یو پی الیکشن سے پہلے کانگریس کو جھٹکا

0

301 ارکان پارلیمنٹ کی بھاری تعداد کے ساتھ ہندوستان پر حکومت کررہی بی جے پی میں شاید لیڈروں کا قحط ہے اس لئے ہر انتخابی موسم کے آغاز میں ہی وہ دوسری پارٹیوں کے لیڈروں کو زیر دام لینا شروع کردیتی ہے۔ مغربی بنگال اسمبلی انتخاب سے قبل ترنمول کانگریس کے دو د رجن کے قریب لیڈروں کو اس نے اپنا شکار بنایا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ مغربی بنگال میں بی جے پی کی حکومت سازی کا خواب چکناچور ہوگیا۔اب اگلے سال اترپردیش میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات ہونے ہیں۔اس سے پہلے ہی وہاں بھی بی جے پی نے توڑ جوڑ کی سیاست شروع کردی ہے ۔ کانگریس پر بزن بولتے ہوئے اس کے قدآور لیڈر جیتن پرساد کو اپنی پارٹی میں شامل کرلیا ۔ بی جے پی کی رکنیت لینے کے فوراً بعد جیتن پرساد نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی ہی واحد ایسی پارٹی ہے جو ملک کیلئے کام کرتی ہے باقی تمام سیاسی پارٹیاں فردمخصوص کیلئے یا علاقائی سطح پر کام کرتی ہیں۔جیتن پرساد کا کہنا ہے کہ انہوں نے کافی غور و فکر کے بعد تین نسلوں سے چلے آرہے کانگریس سے اپنے تعلقات کو ترک کیا ہے۔ بی جے پی اور وزیر اعظم نریندر مودی ملک کیلئے ناگزیر حیثیت رکھتے ہیں اور نئے ہندوستان کی تعمیر کیلئے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں ۔بی جے پی کے ساتھ رہ کر انہیں کام کرنے کا موقع ملے گا۔ کانگریس کے ساتھ رہ کر انہوں نے محسوس کیا ہے کہ وہ عوام کے مفادات کا تحفظ نہیں کرسکتے ہیں۔
دوسری پارٹیوں پر بی جے پی کی نقب زنی اپنی جگہ لیکن یہ بھی عجیب بات ہے کہ اپنی پرانی پارٹی چھوڑنے والا ہر سیاست داں یہ رونا روتا ہے کہ اسے وہاں کام کرنے کا موقع نہیں مل رہاتھا ۔ نئی پارٹی میں اسے کام کرنے کاموقع بھی ہے اور آزادی بھی۔ جیوترادتیہ سندھیا نے بھی کانگریس چھوڑتے وقت یہی بات کہی تھی اور بنگال سے ترنمول کانگریس چھوڑ کر بی جے پی کا دامن تھامنے والوں کا بھی یہی شکوہ تھا۔حالانکہ حقیقت بالکل اس کے برعکس ہے۔ جن لیڈروں کو بی جے پی اپنے دامن میں سمیٹتی ہے وہ نہ صرف اپنی پارٹی میں اہم عہدوں پر کام کرتے ہیں بلکہ حکومتوں کا بھی حصہ رہ چکے ہوتے ہیں۔ جیتن پرساد تو کانگریس کی حکمرانی کے زمانے میں مسلسل حکومت میں تھے ۔ 2001سے اپنی سیاسی کیریئر کا آغاز کرنے والے جیتن پرساد پہلے ہی دن یوتھ کانگریس کے سکریٹری بنادیئے گئے تھے، اس کے بعد 2004 میں ممبر پارلیمنٹ اور 2008 میں منموہن سنگھ کی حکومت میں انہیں وزارت اسٹیل میں وزیر مملکت کا عہدہ حاصل ہواتھا ۔ 2009 میں وہ پھر ممبر پارلیمنٹ بنے اور2009 سے 2010 تک وزارت نقل و حمل اور قومی شاہراہ جب کہ2011سے2012 تک وزارت پٹرولیم کی ذمہ داری انہیں دی گئی تھی ۔ 2012 سے 2014تک وزارت فروغ انسانی وسائل میں وزیر مملکت کی حیثیت سے وہ کام کرتے رہے تھے۔ حکومت میں رہ کر انہوں نے کیا کیا یہ ریکارڈ پر ہے۔ اتنے سارے عہدوں اور وزارتوں کا فیض اٹھانے والے جیتن پرساد 2014 کے بعد جب کانگریس اپوزیشن میں آئی تو پارٹی کیلئے کچھ کر نہیں سکے۔ حالانکہ ان کا ستارہ بھی عروج پر تھا ۔ اترپردیش میں کانگریس کی ذمہ داری سنبھالنے والی پرینکا گاندھی کے ساتھ وہ کم و بیش ہر پروگرام میں نظرآتے رہے تھے ۔ راہل گاندھی نے کانگریس کے چار نوجوان لیڈروں کی جو ٹیم بنائی تھی اس میں وہ بھی شامل تھے۔ لیکن انہیں اقتدار سے دوری برداشت نہیں ہوئی اور وہ پارٹی سے ہی برگشتہ ہوکر اور حکمراں بی جے پی سے رابطے استوار کرنے لگے ۔ 2019کے لوک سبھا انتخاب کے وقت ان کی بی جے پی میں شمولیت کی خبریں بھی گشت کرنے لگی تھیں لیکن بوجوہ انہوں نے اپنا قدم پیچھے ہٹالیاتھا ۔حالیہ دنوں ہونے والے مغربی بنگال اسمبلی انتخاب کی ذمہ داری بھی دی گئی لیکن وہ کوئی ’ کارنامہ‘ نہیں دکھا سکے۔ اب ان کا یہ کہنا ہے کہ انہیں کانگریس میں کام کرنے کا موقع نہیں مل ر ہاتھا احسان ناشناسی اور غداری ہی کہی جائے گی ۔
دراصل پارٹی بدلنے والے لیڈروں کا مقصد ’ عوام کیلئے کام کرنا‘ نہیں ‘ مسلسل اقتدار میں رہنا ہی ان کا مقصودحیات ہوتا ہے ۔ایسے لیڈران بی جے پی کیلئے نرم چارہ ہوتے ہیں اور وہ آسانی سے ان کا شکار کرلیتی ہے ۔ بی جے پی کو جیتن پرساد کی شکل میں دو کامیابی ملی ہے۔ پہلے سے ہی کمزور کانگریس کو اس نے زبردست جھٹکا دیا ہے دوسرااتر پردیش اسمبلی الیکشن سے قبل ناراض برہمنوں کو رام کرنے کاہتھیاربھی پالیا ہے ۔ انتخاب سے قبل بی جے پی کو جیتن جیسے لیڈر کی ضرورت تھی ۔یو پی میں14فی صد آبادی والے برہمن ووٹربی جے پی سے ناراض ہیں اور خدشہ ہے کہ وہ بی جے پی کو اس بار انگوٹھادکھادیں ۔بی جے پی کسی بھی حال میںاپنا یہ کور ووٹ بینک کھونا نہیں چاہتی ہے اور نہ یو پی کے برہمنوں میںبی جے پی کا کوئی مقبول لیڈرہے۔جب کہ جیتن پرساد اثر بھی رکھتے ہیں اورکچھ عرصہ سے برہمنوں کے حق میںآوازبھی اٹھاتے رہے ہیں۔ان کی یہ ادا بھی بی جے پی کو پسند آئی اور اس نے کانگریس سے انہیںتوڑ لیا۔ویسے بھی بی جے پی کے301میں کم و بیش 3درجن ارکان کانگریس کے سابق لیڈران ہی ہیں ا وریہ بی جے پی میں لیڈروں کی کمی کا مظہر ہے ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS