سلمان عبدالصمد
مادری زبان دراصل وہ زبان ہے جسے انسان پیدائش کے بعدبلاکوشش سیکھ لے۔یہ زبان،انسان کی دوسری جِلدبھی کہی جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی زبان کو وسیلہ ٔ تعلیم بنا کر بچوں کی تعلیمی زندگی کا آغاز کرنا انتہائی مناسب بلکہ ضروری عمل ہے۔ ماہرین نے مادری زبان کو ابتدائی تعلیم کے لیے بے حد مفید تسلیم کیا۔ اگر اس مسئلے کو نفسیاتی تنا ظر میں دیکھیں تو یہی کہنا پڑے گا کہ مادری زبان میں ابتدائی تعلیم قرین عقل بھی ہے۔ اس پہلو کو یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ نوزائیدہ بچوںکے شعور اور لاشعور میں بنیادی طورپر کوئی تفریق نہیں کی جاتی۔ کیوں کہ لاشعوری کا عالم بچوں کے شعور کا عالم بھی ہوتا ہے۔ اسی عالم میں بچے مسلسل جو کچھ محسوس کرتے ہیں وہ ان کی عادت ثانیہ بنتی چلی جاتی ہے ۔ ان ایام میں وہ اپنے والدین یا ارد گردرہنے والوں سے جو کچھ سنتے ہیں، اسی سے زبان سیکھنے کا عمل شروع ہوجاتا ہے اوریہ زبان عموماً مادری زبان ہوتی ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب بچہ ذرا بڑا ہوجائے تو اسے اُسی زبان میں تعلیم دینا عقل مندی ہوگی جس کے سیکھنے کا عمل بدوِشعور بلکہ قبلِ شعور سے سے ہی شروع ہوگیا ہو ۔ 1953کے بعد سے ہی یونیسکو کی جانب سے مادری زبان میں ابتدائی تعلیم دینے کی مہم چلی۔پھر اسی ادارہ سے 2005میں جاری ہونے والی رپورٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ جن ممالک میں مادری زبان کو ابتدائی تعلیم کے لیے ضروری قرار دیا گیا ، وہاں شرحِ تعلیم میں اضافہ ہوا۔ عموماً عالمی سطح پر ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دیے جانے کا انتظام کیاگیا ہے۔ کیوں کہ پیدائش کے بعد سے ہی لا شعوری طور پر بچوں کے ذہن میں جو الفاظ راسخ ہو جاتے ہیں، وہ مادری زبان میں رائج نظام تعلیم کی تفہیم میں ممد ومعاون بنتے ہیں۔ پھر راسخ الفاظ اور نظام تعلیم کے ملاپ سے طلبا /بچے کے ذہن میں جو باتیں پیوست ہوتی ہیں ان سے وہ تادم ِ زندگی استفادہ کرتے رہتے ہیں۔ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ مادری زبان میں تعلیم سے بچے بہت جلد نئی باتوں کو سمجھ لیتے ہیں۔ اس کا مثبت نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اگر سمجھائی گئی باتوں(اسباق) کے متعلق ان سے بات کریں تو وہ اپنے انداز واسلوب میں بہ سہولیت دہرانے لگتے ہیں۔ اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ مادری زبان میں دی جانے والی تعلیم سے بچوں کی تعلیمی صحت پر خوش گوار اورمثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ایک قابل توجہ پہلو یہ بھی ہے کہ مادری زبان میں تعلیم دینے والا استاد اُسی ماحول سے وابستہ ہوتا ہے جس میں بچوں کی نشونما ہوئی ہے۔ اس لیے ایسے اساتذہ اپنے ماحول کے بچوں کی ذہنی ساخت اورپرورش وپرداخت کی فضا سے بخوبی مانوس ہوتے ہیں۔ لہذا ایسے ماحول اورفضا میں بچوں کا تعلیمی سفر؛ ذہنی تربیت ، لسانی تعلیم اور تحصیل علم کے ساتھ بحسن وخوبی جاری رہتا ہے۔ اس کے علاوہ معلمین کو بھی آسانی ہوتی ہے کہ وہ زبان کی تعلیم پر مکمل توجہ مرکوز نہ کرکے مادری زبان میں بچوں کے ذہن کو تعلیم آشنا بنائے ۔مادری زبان اگر ذریعہ تعلیم ہو تو انسانی ارتقاء کے ساتھ اس کی مادری زبان بھی ارتقاء پذیر ہوتی رہتی ہے۔ اس زبان کے نئے نئے محاورے اور روزمرہ کے دل کش الفاظ متعارف ہوتے ہیں۔نیا ادب تخلیق پاتا ہے۔استعمال میں آنے والی چیزوں کے نئے نئے نام اس زبان کا حصہ بنتے چلے جاتے ہیں۔
ہندوستانی تناظر کی بات کریں تو سپریم کورٹ آف انڈیا نے مادری زبان کووسیلہ ٔ تعلیم بنانے کی ہدایت کی ہے۔گاندھی جی نے مادری زبان میں تعلیم کی اہمیت پر زوردیتے ہوئے ایک دفعہ کہا تھا کہ مادری زبان کے علاوہ، دیگر زبانوں میں تعلیم بالکل اسی طرح ہے ، جس طرح ماں کے دودھ کے بجائے بچوں کو گائے کا دودھ دینا۔اس کے علاوہ رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ 2009 کے باب 5کی دفعہ 29(f)میں وضاحت کی گئی کہ جہاں تک ممکن ہوسکے مادری زبان میں ابتدائی تعلیم کا نظم ہونا چاہیے ۔ قومی تعلیمی پالیسی (NEP)کے 4.11میں درج ہے کہ کم سے کم 5 گریڈ تک تعلیم مادری زبان/مقامی زبان/علاقائی زبان میں ہو، ممکن ہوتو 8گریڈ تک اور اس سے آگے بھی۔اس کا نفسیاتی فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ بچوں کو تعلیم میں دل چسپی پیدا ہونے لگتی ہے ۔ وہ باتوں کو سمجھتے ہیں۔ سمجھنے کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ وہ کلاس میں بور نہیں ہوتے ہیں۔ بور نہ ہونے کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف اسباق پر غوروفکرکرتے ہیں بلکہ آگے درجات میں پہنچنے کے متعلق بھی سوچنے لگتے ہیں ۔ اس طرح ان کی پرواز کی اہمیت دن بدن بڑھتی جاتی ہے اور ڈراپ آؤٹس میں بھی کمی واقعی ہوتی ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ بدوِ شعور کے بعد دوسری زبانوں کے سیکھنے اور بچوں کو دوسری زبان سکھانے پر توجہ دینی چاہیے ۔ کیوں کہ دوسری زبان جاننے سے بچوں کو شعور بالیدہ ہوتا ہے ۔ کسی دانش ور نے خوب کہا ہے کہ جو جتنی زیادہ زبان جانتا ہے وہ دنیا سے اتنا زیادہ لطف اندوز ہوتا ہے ۔ شاید ان ہی باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمارے یہاں سہ لسانی فارمولے پر عمل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پیس نظر مضمون میں بات مادری زبان میں ابتدائی تعلیم کی ہورہی ، نہ کہ کسی زبان سے تنفر کی کیفیت پیدا کی جارہی ہے ۔
کبھی کبھی غیر ملکی زبان میں تعلیم دینے سے بچوں میں احساس کمتری کے جذبات بھی پنپنے لگتے ہیں ۔ کیوں کہ جب غیر ملکی زبانوں میں ابتدائی درجات کی تعلیم دی جا تی ہے تو اسبا ق کی تفہیم کے لیے غیرمادری زبان سیکھنا لازمی ہوتی ہے۔ ایسے میں بچہ خود سے اچھی زبان جاننے والوں کو دیکھ کر جہاں اچھی زبان سیکھنے کی کوشش کرتا ہے ، وہیں بسااوقات بہت سے بچوں میں اچھی زبان نہ جاننے کی وجہ سے احساس کمتری بھی پیدا ہوجاتی ہے ۔ یہ واقعہ ہے کہ جن ادوار میں بچوں کا شعور بالیدہ ہوتا ہے ان دنوں بچوں پر لاشعوری کیفیت کا بھی غلبہ ہوتا ہے۔ جب لاشعور میں بسی احساس محرومی سے شعور پختہ ہو تو ا س کے منفی اثرات زندگی کے کسی بھی مرحلے میں سامنے آسکتے ہیں۔
مادری زبان میں تعلیم کے تئیں دیگر ممالک کے جائزہ سے اندازہ ہوگاکہ اٹلی ، یونان ، فرانس اور جرمنی ہی نہیں کہ وہاںذریعہ تعلیم اطالوی ، یونانی ، فرانسیسی اور جرمن زبانیں ہیں بلکہ پولینڈ ، ہالینڈ ، ناروے ، اسپین ، چپکو سلو واکیہ ، یوگو سلاویہ ، کروشیا ، سربیا میں بھی انگریزی نہیں پولش،ڈچ ، ناروجین ، اسپینش ، چیک ، سلاؤ ، کروٹ اور سراب زبانوں میں تعلیم دی جاتی ہے۔ ان کے علاوہ ویت نام ، تھائی لینڈ ، جاپان ، ملیشیا، انڈونیشیا اور ترکی میں کسی غیر ملکی زبان میں تعلیم نہیں دی جاتی ،حتی کہ اعلی تکنیکی تعلیم کے لیے بھی مادری اور قومی زبان میں نظام تعلیم رائج ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان تما م زبانوں کے ذخیرہ میں تراجم کے نئے نئے پھول نظر آتے ہیں۔مادری زبان کے فروغ کے مدنظر21فروری1999سے بین الاقوامی سطح پر یوم مادری زبان منایا جاتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ملک عزیز ہندوستان میں نہ صرف کاغذی سطح پر بلکہ عملی طور پر مادری زبان میں تعلیم کا اہتمام کیا جائے ، تا کہ اس طریقہ کار کا بچوں کی تعلیمی سفر پر مثبت اثر ہو اور بچے ملک کے لیے قابل تقلید کام کرسکیں ۔
(مضمون نگار کے بی این یوگلبرگہ میں درس وتدریس کا فریضہ انجام دے رہیں)