یوم عاشورہ کی اہمیت

0

10 ویں محرم کو یوم عاشورہ کہا جاتا ہے۔ اس دن کی بڑی اہمیت ہے۔ یہ وہی دن ہے جب حضرت آدمؑ کی توبہ اللہ تعالیٰ نے قبول کی تھی، اسی دن حضرت نوح ؑ کی کشتی سلامتی کے ساتھ کنارے لگی تھی، اسی دن اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑکے لیے نمرود کی جلائی آگ گلزار بنا دی تھی، یہی وہ دن ہے جب حضرت یعقوبؑ کی بینائی واپس آئی تھی، اسی دن حضرت موسیٰؑ کو فرعون سے نجات ملی تھی اور اسی دن حضرت یونسؑ مچھلی کے پیٹ سے باہر نکلے تھے یعنی 61 ہجری سے پہلے اس دن بڑے بڑے کام ہوئے تھے اور اسی دن قیامت بھی آئے گی مگر حضرت محمدمصطفیؐ کو ماننے والا اور انسانیت میں یقین رکھنے والا کون شخص یہ جانتا تھا کہ اسی دن میدان کربلا قیامت کا منظر پیش کرے گا۔ 10 ویں محرم کو میدان کربلا میں یہ ثابت ہو گیا کہ مسلمان ہونا اور اسلامی احکامات کا جاننا ایک بات ہے جبکہ ان پر عمل کرنا دوسری بات ہے۔ مذہبی شعائر کو آدمی بھلا دیتا ہے تو پھر وہی ہوتا ہے جو کربلا میں ہوا۔ یزیدی فوج یہ جانتی تھی کہ جن کے مدمقابل کھڑے ہیں، وہ کوئی عام لوگ نہیں ہیں، یہ وہ حسینؓ ہیں جن کے ناز آپؐ نے اٹھائے ہیں، یہ نواسۂ رسولؐ کے صاحبزادے حضرت علی اکبر ہیں جو ہم شکل نبیؐ ہیں، یہ حضرت عباس ہیں جو بھائی کی محبت کی ایک بہترین مثال ہیں، یہ نواسیٔ رسولؐ حضرت زینبؓ کے صاحبزادے عون و محمد ہیں۔ اس کے باوجود یزیدی فوج نے تلوار اٹھانے کا جرم کیا، مقدس شخصیتوں کو شہید کرنے کا جرم کیا اور ایک بدترین مثال قائم کر دی۔ یزیدی فوج کے لوگ کلمہ گو تھے مگر کلمے کا مطلب نہ سمجھ سکے۔ اگر سمجھ جاتے تو یہ بھی سمجھ جاتے کہ جیسے مسلمان ہونے کے لیے ’لاالہ الااللہ‘ کے ساتھ ’محمدرسول اللہ‘ پر یقین بھی ضروری ہے اسی طرح محب رسولؐ بننے کے لیے نبیؐ سے محبت کے ساتھ اہل بیت ؓ سے محبت بھی ضروری ہے مگر میدان کربلا میں تو اس نے انسانی فوج ہونے کا بھی ثبوت نہ دیا، ورنہ شیرخوار حضرت علی اصغر کے لیے وہ پانی کا پیالا بھیجتی، حرملہ کے تیر چلانے سے پہلے اس کے ہاتھ کاٹ ڈالتی مگر اس نے ایسا نہیں کیا اور حرملہ، حضرت علی اصغر کو شہید کرنے کا مجرم بن گیا، ایک ایسا مجرم جو آج بھی سفاکی کی ایک بدترین مثال سمجھا جاتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ حضرت علی اصغر کی شہادت واقعۂ کربلا کو ایک الگ قسم کا سانحہ بناتی ہے۔
واقعۂ کربلا انسانی تاریخ کا پہلا واقعہ تھا جب ایک باپ کے ہاتھوں پر بیٹے کو شہید کر دیا گیا مگر اس باپ نے ضبط کا بند ٹوٹنے نہیں دیا، اس کے باوجود جنگ کے اصولوں کو نظرانداز نہیں کیا کہ مدمقابل کا کوئی اصول ہی نہیں۔ دراصل حضرت امام حسینؓ جانتے تھے، وہ نواسۂ رسولؐ ہیں، کسی بھی حال میں ان سے ایسی بھول سرزد نہیں ہونی چاہیے جو ان کی بدنامی کی وجہ بن جائے اور دشمنان اسلام کو ان کے بہانے اسلام کو بدنام کرنے کا موقع ملے، اس لیے انہوں نے سرکٹاکے جنگ جیتنے کا ایک نیا انداز سکھا دیا۔ یہ انداز آج بھی اتنا ہی کارگر ہے جتنا اس وقت تھا، کیونکہ حسینی رنگ اب بھی حق کا ہی رنگ ہے اور اسی لیے یہ بلاتفریق مذہب و ملت ہر اس شخص کو بھاتا ہے جو حق پرست ہے، انصاف پسند ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ حق و انصاف کے تقاضے پورے کیے بغیر انسانیت کے تقاضے پورے نہیں کیے جا سکتے۔ انسانیت کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ حق و انصاف کا بول بالا ہو۔
کربلا میں حق پر قائم رہنے والوں کی تعداد بہت کم تھی مگر اس کم تعداد نے یزیدی لشکر میں کھلبلی مچا دی تھی، اس نے جنگ کے اصولوں کو بھلا دیا اور فدائین حسینؓ میں سے کوئی ایک ساتھی اس کے مقابلے کے لیے جاتا تو وہ سارے کے سارے ایک ساتھ ٹوٹ پڑتے، حد تو تب ہو گئی جب حضرت عون و محمد کی کم عمری کا خیال کیے بغیر وہ ان سے مقابلہ آرا ہوئے۔ آج بھی حق بات کہنے، حق بات پر عمل کرنے والوں کی تعداد کم ہے مگر انہی کم لوگوں کے سہارے دنیا چل رہی ہے۔ روایتوں کے تذکرے سے معلوم ہوتا ہے کہ یزیدی فوج نویں محرم کو ہی حضرت امام حسینؓپر حملہ کرنا چاہتی تھی مگر آپؓ نے ایک دن کی مہلت اس سے لی تاکہ دسویں محرم کی رات عبادت میں گزاریں یعنی اس وقت جنگ کا خوف نہیں، مالک کائنات کی عبادت کا خیال تھا اور اسی لیے میدان کربلا میں بھی حضرت امام حسینؓ کو عبادت سے کوئی روک نہیں سکا۔حسینی ہونے کا تقاضا یہی ہے کہ حسینی کردار کو اپنایا جائے، سجدے کی اہمیت سمجھی جائے اور سجدے کے وقت یہ اطمینان رہے کہ راہ مستقیم پر ہیں، انسانیت کی بقا کے لیے بلا تفریق مذہب و ملت حق و انصاف کے تحفظ کے لیے زندگی بسر ہو رہی ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS