چین کی طالبان دوستی کے راز: صبیح احمد

0

صبیح احمد
جب 15 اگست 2021 کو طالبان نے افغانستان میں اقتدار پر دوبارہ قبضہ کیا تو بیشتر ممالک نے کابل میں اپنے سفارتی مشن بند کر دیے اور اپنے شہریوں کو افغانستان سے نکالنا شروع کر دیا۔ لیکن 4 قابل ذکر مستثنیات تھے- چین، پاکستان، روس اور ایران، جنہوں نے اپنی موجودگی برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا۔ چین ان اولین ممالک میں شامل تھا جنہوں نے طالبان کی حکومت کے ساتھ سفارتی رابطے کو فروغ دیا اور اعلان کیا کہ وہ اس حکومت کے ساتھ ’دوستانہ اور تعاون پر مبنی‘تعلقات کے لیے تیار ہے۔ حالانکہ اس فوری فیصلے کی بنیاد بہت پہلے ہی رکھی گئی تھی۔ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد چین پہلا ملک تھا جس نے افغانستان کے لیے ہنگامی انسانی امداد ($31 ملین مالیت) کا وعدہ کیا۔ انسانی بحران اور معاشی خستہ حالی کی شکار طالبان حکومت نے بیجنگ کی جانب سے بر وقت خوراک اور طبی سامان کی فوری ترسیل کا خیر مقدم کیااور اس سے دونوں کے درمیان سیاسی اور اقتصادی تعلقات میں مضبوطی کی راہیں ہموار ہوتی چلی گئیں۔ بیجنگ نے 31 مارچ 2022 کو چین کے تونگژی شہر میں منعقدہ افغانستان کے پڑوسی ممالک کے وزرائے خارجہ سطح کی تیسری میٹنگ میںشرکت کے لیے طالبان کو اپنا نمائندہ بھیجنے کی دعوت دی اور پہلی بار چین، ایران، پاکستان، روس، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کے اس اجتماع میں طالبان کے کسی عہدیدار نے شرکت کی۔
حالانکہ افغانستان اور چین کے تعلقات تاریخی اعتبار سے زیادہ تر دوستانہ رہے ہیں۔ ان دونوں خطوں کے درمیان منافع بخش شاہراہ ریشم کے ذریعہ تجارتی تعلقات کم از کم ہان خاندان کے دور میں ہی قائم ہو گئے تھے۔ فی الحال دونوں ہی ممالک کے بالترتیب بیجنگ اور کابل میں سفارت خانے موجود ہیں اور دونوں ایک تنگ بین الاقوامی سرحد کا اشتراک کرتے ہیں۔ جدید افغانستان کے قیام (1709) کے بعد سے تعلقات مختلف وقتوں میں کبھی مثبت اور کبھی کشیدہ رہے، لیکن حالیہ تاریخ میں 20 ویں صدی کے بیشتر حصے میں زیادہ دوستانہ رہے ہیں۔ چین نے سرد جنگ کے ابتدائی دور میں افغانستان کی ترقی کے لیے اقتصادی امداد اور کروڑوں ڈالر کے قرضے فراہم کیے۔ یہ دوستی چین اور سوویت روس کے درمیان تلخی اور افغانستان پر سوویت حملے (1979) کے بعد اس وقت مختصر مدت کے لیے منقطع ہوگئی، جب یو ایس ایس آر نے افغانستان میں سوویت نواز اور چین مخالف حکومتیں قائم کیں۔ حالانکہ سوویت افواج کے انخلا اور سوویت کے زوال اور اس کے بعد روس-چین تعلقات میں بہتری کے بعد سے چین-افغان تعلقات میں بھی 21ویں صدی میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ امریکی حملے سے افغانستان میں شروع ہونے والی جنگ کے آغاز کے بعد سے چین کی سیاسی شمولیت ابتدائی طور پر کچھ حد تک محدود رہی لیکن اس کے باوجود افغانستان کے سب سے بڑے تجارتی شراکت دار کے طور پر چین کے ساتھ تجارتی تعلقات جاری رہے۔
چین اور اس وقت کی افغان مملکت کے درمیان 1950 میں سفارتی تعلقات کے قیام کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات زیادہ تر اقتصادی میدان تک ہی محدود رہے۔ بیجنگ نے افغانستان میں سیاسی اور سکیورٹی کے معاملات سے دوری بنائے رکھنے کو ترجیح دی اور کابل میں کمیونسٹ اور طالبان حکومتوں کے دوران سرکاری طور پر غیر فعال رہا۔ مجموعی طور پر 2001 تک کابل اور بیجنگ کے درمیان سیاسی اور اقتصادی تعاون انتہائی کم رہا۔ نائن الیون کے بعد جب افغانستان نے دوبارہ دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی تو چین نے وہاں رونما ہونے والے ڈرامائی واقعات کا محض تماشائی بننے کو ترجیح دی۔ ایک عبوری حکومت کے قیام کے بعد ہی دوطرفہ تعلقات میں کچھ تیزی آنے لگی۔ حالانکہ حالیہ برسوں میں افغانستان میں چین کے کردار میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ افغانستان میں چین کی سست روی کی پالیسی کو کئی عوامل نے متاثر کیا۔ تاریخی طور پر چین نے افغانستان کو ایک معمولی سفارتی اہمیت کا پڑوسی سمجھا۔ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر امریکہ اور اس کے یوروپی اتحادی بڑے پیمانے پر افغانستان میں داخل ہوئے اور افغانستان کے معاملوں پر کافی اثر ڈالا۔ چین نے امریکہ کے زیر قیادت جنگی کوششوں میں شامل ہونے کے لیے کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی اور وہ افغانستان میں فوجی کوششوں، سیاسی مفاہمت اور اقتصادی تعمیر نو سے دور رہا، کیونکہ وہ مغرب کے تسلط میں کوئی ماتحتی کردار ادا کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا تھا۔ مغربی فوجیوں کے انخلا اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سیکورٹی بحران نے واضح طور پر ایک نئی صورتحال پیدا کر دی۔
افغانستان میں 2دہائی بعد طالبان کے اقتدار میں آنے سے اگر کوئی خوش ہے تو وہ چین ہے۔ چین کے علاوہ روس اور پاکستان ایسے ممالک ہیں جو افغانستان میں طالبان کی نئی حکومت کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔ تینوں ممالک نے کابل میں اپنے سفارت خانے کھول لیے ہیں جبکہ ہندوستان سمیت بیشتر ممالک کے سفارت خا نے اپنے بوریا بستر سمیٹ چکے ہیں۔ اب افغانستان کی صورتحال یہ ہے کہ امریکہ وہاں سے نکل چکا ہے۔ روس کو افغانستان میں زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔ ان کی دلچسپی صرف وسطی ایشیا میں دہشت گردانہ سرگرمیوں کو روکنے میں ہے۔ پاکستان تووہی کرے گا جو چین چاہے گا۔ یعنی افغانستان میں طالبان کی حکمرانی کا سب سے زیادہ فائدہ چین ہی اٹھانے والا ہے۔ درحقیقت، بات صرف خطہ پر غلبہ یا اثر و رسوخ بڑھانے کی نہیں ہے۔ افغانستان میں 3 ٹریلین ڈالر (تقریباً 200 لاکھ کروڑ روپے) کی معدنی دولت ہے جس پر دنیا کی فیکٹری کے طور پر خود کو منوانے والے چین کی نظر ہے۔ تو کیا چین اس معدنی دولت کی وجہ سے طالبان کی حمایت کر رہا ہے؟ کیا ایسی اور وجوہات ہیں جو چین کو طالبان سے دوستی کرنے پر مجبور کرتی ہیں؟ آخر طالبان سے دوستی کے پیچھے چین کا ایجنڈا کیا ہے؟
اپنی سکیورٹی ضروریات کے مد نظر چین نے امریکی انخلا کے بعد ہی یہ بات واضح کر دی تھی کہ وہ طالبان کے ساتھ دوستی چاہتا ہے تاکہ وہ شنجیانگ صوبہ میں دہشت گرد گروپوں کی سرگرمیوں پر قابو پا سکے۔ سابق چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے اسی وقت یہ واضح کر دیا تھا کہ طالبان کو ای ٹی آئی ایم سے تمام تعلقات منقطع کرنے ہوں گے۔ دراصل ترکستان اسلامک موومنٹ (ٹی آئی ایم) کو ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ (ای ٹی آئی ایم) بھی کہا جاتا ہے۔ یہ مغربی چین میں ایک اویغور اسلامی تنظیم ہے، جو مشرقی ترکستان کے طور پر چین کے شنجیانگ کی آزادی کا مطالبہ کرتی ہے۔ 2002 سے ای ٹی آئی ایم کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی القاعدہ پابندیوں کی کمیٹی نے ایک دہشت گرد تنظیم کے طور پر درج کیا ہے، لیکن 2020 میں امریکہ نے اس تنظیم کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے نکال دیا ہے جس کی وجہ سے دونوں ملکوں میں تجارتی جنگ نے الگ رخ اختیار کرلیا ہے۔ اس کے علاوہ تجارتی فائدے کے اعتبار سے چین کا سب سے اہم نشانہ افغانستان کے نایاب لیتھیم پر ہے جس کے کئی معدنی ذخائر وہاں موجود ہیں۔ امریکہ کا دعویٰ ہے کہ وہاں 3 ٹریلین ڈالر مالیت کے معدنی ذخائر دفن ہیں۔ یہ تخمینہ 2010 کا ہے۔ آج اس کی قیمت بہت زیادہ ہو سکتی ہے۔ افغانستان میںملنے والے لیتھیم-آئن بیٹریوں میں استعمال ہونے والے لیتھیم کے دنیا کے سب سے بڑے ذخائر ہوسکتے ہیں۔ یہ نہ صرف بیٹریوں میں بلکہ الیکٹرک گاڑیوں کے ساتھ ساتھ قابل تجدید توانائی کی صنعت میں بھی بڑے پیمانے پر استعمال ہو رہی ہے۔سیاسی طور پر بھی یہ خطہ چین کے لیے کافی اہمیت کا حامل ہے۔ جب پشاور سے کابل سڑک سے جڑ جائے گا تو چین کے اسٹرٹیجک بیلٹ اینڈ روڈ انیشیئٹو (بی آر آئی) کا دائرہ کافی وسیع ہو جائے گا۔ اگر یہ سڑک بنتی ہے تو اس سے چینی سامان کو مشرق وسطیٰ تک پہنچانے میں مدد ملے گی۔ اگر کابل کے راستے نیا روٹ بنایا جاتا ہے تو بی آر آئی سے جڑنے کے لیے ہندوستان پر انحصار کسی حد تک کم ہو جائے گا۔ چین کی دیرینہ خواہش اور مسلسل درخواستوں کے باوجود ہندوستان اب تک ’بی آر آئی‘ میں شامل ہونے سے انکار کرتا رہا ہے اور مستقبل قریب میں اس بات کے لیے ہندوستان کی رضامندی کا کوئی امکان بھی نظر نہیں آتا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS