مضمون نگاری کے شرعی حدود

0

امام علی مقصود فلاحی
مسلمان بھی کسی وقت ایک زندہ قوم تھی، دین و دنیا کی ساری ترقیات سے سرفراز تھی، یہ قوم جہاں بھی نکلتی تھی اپنا ایک نشاں چھوڑ آتی تھی، قرآن کریم کی آیت کریمہ “بیشک نیکیاں برائیوں کو ختم کر دیتی ہیں” کی عملی تفسیر تھی، لیکن آج ہمارے اعمال سے اسلام کا جغرافیہ ایسا بدلا کہ شناخت مشکل ہوگئی، مسلمانوں کی دینی و دنیوی زندگی کا جو نقشہ آج ہمارے سامنے ہے وہ بالکل ماضی کی نقیض ہے۔ قارئین! نقصان کے کاموں سے نقصان پہنچتا ہے، برے عمل سے برے نتائج کا ظاہر ہونا ایک فطری چیز ہے۔
لیکن افسوس یہ ہے کہ آج کم بخت مسلمان اگر بھولے سے بھی کو نفع بخش کام کرتا ہے تو اس میں گھاٹے کے سوا کچھ نہیں پاتا، اور اگر کبھی ایک نیک کام بھی کر لیتا ہے تو گناہ کیے بغیر چین نہیں آتا۔ آج کوئی نیک سے نیک اور ضروری سے ضروری کام ایسا نہیں ھے جس کو ہماری بے پروائیوں نے بجائے ثواب کے عذاب نہ بنا دیا ہو، آج اخبارات و جرائد اور اکثر مذہبی ادارے بھی اس غفلت شعاری کے بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔ جبکہ اخبار و جرائد ایک ایسے ذرائع ہیں جسکے ذریعے ہم سنت نبوی پر عمل پیرا ہو سکتے ہیں، کیوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ سنت کہ جب بھی کوئی صحابی تین روز تک نظر نہ آتا تھا تو حضور اپنے دوسرے صحابہ سے دریافت کرتے کہ فلاں کہاں ہے، پھر اگر وہ سفر میں رہتے تو انکے لئے دعا فرماتے، اگر وہ حاضر ہوتے تو ان سے ملاقات کے لیے جاتے، اور اگر وہ بیمار ہوتے تو انکی عیادت کرنے جاتے۔ (کنزالعمال)۔ یہ حدیث خبروں کی تفتیش اور حالات کے اطلاع پر پورے اہتمام کا اعلان کر رہی ہے، اور آج کل امت مسلمہ کے حالات پر اطلاع کا ذریعہ اخبار ہے۔ یہی وہ ذریعہ ہے جسکے ذریعے مسلمانوں کی شکایات و مظالم کو حکومت تک بآسانی پہنچایا جا سکتا ہے۔ مسلمانوں کے حقوق کا مطالبہ بآسانی کیا اسکے ذریعے کیا جاسکتا ہے۔ تبلیغی ضرورتیں اسکے ذریعے بخوبی ادا کی ہو سکتی ہے۔ الغرض اخبارات و جرائد کا وجود اپنے رنگ و روپ میں اور دنیاوی اصول کے مطابق ہو تو بہت سے عظیم الشان فوائد کا مجموعہ بلکہ قومی و اجتماعی زندگی کا رکن اعظم ہے۔
حضور سرور کائنات اور صحابہ اپنے اسلامی برادری کے اخبار و احوال پر مطلع ہونے اور کرنے کا اہتمام اس لئے فرمایا کرتے تھے تاکہ مطلع ہوکر مظلوم کی داد رسی، بیمار کی عیادت، ضعفاء کی اعانت، اور محتاجوں کی امداد کرنے کے لئے ہر قسم کی مادی و روحانی ذرائع استعمال کیے جائیں، اور اگر کسی مادی امداد پر قدرت نہ ہو تو کم از کم دعا سے اسکا شریک غم بن جائیں۔
لیکن آج اخبارات و حالات اس لئے بہم پہنچائے جاتے ہیں، کہ اگر کسی کا ایک عیب معلوم ہو تو اسکو دس گنا کر کے شائع کیا جائے۔ جبکہ قرآن کہتا ہے کہ کسی کو اسکا حق نہیں کہ وہ دوسروں کا استہزاء و تمسخر کرے۔ اسکے علاوہ فرمان رسول بھی ہے کہ مسلمانوں کی عزت و آبرو کی رعایت و حفاظت ہر مسلمان پر حاضر و غائب میں ایسی ہی فرض ہے جیسے اسکے جان‌ و مال کی حفاظت۔ لیکن آج تمام ارباب قلم و اصحاب صحافت نے اپنے آپ کو ان تمام قوانین شرعیہ سے استثنیٰ سمجھ لیا ہے، اور کبھی دھیان تک نہیں ہوتا کہ ہم گناہ کر رہے ہیں یا نہیں۔ اس لئے اس بات کا جاننا از حد ضروری ہے کہ کسی بات کا قلم سے لکھنا بعینہٖ وہی حکم رکھتا ہے جو زبان سے کہنے کا ہے، اور جس کلام کا زبان سے کہنا ثواب ہے اسکا لکھنا بھی ثواب ہے، اور جسکا بولنا گناہ ہے اسکا لکھنا بھی گناہ ہے، بلکہ لکھنے کی صورت میں گناہ و ثواب کی ایک زیادتی ہو جاتی ہے، کیونکہ تحریر ایک قائم رہنے والی چیز ہے، مدتوں تک لوگوں کی نظر سے گذرتی رہتی ہے، اور جب تک وہ تحریر دنیا میں موجود رہے گی، لوگوں کی نظروں سے گذرتی رہے گی، اور لوگو اس سے متاثر ہوتے رہیں گے، اور لوگ جب تک اس سے متاثر ہوتے رہیں گے تب تک کاتب کو ثواب یا عذاب ملتا رہے گا۔ اس لئے ہر مضمون نگار کا فرض ہے کہ مضمون لکھنے سے پہلے اس بات کا خیال رکھے کہ جس چیز کو وہ لکھ رہا ہے وہ اسکے لئے لئے جائز ہے یا نہیں۔ اگر جائز ہو تو قلم کلامی کرے ورنہ محض لوگوں کو خوش کرنے کے لئے گناہوں کے دلدل میں اپنا ہاتھ نہ رنگے، اور اگر خود وہ احکام شرعیہ میں ماہر نہ ہو تو کسی ماہر شخصیت سے رجوع کرے۔

(٢)جو واقعہ کسی شخص کی مذمت پر مشتمل ہو اسکو اس وقت تک ہر گز شائع نہ کرے جب تک کہ حجت شرعیہ سے اسکا ثبوت نہ مل جائے، کیوں کہ جھوٹا الزام لگانا کسی کافر پر بھی جائز نہیں ہے، چہ جاے کہ کسی مسلمان پر چہ می گویا کی جاے۔
لیکن آج اہل قلم اس سے غافل ہیں اور اخبار کا کو صفحہ شاید ہی اس سے خالی ہوتا ہے۔ (٣) یہ بات یاد رکھیں کہ اس معاملے میں حجت شرعیہ کے لئے صرف افواہ کا عام ہونا یا کسی اخبار کا شائع کردینا ہی کافی نہیں ہے بلکہ شہادت شرعیہ ضروری ہے۔
کیونکہ دور حاضر کے تمام اخبارات کے تجربات نے اس بات کو ناقابل انکار کردیا ہے کہ ایسے بہت مضامین و مقالات اخبار میں شائع ہوتے ہیں، جسکی اور جس شخص کی طرف سے شائع کیے جاتے ہیں اس غریب کو خبر تک نہیں ہوتی، اور یہ صورت کبھی قصداً کی جاتی ہے تو کبھی سہواً کی جاتی ہے، اس لئے اگر کسی اخبار میں کسی شخص کے حوالے سے کوئی واقعہ یا مضمون شائع ہوا ہے تو شرعاً اسکو ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ (٣) کسی شخص کے عیب یا گناہ کا واقعہ اگر حجت شرعیہ سے بھی ثابت ہو جائے تب بھی اخبار میں اسکی اشاعت صحیح نہیں ہے بلکہ اسلامی فریضہ یہ ہے کہ خیر خواہی سے اسکو تنہائی میں سمجھایا جائے، جیساکہ فرمان رسول ہے کہ اگر اپنے مسلمان بھائی کا کوئی عیب ثابت ہو جائے تو اسکو رسوا نہ کرے بلکہ پردہ پوشی سے کام لے۔ حضرت عقبہ بن عامر کے ایک محرر نے ایک روز ان سے بیان کیا کہ ہمارے بعض پڑوسی شراب پیتے ہیں، میرا من کرتا ہے کہ محکمہ احتساب میں انکی اطلاع کردوں، حضرت عقبہ نے فرمایا ایسا مت کرو بلکہ انہیں سمجھا دو، محرر نے عرض کیا کہ میں سب کچھ کر چکا ہوں، وہ باز نہیں آتے اس لئے میں اب پولیس میں اسکی اطلاع کرنا چاہتا ہوں، حضرت عقبہ نے فرمایا ایسا مت کرو کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا ہے کہ جو شخص کسی کا عیب چھپاتا ہے وہ اتنا ثواب پاتا ہے جیسے کوئی زندہ در گور کی ہوئی لڑکی کو دوبارہ زندہ کردے، (الترغیب والترہیب). الغرض اگر کسی مسلمان کوئی عیب یا گناہ ثابت ہوجائے تب بھی پردہ پوشی سے کام لے، اور خفیہ اسکو سمجھاے۔ (٤) البتہ اگر کسی مسلمان سے ایسا عیب یا گناہ حجت شرعیہ سے ثابت ہو جائے جسکا نقصان اپنی ذات کو پہنچتا ہے اور وہ اس سے مظلوم ٹھہرتا ہے تو پھر اسکی برائی کو اعلانیہ شائع کرسکتاہے، کیوں کہ فرمان باری ہے: “اللہ تعالیٰ برائی کے اعلان کو پسند نہیں کرتا مگر جس پر ظلم کیا گیا ہو”.

(٥) بے تحقیق باتوں کی اشاعت سے گریز کرنا ہے کیوں وہ ایک گناہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو آدمی کوئی ایسی بات بیان کرے جسکے بارے میں وہ جانتا ہے کہ وہ خبر جھوٹی ہے تو وہ خود جھوٹوں میں سے ہے۔
یہی وجہ ہے کہ قرآن میں اللہ فرماتا ہے کہ جس بات کا تم کو یقینی علم نہ ہوجائے اسکو اٹل نہ سمجھو کیونکہ قیامت کے دن آنکھ کان اور دل سے پوچھ ہوگی۔ (سورہ بنی اسرائیل) ۔ (٦) شریر لوگوں کی خبروں پر یقین بالکل نہ کریں، نہ ہی اسکی تحقیق کیے بغیر اخبار کے کسی صفحہ پر اسے جگہ دیں، کیونکہ قرآن کہتا ہے: اے ایمان والوں! اگر کوئی شریر آدمی تمہارے پاس کوئی خبر لاے تو اسکی تحقیق کر لیا کرو، تاکہ کبھی کسی قوم کو نادانی سے کوئی ضرر نہ پہنچادو، پھر اپنے کیے پر پچھتانا پڑے۔

متعلم: جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن۔
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS