عربوں کے ساتھ دفاعی سمجھوتہ کا شوشہ اور حالیہ حملہ

0

پچھلے دنوں امریکی صدر جوبائیڈن کے دورۂ مغربی ایشیا کے موقع پر بڑے زور و شور سے کہا جا رہا تھا کہ امریکہ اور اسرائیل کسی ایسی تجویز پر غور کر رہے ہیں جس کے ذریعہ اس علاقہ میں دیگر عرب ملکوں کے ساتھ مل کر ایک دفاعی سمجھوتہ کیا جائے گا جس کے تحت عرب ممالک اسرائیل اور امریکہ آپس میں تال میل کریں گے اور کسی ممکنہ خطرے کا متحدہ طریقے سے مقابلہ کریں گے۔ مگر گزشتہ شب غزہ کے رہائشی علاقوںمیں اسرائیل کی سفاکانہ بمباری نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اسرائیل اپنی جبلت کو ترک نہیں کر سکتا ہے۔ گزشتہ روز کے حملے اسرائیل کی اس ذہنیت کی ایک بار پھر عکاسی کرتے ہیں کہ وہ عربوں ،مسلمانوں اور فلسطینیوں کو مار کر اپنا ذہنی اطمینان حاصل کرتا ہے۔ مغربی ایشیا کے کئی ممالک جن کی سرحدیں مقبوضہ فلسطین (اسرائیل) سے ملتی ہیں اسرائیل کے ساتھ سمجھوتہ کر چکی ہیں اور ان کے سفارتی، تجارتی اور اب دفاعی تعلقات بھی صیہونی ریاست سے بن گئے ہیں۔ پچھلے دنوں مبصرین بار بار اس حقیقت کی طرف توجہ دلا رہے تھے کہ اسرائیل کی حکمت عملی میں کوئی بڑی تبدیلی کا امکان نہیں ہے، وہ عربوں اور دیگر پڑوسی ممالک کے ساتھ رفاقت کا کتنا بھی ڈھونگ رچ لے مسلم دشمنی اس کے بنیادی اوصاف میں شامل ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو گزشتہ 70 سال سے اسرائیل کے حکام اور نسل پرست صیہونی حکمراں عربوںکو ان کے مکانوں ، کھیتوں ، اسکولوں ، شفاء خانوں سے بے گھر کر کے اپنے آشیانے تعمیر نہ کرتے۔ اسرائیل میں فی الحال ایک کارگزار سرکار کام کر رہی ہے اور عبوری وزیر اعظم لپیڈ کی بیوی نے اپنے ٹویٹر ہینڈل سے با قاعدہ اس گھر کی تصویر شیئر کی تھی جو کہ کارگزار وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ان کا مسکن ہونے والا تھا۔ یہ وزیر اعظم کا بنگلہ ایک فلسطینی تاجر کو بے گھر کر کے بنایا گیا تھا اور کارگزار وزیر اعظم کی بیوی نے بڑے فخریہ انداز میں یہ تصویر شیئر کی تھی۔ ظاہر ہے اس حرکت کا مقصد فلسطینیوں اور مظلوموں کے زخموں پر نمک چھڑکنا تھا جو گزشتہ 7 دہائیوں سے صیہونی بربریت اور مغربی ممالک کی بے حسی اور خاموش اور ببانگ دہل دی جانے والی حمایت کا شکار ہیں۔
2021 میں جب اسرائیل نے غزہ پر حملہ کیا تھا تو اس وقت امریکہ کے صدارتی انتخابات کے نتائج سامنے آ چکے تھے او موجودہ صدر جوبائیڈن کی حلف برداری کی تیاری کی جارہی تھی اس وقت عالمی برادری کی توجہ امریکی انتخابات پر مرکوز تھی اور حالات کا فائدہ اٹھا کر اسرائیل نے بربریت کا وہ ننگا ناچ کیا جس کی مثال نہیں ملتی۔ تقریباً ایک درجن دنوں تک چلنے والی اس کارروائی میں فلسطینیوں کا جانی مالی نقصان ہوا۔ آج تک حالت یہ ہے کہ تباہ شدہ عمارتوں کو تعمیر نہیں کیا جا سکا ہے۔ حد تو یہ تھی کہ اس کارروائی میں میڈیا کے بڑے ادارے زد یں آئے تھے مگر اس پر عالمی اداروں اور مغربی میڈیا اور سرکاروں نے ایسا ہی رد عمل ظاہر کیا جیسا کہ یہ کوئی معمل کی کارروائی ہو۔ اس وتیرے سے صاف واضح ہوتا ہے کہ فلسطینوں کی جانی مالی نقصان کی کوئی حیثیت نہیں۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS