ہجومی تشدد: قدغن کیلئے سخت کارروائی ضروری: ایم اے کنول جعفری

0

ایم اے کنول جعفری
17جولائی 2018کوعدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس دیپک مشرا، جسٹس اے ایم کھانولکر اور جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ پر مشتمل سہ رُخی بنچ نے گئو رکشا کے نام پر کسی شہری کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دینے کا فیصلہ سناتے ہوئے مرکزی حکومت کو تشددآمیز واقعات پر قدغن لگانے کے لیے علیحدہ قانون بنانے کی ہدایت دی تھی۔دوسری جانب فیصلے کے تین روز بعد ہی20جولائی 2018 کو راجستھان میں خودساختہ گئو رکشکوں کے ذریعہ ہجومی تشدد کی تازہ واردات کو انجام دے کر اپنی ہٹھ دھرمی کا ثبوت دیا گیا۔ ضلع الورکے گاؤں لالاونڈی میں گائے اسمگلنگ کے شبہ میں کولگاؤں کے رکبر عرف اکبر اور اسلم کی ہجومی تشدد میں رکبر کی موت ہو گئی تھی۔ 25مئی2023کو اے ڈی جے نمبر1 کی خصوصی عدالت کے جج سنیل کمار گوئل نے چار ملزمان پرم جیت،نریش،وجے اور دھرمیندر کو7-7سال کی قید اور 10-10ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی۔جرمانہ ادا نہیں کرنے پر ایک ماہ کی اضافی سزا ہوگی، جبکہ وشو ہندو پریشد کے رہنما نول کشور کو ثبوت کی کمی کی بنا پر بری کردیاگیا۔ وی ایچ پی رہنما کو بری کرنے پر متوفی کے اہل خانہ نے ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔
2014میں مرکز میں بی جے پی کی قیادت والی این ڈی اے کی حکومت قائم ہونے کے بعد ہندو یووا واہنی، گئورکشا سمیتی، بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد جیسی زعفرانی تنظیموں کے فعال ہونے سے ہجومی تشدد کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ 28ستمبر2015کو اتر پردیش کے ضلع گوتم بدھ نگر کی تحصیل دادری کے تھانہ کوتوالی جارچہ کے گائوں بساہڑا میں گائے ذبح کرنے کی افواہ کے بعدمشتعل بھیڑ نے گھر پر حملہ کرتے ہوئے محمد اخلاق(50)کو پیٹ پیٹ کر قتل اور اُس کے بیٹے محمد دانش(22) کو شدید طورپر زخمی کر دیا تھا۔ اس سے قبل مئی 2015 میں مہاراشٹر میں ضلع ناگپور کے برلوکا گاؤں کے عبدالغفار قریشی کوگوشت کی دُکان کرنے سے باز نہیں آنے پر قتل کیا گیا تھا۔ اگست 2015 میں یوپی میں دادری کے انعف،عارف اور ناظم کو مویشی چوری کرنے کے الزام میں پیٹ پیٹ کر مارڈالا گیا۔اکتوبر 2015میں ٹرک میں بیف لے جانے کے شبہ میں ٹرک کے اوپر گیسولین بم پھینکنے سے زخمی ڈرائیور زاہد کی موت ہوگئی۔ اکتوبر2015میں سہارنپور کے نعمان(22) کو گائے اسمگلنگ اور مارچ 2016 میں محمد مظلوم انصاری (35) اور ان کے 15 سالہ بیٹے کو گائے چوری کے الزام میں جان سے ماردیاگیا تھا۔جولائی 2016 میںگجرات میں گئو رکشکوں کے ذریعہ مرے جانوروں کی کھال اُتارنے والے4 دلتوں کو سرعام ننگا کرپیٹنے کی واردات سامنے آئی تھی۔ اپریل2017میں الور(راجستھان) کے پہلو خان کی گائے اسمگلنگ کے شبہ میں بے رحمی سے پٹائی کرنے سے موت ہوگئی تھی۔اپریل میں ہی ایک دیگر واردات میں نو سالہ بچے سمیت پانچ افراد کے کنبے کو گائے ذبح کرنے کے الزام میں مارا پیٹا گیا۔ اپریل 2017میں تین مسلم نوجوانوں کو ٹرک میں مویشی لے جانے کی پاداش میں گئو رکشکوں نے زدووکوب کیا۔ مئی 2017میں گائے چوری کے الزام میں آسام کے ابو حلیفہ اور ایازالدین کو کھلے عام مارا پیٹا گیا۔ جون 2017 میں ہریانہ کے فریدآباد میں 15-20 لوگوں نے بیف لے جانے کے الزام میں محمد جنید (19) کو چلتی ٹرین میں پیٹ پیٹ کر مار ڈالا،جبکہ اس کے کئی دیگر ساتھی شدید طور زخمی ہوئے تھے۔ جون2017میں مغربی بنگال کے ضلع دیناج پور میںنصیرالحسن،محمد سمیرالدین اور محمد ناصرکوگھر میں چوری کی گائے بندکرنے کے الزام اورجھار کھنڈ کے اصغر انصاری کو کارسے بیف لے جانے کے شک میں بھگوا ٹولے نے پیٹ پیٹ کر قتل کردیا تھا۔ جولائی 2017میں عثمان انصاری کے گھر کے پاس مری ہوئی گائے پڑی ہونے سے ناراض گئو رکشکوں نے اُس کے ساتھ مارپیٹ کی۔مرکزی حکومت کے علاوہ صوبائی سرکاریں عدالت عظمیٰ کے حکم و ہدایات پر کتنا عمل پیرا ہیں،اس کا اندازہ اسی سے ہوجاتا ہے کہ 22 ستمبر 2017 کے فیصلے کے بعد بھی ہجومی تشدد کے معاملات برابرسامنے آ رہے ہیں۔ نومبر 2017 میں عمار محمد کو گئو رکشکوں نے گائے لے جانے کے شبہ میں گولی مار کر ہلاک کردیا،توکرناٹک کے گوگل انجینئر محمد اعظم کو بچہ چوری کے بے بنیاد الزام میں لوگوں کی بھیڑ نے پیٹ پیٹ کر مار ڈالا۔ خاطیوں کے خلاف مثبت کارروائی نہیں ہونے سے گئو رکشا کے نام پر2015 سے شروع ہجومی تشدد کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔
2016میں سماجی کارکن تحسین پونہ والا،مائیکل سیکوان اور موہن بھائی اور 2017 میں مہاتما گاندھی کے پرپوتے تشار گاندھی و دیگر افرادکی جانب سے ہجومی تشدد پر قدغن کے لیے پٹیشن داخل کی گئی۔ چیف جسٹس دیپک مشرا، جسٹس اے ایم کھانولکر اور جسٹس دھننجے وائی چندرچوڑ کی سہ رکنی بنچ نے ٹاسک فورس کی تشکیل کے ساتھ ہرضلع میں نوڈل افسر کی تعیناتی کرنے، گائے تحفظ کے نام پر قانون شکنی روکنے، ماب لنچنگ کے علاقوں کی نشاندہی کرنے، ہجومی تشدد کے خلاف تشہیر کرنے،ایسے معاملات میں آئی پی سی کی دفعہ153(1)کے تحت کیس درج کرنے، ہجومی تشدد کے متاثرین کو معاوضہ دینے، زخمیوں کی چوٹ کے مطابق رقم طے کرنے، فاسٹ ٹریک کورٹ میں کیس چلنے، ٹرائل کورٹ سے زیادہ سے زیادہ سزا دلانے، متاثر افراد کے وکیل کا خرچ حکومت کے ذریعہ برداشت کرنے جیسی ہدایات دی گئیں۔
محمد اخلاق کے قتل کے بعد برسراقتدار حکومت کے کسی بڑے رہنما یا وزیر کے ذریعہ بروقت سخت الفاظ میں مذمت نہیںکرنے سے بھی قانون شکن افراد کے حوصلے بڑھے ہیں۔گئو رکشکوں کا وزیراعظم کی ماب لنچنگ سے باز رہنے کی اپیل کو درکنار کرنا سمجھ سے باہرہے۔ جولائی 2018 کے شروعاتی دنوں میںمرکزی وزیر جینت سنہا اس وقت تنازع میں آگئے،جب جھارکھنڈ کے ہزاری مل باغ میںان کی رہائش گاہ پرجیل سے ضمانت پر چھوٹ کر آنے والے رام گڑھ لنچنگ معاملے کے قصورواروں کو مالا پہنانے کی تصویر وائرل ہوئی تھی۔تصویر سامنے آنے کے بعد ہونے والی زبردست تنقید کے بعد وزیر موصوف نے 11جولائی 2018کو اپنے موقف سے یو ٹرن لیتے ہوئے اس معاملہ پر افسوس کا اظہار ہی نہیں کیا،بلکہ مستقبل میںقانون کی مناسب کارروائی کا احترام کرنے کی بات بھی کہی تھی۔ سیاسی رہنماؤں کی پشت پناہی بھی ماب لنچنگ کے فروغ کا ایک سبب ہے۔
اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ گئورکشا کے نام پر سیاسی روٹیاں سینکی جاتی رہی ہیں۔عدالت عظمیٰ کے فیصلہ میں امن قائم کرنے کو حکومت کی ذمہ داری قرار دینے کے بعد حالات میں بہتری کی امیدکاہونا لازمی تھا۔ خدشہ یہ ہے کہ پارلیمانی انتخابات نزدیک ہونے کی بنا پر ووٹوں کے پولرائزیشن کے لیے غیر انسانی طاقتیں پھر سے سر اُبھار سکتی ہیں۔کئی مسلم رہنما اور عالم دین گائے کے ذبح پر مکمل پابندی لگانے اور گائے کو قومی جانور قرار دینے کا مطالبہ کرچکے ہیں۔ سپریم کورٹ کے مطابق سڑکوں پر انصاف نہیں ہوتا۔ ایسا کرنا مجرمانہ عمل ہے،لیکن قانون کی پروا نہیں کرنے والے لوگ اجتماعی قتل و خون کی وارداتیں انجام دینے کو پُنیہ (ثواب)سمجھ رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ قانون شکنی کرنے والے افراد کوکیفرکردار تک پہنچانے کی ذمہ داری کس کی ہے؟ ملزمان کی سنوائی اور مجرموں کو سزا دلانے کے لیے ملک کا قانون اور عدالتیں موجودہیں،لیکن گئورکشک اور زعفرانی تنظیموں کے کارکنان بے گناہوں کو کہیں بھی گھیرا اور پیٹ پیٹ کر موت کے گھاٹ اُتارنے سے باز نہیں آرہے ہیں۔ پولیس کے ذریعہ بروقت کارروائی کرکے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے اور عدالتوں کے ذریعہ ماب لنچنگ کے ملزمان کو سخت سزائیں دی جانی چاہئیں۔ علاوہ ازیں غیر سماجی عناصر کی حوصلہ شکنی کے لیے معاشرے کے ذمہ داران کو بھی اہم کردار ادا کرنے کے لیے آگے آنا چاہیے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور ادیب ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS