم وتربیت بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS