انگریزی زبان کے متبادل کی تلاش

0

یوگیندر یادو
انگریزی کی وجہ سے ہم نے اعلیٰ طبقہ کی ایک ایسی کلاس پیداکی ہے جو ہماری تہذیب سے ناواقف ہے اور تخلیقیت سے بھی محروم ہے۔
انگریزی پر ہونے والی اس بحث سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے ذہن ابھی بھی نسل پرستی سے متاثر ہیں۔ ورنہ کوئی بھی سمجھدار آدمی جو از اور دلائل کے ساتھ اپنی بات رکھتا ہے۔ تجربات پہلے سے وضع کیے گئے نظریات کی جگہ لے لیتے ہیں۔ واقعات شواہد کی جگہ اختیار کرلیتے ہیں۔ وہ تمام لوگ جو ہر شعبہ میں اچانک تبدیلی کے قائل ہوتے ہیں وہ ناسمجھ رجعت پسند ہوتے ہیں۔ اور ان کو ہمیشہ آلودگی کا خوف ستائے رکھتا ہے۔ پھر آپ کو لگتا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ حکمراں طبقہ اور اس کے نظریات کے خلاف ہیں۔
انگریزی زبان کو اعلیٰ تعلیم سے باہر کرنے کی بحث اس نظریہ کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ جب بھی انگریزی بولنے والے اعلیٰ طبقہ کی بات ہوتی ہے تو اس کا مطلب ہے خاں مارکیٹ گینگ بایاں محاذ۔ اس بات سے دایاں محاذ ہوجاتا ہے۔ اس طبقہ کو اس بات پر افسوس ہے کہ ہندوستان باشعور معقول تعلیمی نظام۔ ہندوستانی زبان میں پڑھایا جاسکتا ہے تو وہ سہ لسانی فارمولہ میں سازشیں تلاشی کرنے لگتے ہیں اور سہ لسانی فارمولہ ہندوستان میں ایجوکیشن پالیسی کا اہم دستاویز ہے ۔ ایک طبقہ پھر بحث شروع کردے گا کہ ہندی کو لاگو کرنا ہندی کے خلاف دوسری زبانوں کے ساتھ رسہ کشی ظاہر کرتا ہے۔
یہ وہی پالیسی ہے جو سامراجی طاقتوں نے اختیار کی تھی یعنی پھوٹ ڈالو حکومت کرو۔ لہٰذا یہ طبقہ اعلیٰ تعلیم کو ہندوستانی زبان میں پڑھانے کی بات کرتا ہے۔ یہ وہی وطیرہ ہے جس کے تحت مرد عورتوں کی بالادستی یا ان کو بااختیار بنانے کی بات کرنے پر ناراض ہوجاتا ہے۔ یہ لوگ بڑی معصومیت سے پوچھتے ہیں ، اس نظام میں کیا خرابی ہے جو اچھے طریقہ سے چل رہا ہے۔ یہ وہی طرز استفسار ہے جو جنوبی افریقہ کے سفید فام کرتے تھے۔
شناخت ہی سب سے اہم سوال ہے
ہمیں اس پوری بحث پر حقیقی سوال پر بالکل صاف موقف اختیار کرنا چاہیے۔ ہم پالیسی سازوں کے خفیہ عزائم اور مقاصد پر بحث نہیں کررہے ہیں۔ ہم پالیسی پر گفتگو کررہے ہیں۔ اور نہ ہی ہم انگلش میڈیم کے راتوں رات ختم کرنے کے فائدوں پر ہی بات کررہے ہیں۔ کیونکہ اس سے نقصان ہوگا۔ اس معاملہ پر ہم آہستہ آہستہ ایک ایک قدم اٹھا کر آگے بڑھنے کی بات کررہے ہیں۔ ہم موجودہ نظام کے فائدوں پر بھی بات نہیں کررہے ہیں۔ اس وقت نہ ہی ہم ہندوستانی زبانوں میں دستیاب اعلیٰ تعلیم کے مواد کے معیار پر گفتگو کررہے ہیں۔ حال ہی میں ہندی کی میڈیکل کتابوں میں جومیٹریل ہے اس کے سیمپل آئے ہیں۔ وہ بھی معیاری نہیںہیں۔ مگر اس سے یہ ثابت نہیں ہوا کہ ہندوستانی زبانوں میں اچھے معیار کی کتابوں کا شائع ہونا ممکن نہیں ہے۔ ہمیں اس موقع پر اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ اس تجویز کے فائدے کیا ہیں۔
سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ ہم انگریزی زبان کو سیکھنے کی بات نہیں کررہے ہیں۔ کوئی بھی شخص جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرتا ہے وہ کبھی نہ کبھی انگریزی زبان کا امتحان ضرور پاس کرتا ہے، چاہے اس کی کوئی قابلیت ہو یا نہیں ہو۔ انگریزی کی تعلیم کی حوصلہ افزائی ہونی ہی چاہیے۔
اس مضمون میں ایسی بات کررہے ہیں کہ انگلش میڈیم کا کیا فائدہ ہے۔ یہ ایک اہم زبان ہے جس میں درس وتدریس ہوتی ہے۔ یہاں بحث اس بات پر ہورہی ہے طلبا کو انگریزی میں میٹریل انگریزی میں ملنا چاہیے یا نہیں۔ اس مضمون میں ہم نہ ہی اس بات پر بحث کررہے ہیں کہ کیا انگلش میڈیم پر پابندی لگا دینی چاہیے۔ ہندوستان جیسے ملک میں جہاں رنگا رنگی والی تہذیب ہے ہمیں ہر قسم کی اقلیتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ انگریزی زبان بولنے والوں کے حقدار کا خیال رکھنا چاہیے۔ ہمارے سامنے جو زیر بحث معاملہ ہے وہ عام قواعد ہیں غیر معمولی چیزیں نہیں۔
میرے خیال میں سب سے اہم اور حقیقی بحث یہ ہے کہ کلاسیز میں کیا انگریزی میڈیم کو سب سے زیادہ ترجیح دی جانی چاہیے؟ یہاں سب سے اہم بات یہ ہے کہ کیا ٹیکنیکی تعلیم کو انگریزی میں پڑھایا جائے یا نہیں۔ یہاں صرف ٹیکنیکل تعلیم کا میڈیم زیر بحث ہے۔ دوچار کے علاوہ اعلیٰ ترین اور معیار تعلیم کے زیادہ تر اداروں میں ہندوستانی زبانوں میں درس وتدریس کا انتظام ہے۔ دہلی یونیورسٹی کے بہت سے طلبا اپنا امتحان ہندی میں دیتے ہیں۔ کچھ پرائیوٹ یونیورسیٹیوں کچھ سینٹرل پیشہ وارانہ تعلیم دینے اور ٹیکنیکل تعلیم کے اداروں میں خصوصی طور پر انگریزی میں ہی تعلیم دی جاتی ہے۔
اصل بحث یہی ہے
یہاں یہ بات خاص طور پر زیر بحث ہے کہ کس طرح اعلیٰ تعلیم سے انگریزی میڈیم کو مرحلہ وار طریقہ ختم کیا جائے۔ جو طلبا اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں داخلہ لیتے ہیں ، ان میں زیادہ تر طلبا اسکولوں میں ان کا میڈیم آف انسٹرکشن انگلش ضرور ہوگا۔
انہوںنے اسکولوں میں انگلش بھی پڑھی ہو مگر ہمارے اس پاس میں انگریزی کا بہت کم ماحول ہے۔ یہ لوگ عام طور پر انگریزی بولنے پڑھنے اور لکھنے میں بہت اچھے نہیں ہوتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کے دوران میڈیم جب انگریزی ہو جاتا ہے تو یہ مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ اس مرحلے میں یہ لوگ انگریزی سیکھنے میں زیادہ وقت صرف کرتے ہیں ۔ انگریزی زبان کو سمجھنا بہت ضروری ہوتا ہے انگریزی لکھنے میں مہارت حاصل کرکے ہم ایک اچھی ڈگری حاصل کرسکتے ہیں ہم اچھی معیاری انگریزی بول کر سماج میں مرتبہ حاصل کرسکتے ہیں۔ ہمارے ملک میں بہت سارے طلبا اس لیے اعلیٰ تعلیم حاصل نہیںکر سکے، کیونکہ وہ انگریزی میڈیم اسکولوں کی بے رحمی کی تاب نہیں لاپاتے ہیں۔ یہ تباہی مختلف گروپوں میں الگ الگ طریقوں سے آتی ہے۔
اس صورت حال کا سب سے بڑا نقصان اس طبقہ کا ہوتا ہے جن کا پس منظر پسماندہ ہوتا ہے۔ ان میں اقتصادی طور پر کمزور سماجی طور پر کمزور، تعلیم حاصل کرنے والوں کی پہلی نسل، اور وہ لوگ جو کمزورطبقات سے تعلق رکھتے ہیں ، دلت، آدیواسی یا اوبی سی طبقات سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان طبقات کو تعلیم سے محروم رکھا گیا ۔ انگریزی کے ذریعہ سماجی اور ذات پات کی تفریق کو ختم کیا جاسکتا ہے۔
آخر میں ایسا لگتا ہے کہ انگلش پر عبور ثقافتی طور پر الگ تھلگ پڑجانے کا میڈیم بن گیا ہے۔ انگریزی کی وجہ ہمارے یہاں ایک ایسا طبقہ پیدا ہوگیا ہے جو ثقافتی طور پر لا علم اور تخلیقیت سے محروم ہے۔ اس کے اندر برتری کا خیال اپنے لوگوں سے ہی کاٹ دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مغرب کے سامنے اپنے آپ کو حقیر محسوس کرنے سے وہ نقلچی اور محدود سوچ کا فردبن کر رہ جاتا ہے۔
ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ انگلش کی بالادستی ہم کو سبق سکھانے والی ہے سماجی اور ثقافتی بربادی کی عکاس ہے۔ اس سے مرحلہ وارطریقہ سے نجات حاصل کرنی چاہیے اور اس طرح سے اس سمت میں کام ہو تو اس سے تعلیم کا معیار بہتر ہو گا ۔ تخلیقیت پیدا ہو گی اور اس سے سماجی برابری بھی پیدا ہو گی۔
اس پر کیسے عمل کیا جائے
یہ کام آسان نہیں ہے۔ انگریزی سے انحصار کم کرنے اور اس کی موجودہ بالادستی کو ختم کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنی زبانوں کو اعلیٰ تعلیم کو پڑھانے کے لیے تیار کریں ، اور سیکھنے کے لیے بہتر انتظامات کریں اس سے نیشنل مشن کے تحت کام کرنا ہوگا۔ اعلیٰ معیار کی نصابی کتابوں کو لکھا جائے۔ ٹیکنیکل ڈکشنریاں بنائی جائیں۔ ریفرنس میٹریل کا ترجمہ کرایاجائے۔ ای لائبریریاں بنائی جائیں اور اساتذہ کی ٹریننگ کرائی جائے۔
طلبا کو بھی اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنانا چاہیے۔ کچھ طلبا تو ایسے ہیں جو اپنی زبان میں ہی اپنے گھر پر بھی کچھ نہیں لکھ پاتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ انگریزی کو بالکل ہی ختم کردیں ۔ انگریزی نہ صرف یہ ہے کہ اعلیٰ ریسرچ کے لیے شہ رگ کی طرح بلکہ دیگر زبانوں کے درمیان بھی یہ رابطہ کی زبان ہے۔ لہٰذا تمام طلبا کو انگریزی پڑھنے کے لیے ایک خصوصی کورس کرایا جانا چاہیے۔ طلبا کو لکھنے بولنے اور پڑھنے کے خبط سے نجات دلانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اعلیٰ تعلیم کئی زبان میں ہونی چاہیے۔ کلاس روم میں درس وتدریس اور بنیادی تعلیم ہندوستانی زبان میں ہونی چاہیے۔ ایڈوانس ریفرنس انگلش میں ہونا چاہیے۔ جب میں کہتا ہوں ہندوستانی زبان کا مطلب کنڑ ، بنگلہ ، مراٹھی اور ہندی بھی ہے۔ ہمارے ملک کی بڑی آبادی ہے اور ہمارے پاس بنیادی ڈھانچہ بھی موجود ہے۔ اخبارات اور یونیورسیٹیوں میں یہ سب سہولیات میسر ہیں۔
پرائمری تعلیم تمام چھوٹی چھوٹی زبانوں جن کو ہم بولیاں کہتے ہیں۔ میں دی جانی چاہیے۔ ان بولیوں میں تلو، کمستا پوری، کوکنی ، بھالی اور بھوجپوری وغیرہ شامل ہیں۔ یہ زبانیں شیڈولڈزبانوں میں آتی ہیں ، ان تمام زبانوں میں اعلیٰ تعلیم کا مواد فراہم کرانے میں کافی مدت درکار ہے۔
آج کے حالات میں سب سے زیادہ توجہ نوکریاں دینے پر ہونی چاہیے نہ کہ تعلیم کے معاملہ میں ۔ انگریزی میڈیم کی طرف دوڑنا کوئی بڑا کار خیر نہیں ہے۔ ہر کوئی چاہتا ہے کہ اس کے پاسپورٹ پر انگلش درج ہو، کیونکہ یہ کافی وقار کی بات ہے اور اس سے موٹی تنخواہ کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ اس کام میں کوئی کار خیر نہیں ہے ۔ حالانکہ یہ سب قدرتی اور ناگزیر رہاہوں ایسا کچھ نہیں ہے۔ جاب مارکیٹ میں انگریزی میڈیم کو کیوں ترجیح دی جاتی ہے، اس کا ملازمتوں کی بنیادی ضروریات اور تقاضوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کئی معاملوں میں انگریزی زبان پر عبور لازمی ہوتا ہے، ان معاملوں میں اضافی ٹریننگ دی جاسکتی ہے۔ آپ کچھ سو ملازمتوں کے لیے لاکھوں طلبا کو ٹارچر نہیں سکتے ہیں۔ اس معاملہ میں سماجی اور ثقافتی اشارے طاقتور لوگوں کی طرف سے آتے ہیں۔
ملازمتوں کے معاملے میں زبان پر مبنی نسل پرستی کا مسئلہ جب تک حل نہیں کیا جاتااس بات کی تردید کرنا مشکل ہے کہ انگریزی اعلیٰ ترین طبقہ کی زبان ہے۔ ان کے خلاف موجودہ تعصب کو دوبارہ تھوپ دیا جائے گا۔ جب تک انگلش نوکری حاصل کرنے کا وسیلہ رہے گی۔ اس سے اقتدار عزت وابستہ رہے گی اس وقت تک انگریزی تک بالا دستی اور وقار رہنا ہی چاہیے اس معاملہ میں ہمیں انگریزی زبان کے معیار کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے،نہ کہ انگلش میڈیم کو ۔
آج ہندوستان میں انگلش کے سامنے میں جو چیلنج ہے وہ لسانی نہیں ہے یہ سیاسی نوعیت کا ہے۔ آج ملک پرکس کی حکمرانی ہے اور کن شرائط پر یہ ہورہا ہے۔ اشش ناندی نے ہم کو یاد دلادیا ہے کہ سامراج واد کے دور میں جو نقصانات کا ہم کو سامنا کرنا پڑا اس دور میں جو ہم کو نقصان ہوا تھا اس کلچر کے نقصان کا ازالہ کرنے کا چیلنج ہے۔ ہم انگلش کے ساتھ ہم آہنگی اس وقت تک پیدا نہیں کرسکے جب تک ہم یہ بات سمجھ نہ لیں کہ ملک کی انگلش ہماری ترقی اور جدیدیت کو یقینی نہیں بنا سکتی ہے۔
مضمون نگار سوراج انڈیا سوراج ابھیان کے بنیاد گزار اور سماجی رضاکار ہیں۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS