مفتی محمد محبوب شریف نظامی، تلنگانہ
امام عالی مقام حضرت حسین ؓ نے میدانِ کربلا میں 10؍ محرم پر بروز جمعہ 61ھ کو آیت ابتلاء ’’اورہم تمہیں لازماآزمائیں گے کسی قدر…‘‘ (البقرۃ : 155) کی عملی تفسیر پیش کی اس کی وجہ کیا تھی۔ کیا مسجدیں بند کردی گئی تھیں اور کیا حج و زکوۃ پر پابندی لگادی گئی تھی‘ اورکیا آج کی معروف اصطلاح میں ’’مسلم پرسنل لاء ‘‘ ختم کردیا گیا تھا جس کے لئے امام نے اتنی بڑی قربانی پیش فرمائی۔ ایسی کوئی بات نہیں تھی، الحمدللہ مسجدیں آباد تھیں ہم سے کہیں بہتر نمازی تھے ۔ کیا اسلام کے نظام عبادت،معاشرت و معیشت میں فرق آیا تھا، پھر کیابات تھی کہ آزمائشوں سے دوچار ہوئے، وطن چھوڑا، بھوک پیاس کی سختی کو برداشت کیا، اپنے خانوادہ اور ساتھیوں کی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ وجہ صرف یہ تھی کہ اسلام جو ایک مکمل نظامِ حیات ہے، جس کا ایک نظام سیاست بھی ہے، اس میں تبدیلی کو آپ جیسی ہستی کیسے برداشت کرسکتی تھی۔ اس نظام کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ یہ حاکمیت تشریعی کو بھی اللہ تعالیٰ ہی کے لئے مانتا ہے، ارشادِ خداوندی ہے کہ ’’ حکم اور حاکمیت کا حق صرف اللہ ہی کو ہے‘‘(یوسف :40)۔ دوسری خصوصیت خلیفہ کے انتخاب میں چار باتوں کو ملحوظ رکھنا ہے، علم کتاب وسنت، تقوی، انتظامی صلاحیت، بلا ضرورت شدیدہ منصب کی خواہش نہ رکھنا۔ تیسری خصوصیت طریقہ انتخاب کا درست ہونا ہے، خلفائے راشدین ؓ کی سیرت سے تین طریقے ملتے ہیں ۔جمہوری طریقے جیسے (1) حضرت صدیق ؓ اور حضرت علی ؓ کا انتخاب (2) ایسے شخص کی نامزدگی جس پر امت کا اتفاق ہو، جیسے حضرت صدیقؓ نے حضرت عمرؓ کو خلافت کے لئے نامزد کیا (3) شوری کا انتخاب جیسے حضرت عثمان ؓ کو6؍رکنی شوری نے منتخب کیا جو سب کے سب صاحب الرائے اورمعاملہ فہم تھے ۔
چوتھی خصوصیت عوام کو آزادی رائے کا اختیار حاصل رہنا جیسے حضرت عمر ؓ کے کرتے کی لمبائی پر ایک شخص نے ٹوکا اس کی وضاحت کرتے ہوئے آپ نے فرمایا لوگ غلطی پر نہ ٹوکیں تو ان میں خیر نہیں اور اگر امیر ان کی بات کو نہ سنے اس میں کوئی خیر نہیں ۔ پانچویں خصوصیت امیر کا اہم معاملات میں صاحب الرائے لوگوں سے مشورہ کرنا’’اور ان کا کام آپس میں مشورہ سے ہوتا ہے ‘‘(شوری :38) ۔چھٹی خصوصیت بیت المال کا عوامی ملک ہونا ۔ اس میں حاکم وقت کو بھی تصرف کا اسی قدر اختیار ہوجو مقتدرشوریٰ طے کرے ۔
مذکورہ بالا اُمور میں غور کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ یزید کے منصب امارت پر آتے ہی اسلامی خلافت’’ علی منہاج النبوۃ‘‘ باقی نہیں رہی۔ پہلی خرابی امارت کے لئے بیٹا یزید نامزد ہوا، دوسری خرابی علم نبوت اور تقویٰ کا نہ ہونا، تیسری خرابی آزادی رائے کا باقی نہ رہنا، چوتھی خرابی امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا معطل ہوجانا، پانچویں خرابی بیعت سے اقتدار حاصل کرنے کے بجائے اقتدار سے بیعت حاصل کی جانے لگی، چھٹی خرابی فیصلے شوری ہونے کے بجائے امیر کی مرضی کے مطابق ہونے لگے، ساتویں خرابی بیت المال کا امیر کی ملکیت بن جانا ،یہی وہ بنیادی خرابیاں تھی جن کو دیکھ کر امام عالی مقام حضرت حسین ؓ نے اندازہ لگایا کہ اب یہ گاڑی راہِ حق سے ہٹ کر گمراہی کے راستہ پر پڑی ہے۔ ایسے میں اس کو صحیح سمیت نہ بتائی جائے تو اندیشہ ہے کہ جنت کی راہ سے دور اور راہِ دوزخ سے ملت قریب ہوجائے گی۔ ان برائیوں کا اگر میں سدباب نہ کروں تو کون کرے گا؟ چاہے اس راہ میں مجھے اور میرے خانوادہ کو کتنی ہی آزمائشوں سے دوچار ہونا پڑے ۔ qq