سنگھ کی تشویش سیاسی اسٹنٹ

0

مندر مسجد کے بعد اب آبادی کا مسئلہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس )کے ایجنڈہ کاباقاعدہ اہم حصہ بن چکا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے دیکھاجارہاہے کہ آر ایس ایس کی تمام میٹنگ، جلسے جلوس اور اجتماعات اسی ایک موضوع کے گرد گھوم رہے ہیں۔ دسہرہ کے موقع پر سنگھ سربراہ موہن بھاگوت نے بھی اسی موضوع کو مشق سخن بناکر طرح طرح کی گل افشانی کی تھی اور ملک کی تقسیم و ٹوٹ پھوٹ کے خدشات کا بھی اظہار کردیاتھا تو آج سنگھ کے جنرل سکریٹری دتاتریہ ہوسبلے نے بھی بڑھتی غیر متوازن آبادی پر اپنی اور سنگھ کی تشویشات سے قوم کو آگاہ کیا ہے۔ پریاگ راج (الٰہ آباد)میں آر ایس ایس کی چار دنوں تک جاری رہنے والی مجلس عاملہ کی میٹنگ کے بعد دتاتریہ نے کہا کہ تبدیلی مذہب اور دراندازی کی وجہ سے آبادی کا عدم توازن بڑھ رہاہے، اس لیے آبادی پالیسی کے ساتھ ساتھ تبدیلی مذہب کے خلاف بھی سخت ترین قانون بنایا جائے۔سنگھ کی اس میٹنگ میں تبدیلی مذہب کے واقعات پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے آبادی کی پالیسی بنانے اور اسے سب پر مساوی طور پر نافذ کرنے کا مطالبہ کیا گیاہے۔دتاتریہ ہوسبلے کا کہنا ہے کہ تبدیلی مذہب کیلئے ملک میں جو قوانین ہیں، ان کو سختی سے نافذ کرنے کی ضرورت ہے اور مذہب تبدیل کرنے والوں کو ریزرویشن کا فائدہ نہیں ملنا چاہیے۔
دراصل ان دنوں سنگھ اوراس سے وابستہ تنظیمیں یہ افواہ پھیلارہی ہیںکہ ملک میںہندوئوں کی آبادی کم ہورہی ہے اوراس کے مقابلے میں مسلمانوں کی آبادی میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔سنگھ کے نزدیک اس اضافہ کی اہم وجہ تبدیلی مذہب ہے۔ اس کاکہنا ہے کہ مذہب کی تبدیلی کی وجہ سے ملک کے کئی حصوں میں ہندوؤں کی تعداد میں کمی آئی ہے۔نیز سرحدی علاقوں سے دراندازی کی وجہ سے سماجی اور معاشی کشیدگی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔خاص کر بنگلہ دیش سے ہونے والی در اندازی کی وجہ سے شمالی بہار کے کئی اضلاع بالخصوص کٹیہارا ور پورنیہ میں آبادی میں عدم توازن پیدا ہورہاہے۔کچھ دوسری ریاستیں بھی اس کا شکار ہورہی ہیں۔
حالانکہ نجی اداروں کے سروے و جائزے، سرکاری اعدادوشمار خاص کرنیشنل فیملی ہیلتھ سروے کی رپورٹس مظہر ہیں کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی کا ہندوئوں کی آبادی سے تجاوز کرجاناکسی بھی حال میں ممکن نہیں ہے۔یہ درست ہے کہ آزادی کے بعد سے اب تک مسلمانوں کی آبادی بڑھتی ہوئی آرہی ہے لیکن اس اضافہ کی شرح اتنی نہیں ہے کہ وہ ہندوئوں کی آبادی سے بھی زیادہ ہوجائے۔ گزشتہ چھ دہائیوں میں مسلمانوں کی آبادی فقط4.4فیصد کی شرح سے بڑھی ہے اور اگر یہ سلسلہ اسی تناسب میںجاری رہا تو اس صدی کے اختتام یعنی سن 2100تک مسلمانوں کی آبادی20فیصدسے زیادہ نہیں ہوسکتی ہے۔ جب کہ سروے اور جائزے یہ بھی بتاتے ہیں کہ مسلمانوں میں زرخیزی کی شرح بھی کم ہوتے ہوتے اب ہندوئوں کی شرح تک آپہنچی ہے۔
ان حقائق کو نظرا نداز کرکے آبادی کے عدم توازن کی بات ایک گمراہ کن افواہ سے زیادہ کوئی حیثیت نہیںرکھتی ہے۔ دتاتریہ کا یہ کہنا کہ تبدیلی مذہب کی وجہ سے ہندوئوں کی آبادی کم ہورہی ہے تو یہ بھی سراسر بے بنیاد، غلط اور جھوٹ پرمبنی ایک ایسی افواہ ہے جس کا مقصد سیاسی پولرائزیشن کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ ہندوستان میں مسلمان تقریباً700برسوںتک حکمراں رہے اور انگریزوں نے 100برس سے بھی زیادہ حکومت کی،ان800برسوںمیں ہندوستان میں ہندوئوں کی آبادی میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ اس کے بر خلاف ہندوئوں کی آبادی بڑھتی گئی اور آج ہندوستان میں ایک ارب سے زیادہ ہندو آباد ہیں، جب اس وقت تبدیلی مذہب مسلمانوں کی آبادی نہیں بڑھا پائی تو اب جب کہ ہر چہار جانب مسلمانوں کے خلاف مذموم مہم چلائی جارہی ہے، یہ تبدیلی مذہب کا واویلا سمجھ سے باہر ہے۔ یہی صورتحال سرحدوں سے دراندازی کی بھی ہے۔ہندوستان سے ملنے والے وہ ممالک جہاں سے مسلمانوں کی دراندازی کا ہوا کھڑا کیا جاتا ہے، ان میں بنگلہ دیش اور پاکستان سرفہرست ہیں لیکن ان دونوں ممالک سے جتنے لوگ باقاعدہ اور بے قاعدہ ہندوستان میں آباد ہوئے ہیں،ا ن سے کہیں زیادہ مسلمانوں نے ہندوستان سے باہر اپنا ٹھکانہ بنایا ہے۔ ہندوستان کی کل آبادی میں مسلمان آج 14.5فیصد بتائے جاتے ہیں لیکن ہندوستان سے باہر جانے والی آبادی میں مسلمانوں کا تناسب27فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ ایسے میں سنگھ کی تشویش اور آبادی کے غیر متوازن ہونے کا واویلا ایک سیاسی اسٹنٹ ہے اوراس کا مقصد مسلمانوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کرکے انہیں ملک کے قومی دھارے سے الگ کرنا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS