دوسرے مرحلے کا انتخاب ختم

0

جمہوریت کے لیے انتخابات کا ہوتے رہنا ضروری سمجھا جاتا ہے تاکہ لوگ حق رائے دہی کا استعمال کرتے رہیں۔ اسی کے ساتھ یہ بھی ضروری سمجھا جاتا ہے کہ صاف و شفاف اور پرامن انتخابات ہوں۔ ہماچل پردیش اور گجرات کے اسمبلی انتخابات اور دہلی کے میونسپل انتخابات پرامن طریقے سے ہی ہوئے ہیں۔ گجرات میں اسمبلی انتخابات دو مرحلے میں ہوئے۔ پہلے مرحلے کے انتخابات یکم دسمبر کو ہوئے تو دوسرے مرحلے کے انتخابات 5 دسمبرکو ہوئے۔ آج گجرات کے دوسرے مرحلے کے انتخابات میں 14 اضلاع کی 93 سیٹوں کے لیے ووٹنگ ہوئی۔ دہلی کے میونسپل انتخابات 4 دسمبر کو ہوئے تھے۔ ہماچل پردیش میں ایک ہی مرحلے میں اسمبلی انتخابات ہوئے اور وہ 12 نومبر کو ہی ہوگئے تھے۔ ہماچل پردیش اور گجرات اسمبلی انتخابات کے نتائج 8 دسمبر کو آئیں گے۔ دہلی میونسپل انتخابات کے نتائج 7 دسمبر کو ہی آجائیں گے۔ ہماچل پردیش میں اسمبلی انتخابات کے ووٹوںکی گنتی کے لیے تقریباً ایک ماہ کا وقت الیکشن کمیشن نے لیا اور گجرات میں ووٹوں کی گنتی کرانے میں اس نے بڑی تیزی دکھائی لیکن اہم بات یہ ہے کہ وہ پرامن طریقے سے انتخابات کرانے میں کامیاب رہا اوریہ اس کی بڑی کامیابی سمجھی جائے گی۔
انتخابات کے ختم ہوتے ہی الگ الگ چینلوں اور اداروں کے ایگزٹ پولس کے آنے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ ایگزٹ پولس سے نتائج کا کسی حد تک اندازہ لگانا آسان ہوتا ہے، کیونکہ کئی بار ایگزٹ پولس اصل نتائج کے آس پاس ہی ہوتے ہیں مگرایسا نہیں ہے کہ تمام ایگزٹ پولس کے نتائج اصل نتائج کے آس پاس ہی ہوں، اس لیے دہلی کے میونسپل انتخابات کے نتائج کا پتہ 7 دسمبر کو اور ہماچل پردیش اور گجرات کے اسمبلی انتخابات کے نتائج کا پتہ 8 دسمبر کو چلے گا۔ اس سے پہلے کوئی حتمی رائے قائم کرلینا ٹھیک نہیں ہے۔ دہلی میں چونکانے والے انتخابی نتائج سامنے آئیں تو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ دہلی میں کجریوال سرکار کی خواتین کے لیے فری بس سروس مقبول ہے تو بجلی اور پانی کے سلسلے میں اس کی پالیسی نے بھی عوام میں عام آدمی پارٹی کومقبول بنانے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ ہماچل پردیش اور گجرات کے اسمبلی انتخابات میں اِنٹی اِنکمبینسی کی وجہ سے بی جے پی کو کتنا نقصان ہوگا، یہ سوال کرنے یا اس کا جواب تلاش کرنے سے پہلے اس سوال کا جواب تلاش کرنا چاہیے کہ کیا ان ریاستوں میں اِنٹی اِنکمبینسی فیکٹر کام کررہا تھا اور کیا یہ فیکٹر واقعی اتنا سنگین ہو گیا تھا کہ لوگ وزیراعظم نریندر مودی کے نام پربھی ووٹ نہیں دیتے؟
اس بارکے گجرات اسمبلی انتخابات میں عام آدمی پارٹی کے زوردار طریقے سے انتخابی تشہیر کرنے اور بعد میں اسدالدین اویسی کے اپنے انداز میں تشہیرکرنے کی وجہ سے یہ سمجھنا مشکل تھا کہ ان پارٹیوں کو ملنے والے ووٹ کانگریس کے لیے زیادہ نقصاندہ ہوں گے یا بی جے پی کے لیے؟ 1995 سے گجرات اسمبلی انتخابات کے نتائج پر ایک سرسری نظر ڈالنے پربھی یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ 2017 کے اسمبلی انتخابات تک صرف ایک بار 2007 میں کانگریس کے ووٹوں میں کمی آئی تھی، ورنہ اس کے ووٹوں میں مسلسل اضافہ ہی ہوا ہے۔ دوسری طرف 1995 سے 2002 تک بی جے پی کے ووٹوںمیں بھی مسلسل اضافہ ہوتا رہا ہے جبکہ 2007 اور 2012 کے اسمبلی انتخابات میں اس کے ووٹوں میں کمی آئی، البتہ 2017 کے اسمبلی انتخابات میں اس کا 1.15 ووٹ فیصد بڑھ گیا تھا۔ اس کے باوجود اسے 16 سیٹوں کا نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ اس بار بھی بی جے پی گجرات میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو یہ اس کی بڑی کامیابی ہوگی۔
ہماچل پردیش میں بی جے پی کا حکومت بنا لینا بھی بڑی بات ہوگی، کیونکہ گزشتہ کئی اسمبلی انتخابات سے دیکھنے میں آرہا ہے کہ ایک بار کانگریس حکومت بنانے میں کامیاب ہوتی ہے، ایک بار بی جے پی۔ فی الوقت ہماچل پردیش میں بی جے پی کی حکومت ہے، چنانچہ یہ بات سمجھی جا رہی تھی کہ اس بار کانگریس کی پوزیشن اچھی رہے گی مگر اترپردیش کے انتخابی نتائج سے بی جے پی نے یہ ثابت کیا ہے کہ ضروری نہیں کہ جو ماضی میں ہوا ہے، وہی مستقبل میں بھی ہو،اس لیے اب دہلی کے انتخابی نتائج کے لیے 7دسمبر جبکہ گجرات اورہماچل پردیش کے انتخابی نتائج کے لیے 8دسمبر پر نگاہیں مرکوز رہیں گی۔ اسی دن کسی حد تک یہ پتہ چلے گا کہ 2024 کے لیے عام انتخابات کے لیے ماحول کیسا رہے گا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS