حالات باعث تشویش!

0

جموں و کشمیر میں لوگ صدیوں سے مل جل کر رہتے رہے ہیں۔ دو دہائی قبل حالات بدلنے کے باوجود کئی لوگوں نے وادی کو نہیں چھوڑا اور وہ چھوڑتے بھی کیسے، اس جگہ کو کون چھوڑنا چاہتا ہے جہاں کی زمین ماں کی بانہوں کی طرح پہچانتی ہو، جہاں سے بچپن اور جوانی کی یادیں وابستہ ہوں، جہاں کی آلودگی سے پاک آب و ہوا میں سنہرے خواب پروان چڑھے ہوں، جہاں کے راستے یہ احساس دلاتے ہوں کہ وہ ان سے شناسا ہیں۔ جموں و کشمیر کو اسپیشل اسٹیٹ کا درجہ دلانے والے آرٹیکل 370 کو 31 اکتوبر، 2019 کو ختم کیا گیا تھا اور اسی کے ساتھ دو حصوں میں تقسیم کر کے اسے مرکز کے زیرانتظام علاقہ بنا دیا گیا تھا تو وہاں کے لیڈروں نے ناراضگی کااظہار کیا تھا مگر اس وقت بھی ایسا نہیں لگا تھا کہ اس کا کچھ اثر عام لوگوں کے میل جول اور اتحاد پر پڑے گا۔ لوگ پہلے ہی کی طرح مل جل کر رہ رہے تھے ، اس لیے یہ بات زیادہ باعث تشویش ہے کہ جموں و کشمیر کے حالات اچانک بدلتے ہوئے کیوں نظرآرہے ہیں، حالات کی تبدیلی کے اثرات عام لوگوں پر کیوں پڑ رہے ہیں۔ آج کا واقعہ تشویش میں اضافہ کرنے والا ہے، آج صبح پونچھ میں مسلح دہشت گردوں سے تصادم میں فوج کے ایک جے سی او اور چار جوان شہید ہوگئے۔
گزشتہ چند دنوں میں ہونے والے واقعات سے عام لوگ پہلے ہی پریشان تھے، جوانوں کی شہادت کے بعد فوج کو حالات سے اس طرح نمٹنا ہوگا کہ عام لوگوں کی امید بندھے، جموں وکشمیر تشدد سے ـضرور پاک ہوگا۔ اسے ہماری فوج تشدد سے پاک کرے گی۔ وہ تشدد کی آنچ عام لوگوں تک نہیں آنے دے گی۔ ویسے فوج کی خوش قسمتی یہ ہے کہ پورے ملک کے لوگ اس پر یقین کرتے ہیں، یقین کا عالم یہ ہے کہ کہیں دنگا ہونے پر لوگ یہ اپیل کرتے ہیں کہ ان کے تحفظ اور امن و امان کے قیام کے لیے فوج بلائی جائے، اس لیے جموں و کشمیر کے عام لوگوں کو فوجیوں کے لیے یہ سمجھاجانا کوئی مشکل نہیں ہوگا کہ تشدد کے راستوں پر چلنے والے اگرختم نہیں ہوتے تو راستہ ہی ختم ہو جاتا ہے، البتہ امن کا راستہ دراز ہوتا ہے، اس راستے کے انتخاب میں اگر تاخیر ہو جائے تب بھی اس کا انتخاب کرنا چاہیے، کیونکہ اوپر والے نے زندگی تشدد کی نذر کرنے کے لیے نہیں دی ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ جموں و کشمیر میں حالات اس وقت بدلتے نظر آ رہے ہیں جب لوگوں کو یہ اطمینان سا ہو گیا تھا کہ مستقل امن کا قیام یہاں کے لوگوں کے لیے ایک خواب نہیں۔ حکومت کو یہ پتا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ پرتشدد واقعات میں اچانک اضافے کی وجہ کیا ہے؟ کیا اس کے پیچھے کوئی بڑی سازش ہے؟ کیا حالات کی تبدیلی کے لیے وہ لوگ ذمہ دار ہیں جو اپنا مفاد پرامن جموں و کشمیر میں نہیں دیکھتے؟
حالیہ تشدد کی توجہ طلب بات یہ ہے کہ وہ لوگ بھی نشانہ بنائے جا رہے ہیں جو مفاد عامہ کے کاموں کے لیے پوری وادی میں مشہور تھے، لوگ بلاتفریق مذہب و ملت ان کا احترام کرتے تھے، انہیں اپنا ہمدرد سمجھتے تھے۔ ان لوگوں میں مشہور فارماسسٹ ماکھن لال بندرو شامل تھے۔ 68 سالہ ماکھن لال گزشتہ 40 برس سے جموں میں دوائیں بیچ رہے تھے۔ لوگوں کا یہ اعتماد تھا کہ ماکھن لال سے دوا لینے کا مطلب ہے اصلی اور سستی دوا لینا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی دکان پر ہمیشہ لوگوں کی بھیڑ رہا کرتی تھی، ان کی دکان کے آس پاس وسیع علاقے میں شاید ہی کوئی جگہ ایسی ہو جہاں کے لوگ انہیں نہیں پہچانتے ہوں۔ رپورٹ کے مطابق، ماکھن لال بندرو کے بیٹے ڈاکٹر سدھارتھ دہلی کے کسی بڑے اسپتال میں کام کر رہے تھے مگر انہوں نے یہ کہہ کر انہیں جموں بلا لیا تھا کہ یہاں کے لوگوں کو ان کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد سے انڈوکرینولاجسٹ ڈاکٹر سدھارتھ اپنی فیزیوتھیرپسٹ بیوی کے ہمراہ جموں میں ہی طبی خدمات انجام دے رہے تھے۔ جموں و کشمیر سے ماکھن لال بندرو کا کتنا زیادہ لگاؤ تھا، اس کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ 1990 کی دہائی میں ان کی دکان کے باہر ہی ان کے چچا کا قتل کر دیا گیا تھا، اس کے باوجود وہ کہیں اور منتقل نہیں ہوئے مگر 5 اکتوبر کو دیگر 4 لوگوں کے ساتھ ماکھن لال بندرو کا بھی قتل کر دیاگیا۔ یقینا یہ اس یقین کا قتل تھا کہ جموں و کشمیر کی زمین خون کی اتنی پیاسی نہیں جو ماکھن لال بندرو جیسے انسان دوست لوگوں کو بھی نہیں بخشے گی۔ یہ صورت حال ان 1,000 کشمیری پنڈت پریواروں کے لیے حیران کن اورالجھن بھری ہوگی جن کی جموں و کشمیر سے محبت مثالی ہے۔ امید رکھی جانی چاہیے کہ اس الجھن سے انہیں وہ لوگ نجات دلائیں گے جو جانتے ہیں، جموں و کشمیر کے تشدد کی نذر ہونے میں ان کا فائدہ نہیں، وہ جنت نشان تھا اور اسے جنت نشان ہی رہنا چاہیے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS