خون میں ڈوب گیا تنوع کی علامت ست رنگا حسن: محمد حنیف خان

0
منی پور :تشدد کی آگ پر قابو پانے کی ضرورت

محمد حنیف خان

منی پور کی شناخت اور تنوع کی علامت ست رنگے ’شروئی للی‘‘پھول کے سبھی ساتوں رنگ غائب ہوچکے ہیں، اب اگر کوئی رنگ وہاں چہار جانب نظر آ رہا ہے تو وہ صرف خون ہے،جس کی وجہ صرف وہ دو قبائل نہیں جو سرکاری مراعات کے حصول کے لیے کشت و خون کے لیے میدان میں آگئے بلکہ اصل ذمہ دار وہ سیاست داں ہیں جنہوں نے چنگاری کو بجھانے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا، اس کے برخلاف وہ مزید طاقت کے حصول میں سرگرداں رہے اور دوسری جانب ست رنگا پھول ’’شروئی للی‘‘ خون میں ڈوب گیا۔منی پور کو Orchid basketکہا جاتا ہے،جہاں شروئی للی پھول کی 500اقسام پائی جاتی ہیں،یہ پھول پوری دنیا میں صرف منی پور میں ہی پایا جاتا ہے جو یہاں کے تنوع کی علامت ہے۔اب یہ علامت خاک و خون میں مل چکی ہے۔
منی پور کے حالات کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں،جس طرح سے گزشتہ تین ماہ میں منی پور میں قتل و غارت گری اور آگ زنی ہوئی اور اس میں انسانی قدروں کی پامالی، جانوں کا زیاں ہوا ہے، وہ آزاد ہندوستان اور ترقی پذیر ملک کے ماتھے پر کالا دھبہ ہے۔منی پور میں خواتین کو برہنہ کرکے ان کی پریڈ کرائی گئی جس کا ویڈیو وائرل ہوا ہے،اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد سبھی کو منی پور کی یاد آئی ہے،اب محسوس ہونا شروع ہوا ہے کہ منی پورمیں کچھ غلط ہو رہا ہے،اگرپہلے ہی اس کی یاد آگئی ہوتی تو شاید اس طرح کے حالات نہ ہوتے۔اس وائرل ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک دوشیزہ (20)اور خاتون (40)کو برہنہ کرکے گھمایا جا رہا ہے۔ عالمی سطح کے ایک نشریاتی ادارے نے ان میں سے ایک خاتون سے رابطہ کیا تو اس نے بتایا کہ جب انہیں معلوم ہوا کہ بھیڑ ان کے گھروں کو جلا رہی ہے تو وہ بچنے کے لیے وہاں سے نکل بھاگیں لیکن گھر سے نکلتے ہی ان کو پکڑ لیا گیا،بھیڑ نے جان سے مارنے کی دھمکی دے کر ان کے کپڑے اتروائے اور کھیتوں میں لے کر گئی جہاں ان میں سے ایک کی اجتماعی آبروریزی کی گئی،پھر ان کی پریڈ کرائی گئی۔جن لوگوں نے انہیں بچانے کی کوشش کی، انہیں بھی زدوکوب کیا گیا۔یہ ویڈیو 3مئی کا ہے،یعنی جس وقت منی پور میں حالات خراب ہوئے فوراً اس کے بعد کا ہے،جو ڈھائی ماہ کے بعد سامنے آیا ہے۔
جب بھی منی پور کے حالات سے متعلق کسی نے آواز اٹھائی تو اعیان حکومت اور اس کے بہی خواہوں نے یہ الزام عائد کیا کہ سیاست کی جا رہی ہے، ملک کو بدنام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو ناقابل قبول ہے۔گزشتہ دنوں جب راہل گاندھی نے زمینی حقیقت سے آگاہی کے لیے وہاں کا دورہ کیا توکہا گیا کہ منی پور کے عوام راہل کی مخالفت کر رہے ہیں، اس لیے انہیں وہاں نہیں جانا چاہیے۔ دوسری طرف وزیراعظم سمیت دوسرے بڑے سیاست داں اور آئینی عہدوں پر بیٹھے ذمہ داران نہ صرف خاموش تماشائی بنے رہے بلکہ وہ کرناٹک انتخابات میں ایسا مصروف ہوئے جیسے ان کی آئینی ذمہ داری ہی صرف الیکشن ہے۔منی پور کے حالات سے متعلق آج سے پہلے وزیراعظم کا ایک بیان تک نہیں آیا،ان کی خاموشی اس بات کی علامت ہے کہ انہیں ملک کے عوام سے کہیں زیادہ الیکشن اور اس میں کامیابی عزیز ہے۔لیکن اس سے بھی زیادہ خطرناک ایک پہلو ہے جس جانب شاید توجہ نہیں دی گئی۔کوکی اور میتئی قبائل کے درمیان یہاں کشمکش ہے۔چونکہ مذہبی اعتبار سے شمال مشرق کی ریاستوں میں ہندو ازم کے بعد عیسائیت سب سے بڑا مذہب ہے اور میتئی قبیلہ ہندوازم کا پیرو ہے،جو غالب ہے،یہی وجہ ہے کہ حکومت بالکل خاموش ہے۔اس سے قبل گجرات لیباریٹری بن چکا ہے اور اب منی پور بن گیا ہے۔یوں بھی بی جے پی ہندی بیلٹ کے بعد سب سے زیادہ شمال مشرقی ریاستوں پر ہی توجہ دیے ہوئے ہے،یہی وجہ ہے کہ جہاں اس کا کوئی نام لیوا نہیں تھا، اب وہاں اس کی حکومتیں قائم ہیں۔حکومت کی خاموشی کو اگر اس تناظر میں دیکھا جائے کہ وہ 2024میں غالب قبیلہ پرنظریں جمائے ہوئے ہے تو بے جا نہیں ہوگا۔
اس کے علاوہ ملک کے سیاست داں وسطی علاقہ جات اور ریاستوں مثلاً اترپردیش،مدھیہ پردیش، بہار، ہریانہ، دہلی، راجستھان اور مہاراشٹر کو اہمیت دیتے ہیں،چونکہ مرکز کی سیاست میں ان ریاستوں کا غلبہ رہتا ہے،جس کی وجہ ان ریاستوں میں پارلیمانی سیٹوں کی کثرت ہے،یہی وجہ ہے کہ ان ریاستوں پر توجہ کم دی جاتی ہے جو چھوٹی ہیں اور جہاں کم پارلیمانی سیٹیں ہیں۔جس کا نقصان کئی سطح پر ملک کو ہوتا ہے۔ہندوستان مذہبی،تہذیبی اور لسانی تنوع والا ملک ہے،آئین نے اپنے ہر شہری کو یکساں حقوق دیے ہیں،اس کے باوجود اگر کوئی علاقہ/طبقہ کم اہمیت رکھتا ہے تو اس کی وجہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ اسے سیاسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔مرکز کی حکمراں پارٹی بی جے پی نے اگر منی پور کو نظرانداز کیا ہے تو اس کی یہی وجہ ہے کہ وہاں دو پارلیمانی اور ایک راجیہ سبھا سیٹ ہے۔منی پور میں اگرچہ بی جے پی کی ہی حکومت ہے، اس کے باوجود اترپردیش، مدھیہ پردیش اور راجستھان جیسی اہم سیاسی ریاست تو نہیں ہے، اس لیے کسی نے وہاں ہونے والے فسادات کی جانب توجہ نہیں دی اور انسانیت شرمسار ہوتی رہی۔حالانکہ جائے وقوع اور تنوع کے اعتبار سے منی پور سمیت شمال مشرق کی سبھی آٹھ ریاستیں بڑی اہمیت کی حامل ہیں جن کی سرحدیں بنگلہ دیش،بھوٹان،،میانمار اور چین جیسے ملکوں سے ملتی ہیں۔ شمال مشرق میں آٹھ ریاستیں اروناچل پردیش، آسام، میگھالیہ،منی پور، میزورم، ناگالینڈ،تریپورہ اور سکم ہیں۔آزادی کے وقت صرف تین ریاستیں آسام،منی پور اور تریپورہ تھیں لیکن ایک خاص پالیسی کے تحت زبان کی بنیاد پر ان تین ریاستوں کو تقسیم کرکے مزید چار ریاستیں بنائی گئیں، 1963 میں ناگالینڈ وجود میں آیا،1972میں مرکز کے زیر انتظام میگھالیہ اور میزروم بنائے گئے جبکہ 1987میں ارونا چل پردیش بنایا گیا، جن کو Seven Sissters(سات بہنیں) کے نام سے جانا جاتا ہے، جبکہ آٹھویں ریاست سکم کو ان کا واحد بھائی کہا جاتا ہے۔یہ نام ایک سول سرونٹ جیوتی پرساد سائیکیا نے دیا تھا۔چونکہ ان ریاستوں تک رسائی کے لیے 20کلو میٹر کا ایک ہی راستہ ہے جسے Chekin Neck کا نام دیا گیا ہے اور سبھی ریاستیں اپنی ضرورتوں کی تکمیل اور ترقی کے لیے ایک دوسرے پر انحصار کرتی ہیں، اس لیے ان کو سات بہنوں کا نام دیا گیا۔تریپورہ کا جائے وقوع ایسا ہے کہ وہ بنگلہ دیش سے گھرا ہوا ہے جو حمل و نقل کے لیے آسام پر منحصر ہے، آسام میں سیلاب والی سبھی ندیاں اروناچل پردیش اور ناگالینڈ سے نکلتی ہیں،میزورم اور منی پور آسام کی باراک گھاٹی کے توسط سے ہندوستان کے باقی حصوں سے جڑتے ہیں،اس طرح یہ سب ایک دوسرے سے نہ صرف جڑی ہوئی ریاستیں ہیں بلکہ ایک دوسرے پر منحصر بھی ہیں۔ان سات بہنوں کی ریاستوں کو paradise Unexplored بھی کہا جاتا ہے،جن کا رقبہ 255511کلو میٹر میں پھیلا ہوا ہے جو ہندوستان کا 7فیصد ہے۔2011میں ان ریاستوں کی آبادی 44.98ملین تھی جو کل آبادی کا 3.7فیصد ہے۔ان ساتوں ریاستوں میں ذات و برادری اور مذہبی تنوع ہے لیکن سیاسی،سماجی اور معاشی سطح پر یکسانیت پائی جاتی ہے۔ان ریاستوں کو ذات وبرادری کی کثرت کے حوالے سے بھی نہ صرف جانا جاتا ہے بلکہ دنیا میں ایک مقام پر سب سے زیادہ برادریاں اسی علاقے میں رہتی ہیں۔اروناچل پردیش میں چھتیس ذاتیں،ناگالینڈ میں 16اہم برادریاں ہیں جبکہ منی پور میں اہم قبائل میتئی،بشنو پوریا ناگااور کوکی چن رہتے ہیں۔
یہ ریاستیں جہاں ایک طرف فطری حسن اور قدرتی عطایا سے مالا مال ہیں، وہیں دوسری جانب تحفظاتی اعتبار سے بڑی حساس ہیں،سرحدی علاقہ ہونے کی وجہ سے ان کی حساسیت کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں لیکن یہاں کا معاشرہ اپنی اندرونی بناوٹ اور قبائلی تفوق کی ذہنیت کی بنا پر بھی بہت حساس ہے، بین ذات و برادری تناؤ بالکل عام ہے۔ اگر کوئی شخص یہاں کے معاشرے کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہے تو اسے سب سے پہلے یہی بتایا جاتا ہے کہ اس پورے علاقے میں ہمیشہ ایک طرح کا تناؤ بنا رہتا ہے جو بہت قدیم اور روایتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ حکومت اس سے نابلد ہے،اسے سب معلوم ہے مگر آنکھ موندنے میں اسے عافیت محسوس ہوتی ہے،اس لیے وہ خاموش رہی اور حالات ایسے بن گئے کہ جس ملک میں ’’بیٹی بچاؤ‘‘ کے نعرے در و دیوار پر لکھے ہیں، وہاں بیٹیوں کو ننگی گھمایا جاتا ہے۔یہ بات کتنی عجیب اور روح فرسا ہے کہ آزاد ہندوستان میں عورتوں کو مادر زاد گھمایا جائے،اجتماعی آبرو ریزی کی جائے،جنین کے ٹکڑے ٹکڑے کیے جائیں،زانیوں اور معاشرہ کے خلاف گھناؤنے جرائم کرنے والوں کو حکومت کی پشت پناہی حاصل ہو اور حکومتیں صرف اس بنا پر ان کی سزائیں مکمل ہونے سے قبل انہیں رہا کردیں کہ وہ ان کی فکر کے حامل اور ان کے کارندے ہیں۔آبرو ریزی کی شکار خواتین کو صرف اس لیے حکومت کی جانب سے کوئی سہارا نہ ملے کہ اس کا تعلق ایک ایسے طبقے سے ہے جو اس کا ووٹ بینک نہیں۔ یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے،گجرات فسادات کی شکار بلقیس بانو تو اب بھی اس لیے مقدمہ لڑ رہی ہے تاکہ اس کی آبروریزی کرنے والے مجرمین جو رہا کردیے گئے ہیں دوبارہ انہیں سلاخوں کے پیچھے بھیجا جائے،وہ کسی اور سے نہیں بلکہ گجرات کی بی جے پی حکومت سے لڑ رہی ہے اور منی پور میں بھی بی جے پی کی ہی حکومت ہے جہاں خواتین کی برہنہ پریڈ کرائی گئی،اس سے قبل اترپردیش کے شراوستی میں بھی اقلیتی طبقہ کی خواتین کے ساتھ ایسا ہی ہوا تھا۔چونکہ سیاست داں ہر واقعہ کو سیاست کی نظر سے ہی دیکھتے ہیں، اس لیے اس طرح کے واقعات کا رونما ہونا بعید از قیاس نہیں اور جب تک انسانیت کا تقدس و احترام اصل مقصد نہیں ہوگا، اس وقت تک یہ سب ہوتا رہے گا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS