نبا تاتی ادویہ : ماضی، حال اورمستقبل

0

ڈاکٹر محمد اقتدار حسین فاروقی
بیسویں صدی کے وسط کے دوران مغرب کی زبردست سائنسی اور صنعتی ترقی کے نتیجہ میں مصنوعی اشیاء اور مصنوعی ادویہ کے استعمال نے اتنی مقبولیت حاصل کر لی کہ قدرتی اشیاء اور نباتاتی دوائوں کی اہمیت تیزی سے ختم ہوتی نظر آئی۔ لیکن دو یاتین دہائیوں میں ہی یہ محسوس کیا جانے لگا کہ صنعتی طریقے سے بنائی گئی مصنوعات اور دوائیں یوں تودیکھنے میں اور اپنے اثر کے اعتبار سے یقینا اچھی معلوم پڑتی ہیں لیکن ان کے بنانے اور ان کے استعمال سے پیدا شدہ نقصانات (Side Affects)بھی بہت ہیں۔ مصنوعی رنگ۔ مصنوعی کپڑے، اورمصنوعی دوائوں کی بابت ساری دنیا میں بالعموم اور یورپ اور امریکہ میں بالخصوص یہ محسوس کیا جارہا ہے کہ ان کے مضر اثرات سے بچنا ہی بہتر ہے۔ لہٰذا ایک بار پھر سارے عالم کی توجہ نباتاتی ا شیاء￿ کی جانب مرکوز ہوتی چلی جارہی ہے، یا یوں کہا جائے کہ قدامت کی جانب لوٹنے کا رجحان حضرت انسان میں شروع ہوچکا ہے۔ سوتی کپڑوں کا استعمال، پودوں سے نکالے گئے رنگوں کا شوق، پھولوں سے حاصل کئے گئے عطریات کی خواہش اور نباتاتی ادویہ کی ضرورت اب صنعتی اعتبار سے ترقی یافتہ ممالک میں شدت سے محسوس کی جارہی ہے نتیجہ یہ ہوا کہ یورپ، امریکہ اور ایشیا کے متعدد ممالک ہندوستان سے کروڑوں روپئے کی مالیت کی جڑی بوٹیاں ہر سال منگانے لگے ہیں جن کو وہ دوا کے طور پر استعمال میں لاتے ہیں۔ مثال کے طور پر اسپغولPlantago)) کی مقبولیت کا یہ حال ہے کہ کم سے کم پانچ سو کروڑ روپئے کی مالیت کی یہ بھوسی ہر سال امریکہ (یو،ایس،اے) انگلینڈ، جرمنی، جاپان، آسٹریلیا اور سنگا پور اور سعودی عرب کو برآمد کی جاتی ہے۔ اسی طرح قسط کی جڑ(Costus)، ریحان(Sweet Basil)، میتھی(Fenugreek)، کلونجی(Black Cumin)، اور سناء￿ (Senna)کی پتی وغیرہ کی شہرت ان ممالک میں اتنی تیزی سے بڑھ رہی ہے کہ ان کی برآمد سے ملک کو قابل قدر زر مبادلہ دستیاب ہورہا ہے۔ ان جڑی بوٹیوں کے علاوہ نباتات سے حاصل کئے گئے مسالے جات اور گوند(Guar Gum, Karaya, Ghati Gum, Guggul Gum, Rosin etc بھی زر مبادلہ کا اہم ذریعہ بن گئے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پانچ ہزار کروڑ روپئے سے زیادہ کی مالیت کے یہ گوند) ہر سال ہندوستان سے بین الاقوامی منڈیوں کو بھیجے جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ چائے اور کافی جیسی غیر زراعتی اشیاء￿ اس کے علاوہ ہیں۔ جو ممالک ہندوستان سے بڑے پیمانے نباتاتی اشیاء￿ درا?مد پر کرتے ہیں۔ ان کے نام ہیں۔ جرمنی، انگلینڈ، امریکہ، سعودی عرب، کویت، مراکش، متحدہ عرب امارات، جاپان، عمان، ایران، عراق، یمن، افغانستان، تھائی لینڈ اور سنگا پور۔
نباتات سے حاصل کی گئی دوائیں یوں تو دنیا کے تقریباً سبھی علاقوں میں قدیم دور سے جانی جاتی رہی ہیں لیکن سب سے قبل چین ہندوستان، مشرق وسطی اور یونان میں ان ادویات کو ایک مکمل علم کی حیثیت دے دی گئی تھی۔ دو ہزار سال قبل مسیح جیوک جیسے ہندوستان کے ماہر طبیبوں نے زخموں کو مندمل کرنے والی Antiseptic جڑی بوٹیوں کا پتہ لگا لیا تھا۔ مقدس ویدوں میں مختلف انواع واقسام کے طبی پودوں کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ہے۔ رگ وید میں 67 ادویات کے تذکرے موجودہیں جب کہ یجروید میں 81نباتاتی دوائیں بیان کی گئی ہیں۔ اتروید میں تو 289 پودوں کا ذکر معہ ان کی تاثیر کے کیا گیا ہے، ان ویدوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ قدیم دور میں ہی ہندوستان علم نباتات برائے ادویات میں قابل قدر ترقی کر چکا تھا۔ اسی طرح نباتاتی طب میں قدیم یونان نے بھی زبردست ترقی کی تھی۔ جس کا علم ارسطو (Aristotle)، ڈائس کورائی ڈ س ( (Dioscorides، جالینوس (Galen) اور پلائنی (Pliny) جیسے عالموں کی تصانیف سے بخوبی ہوتاہے۔ تھیو فراسٹس (Theophrastus)نے 340سال قبل مسیح اپنی مشہور زمانہ تصنیف History of Plants میںبڑی تفصیل سے نباتاتی علم کو قلمبند کیا ہے۔
مشرق وسطیٰ کے متعلق سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہی وہ علاقہ ہے جہاں انسان وجود میں آیا اوریہی وہ علاقہ ہے جو کبھی نباتات کی جنت تھا۔ چارلس پکرنگ (Charles Picring) نے ایسے بے شمار پودوں کی ایک فہرست مرتب کی تھی جو غذا اور دوا کے لحاظ سے بہت اہم تھے اور جو چار ہزار سال قبل مسیح مصر اور مشرق وسطیٰ میں پائے جاتے تھے۔ ان میں قابل ذکر ہیں۔زیتون، انجیر، انار، کھجور، پستہ، بہی، اخروٹ، خوبانی، خرنوب، گیہوں، باجرہ، جو، مسور، پیاز وغیرہ۔۔ عربوں نے ان پودوں کے خواص کا بڑی گہرائی سے جائزہ لیا اوران کا علم ساری دنیا کو دیا۔ اس کے علاوہ یونانی اور ہندوستانی علم طب ونباتات کو مسلمانوںنے ایک ایسی سائنسی شکل عطا کی کہ جس سے آج کی ماڈرن میڈیسن بھی مستفید ہوئی ہے اور اسی لیئے بو علی سینا اور ذکر یہ رازی کے نام دنیاکی نباتاتی سائنس کے عالموں کی فہرست میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ان دونوں اطباء￿ کو یوروپ میں Avicennaاور Rhazesکے نام سے ا?ج بھی جانا جاتاہے۔ڈونالڈ کیمبل (مصنف (Arabian Medicine اور کچھ دیگر یوروپی علم طب کے مو?رخین نے خیال ظاہرکیاہے کہ سینا کی القانون (Tha Canon)اور رازی کی الحاوی (The Continens) کے دو ایسی تصانیف ہیں جو یوروپ کی طبی درس گاہوں میں سات سو سال تک پڑھائی گئیں اور جو موڈرن میڈیسنس میں نئی ادویہ کا ذریعہ بنیں۔ یہاں شاید اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ا?ج ایلوپیتھی سے متعلق جو دوائیں بازار میں دستیاب ہیں ان میں سے تیس فیصد دوائوں کا علم ان نباتات سے لیا گیا ہے، جن کاذکر اطباء￿ نے عہدِ وسطیٰ میں اپنی تصانیف میں کیاتھا۔ یوروپ کے ایک مو?رخ نے دعویٰ کیا ہے، کہ عہدِ وسطیٰ کے تقریبا چار سو اطباء￿ ایسے تھے جن کے علم اور تصانیف نے یوروپ کی طبی علم پر گہری چھاپ چھوڑی ہے، ان اطباء￿ کی طویل فہرست میں بو علی سینا اور رازی کے علاوہ جو نام سرِ فہرست ہیں وہ یوں ہیں: علی ابن ربان الطبری، ابوالقاسم الزہراوی، ابن زہر، ابن رشد، ابن بیطار ر، محمد اندلوسی ،ابن ابی عصیبیہ۔ابن طفیل۔ابن باجہ
آئیے اب ان نباتاتی طبی اور کیمیاوی اجزاء￿ کا ذکر کریں جن کی ایجاد یوں توزمانہ قدیم ہی میں دنیاکے مختلف علاقوں میں ہوگئی تھی لیکن سیکڑوں اور ہزاروں سال کے تجربات کے بعد اب وہ ہماری صحت اور دوائوں کالازمی حصہ بن گئے ہیں۔
افیم کادرخت جتنابد نام ہے اتنا ہی کار آمد بھی ہے۔ مصر اور Asia Minor کا یہ پودہ جواب چین اور ہندوستان سمیت نہ جانے کتنے ملکوں میں کاشت کیا جاتاہے مارفین نام کی Life Saving Drug کا واحد ذریعہ ہے۔ یہ لاکھوں انسانوں کو موت سے بچاتا ہے۔ Homer نے اپنی ناول Odyssey میں اس کا گیت بھی گایا ہے۔ یہ پودہ جو Papaver somniferum کہلاتا ہے مارفین(Morphine) اور کوڈین(Codein) کاذریعہ ہے جو بہترین دروکش ہونے کے ساتھ ساتھDrug addiction بھی پیدا کرتے ہیں۔ لہٰذا ان کے صحیح استعمال سے زندگیاں سنورتی بھی ہیں اور غلط استعمال سے زندگیاں برباد بھی ہوتی ہیں۔
جنوبی امریکہ کے Cinchona نام کے پودے نے علم طب میں ایک ایسا انقلاب بپا کیاجس کی مثال مشکل سے ملتی ہے کیونکہ اس سے نکالی گئی Quinineنے ملیریا جیسے مہلک مرض پر ایسی فتح پائی کہ ساری دنیا چین کی نیند سونے لگی اور مچھروں سے بے خوف ہوگئی۔
یورپ کا Atropa belladona نام کے پودے نے آنکھوں کے امراض پر قابو پانے میں بڑی مدد کی۔ اس سے حاصل کردہ Atropine نے آنکھ کے علاج اور آپریشن کے مسائل حل کردئے۔ یورپ کے ایک دوسرے پودہ Digtalis نے بھی انقلابی کام انجام دیا اور پیشاب آور دوائوں کی فہرست میں سب سے اہم مقام حاصل کرکے دل کے مریضوں کوراحت بخشی۔ اسی طرح ہندوستان کے سرپ گندھا یعنی Rauvolfia serpentina نامی پودے سے حاصل کردہ Reserpine نے دل کے مریضوں کو نئی زندگی بخشنے میں اہم رول ادا کیا۔
ادویاتی ضروریات کے لئے پودوں سے حاصل کردہ دوائوں کی ایجادات نسل انسانی پر ایک عظیم احسان ثابت ہوئی ہیں۔ ہزارسال قبل ایجاد اور دریافت کئے ہوئے سیکڑوں پودے اور ان کے اجزاء آج بھی اپنی اہمیت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ ایلوا (Aloes)۔مرمکی(Myrrh)– املی(Tamarind) ہینگ(Asafoetida) – لوبان(Olibanum)- ۔کافور (Campnor) – لونگ(Clove)- -کالی مرچ(Black Pepper)- بلساں (Balam)- عودAloewood)- سقمونیہ(Scammony)- ادرک(Ginger)- ہلدی Curcuma)- گوگل(Guggul)۔ پودینہ (Mint)- – سونف(Anise) غرضیکہ نہ جانے کتنے پودے ہیں جودنیا کے مختلف علاقوں میں صرف اس لئے دریافت ہوئے کیونکہ انسانوں نے ان کی اشد ضرورت محسوس کی۔ ماضی کی یہ ایجادات حال اور مستقبل کی انسانی صحت کی ضامن بن گئی ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ نہ جانے کتنی دوائیں ایسی ہیں جو غذا کادرجہ رکھتی ہیں اور بہت ساری غذائی اشیاء￿ دوائوں کاکام کرتی ہیں امریکہ میں حالیہ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ بہت سی غذائیں ایسی ہیں جن کا مستقل استعمال کینسر سے بچاتاہے۔ سائنس دانوں کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ صحیح غذا انسانوں میں ساٹھ فیصد تک کینسر میں کمی کا باعث بن سکتی ہے۔ اس تحقیق میں جن غذائی اشیاء کی بطور خاص نشاندہی کی گئی ہے ان میں ٹماٹر کے مستقل استعمال کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ ٹماٹر میں Lycopene نامی کیمیاوی جز ہوتا ہے جو بہترین Anti-oxidant ہے اور جسم میں کینسر پیداکرنے والے Free Radicals کو جسم میں ختم کرتا ہے۔ اسی طرح کینسر سے بچانے والی (Cancer-chemo protective potential) غذائی اشیاء میں سویا بین جس میں Genistein کی کافی مقدار ہوتی ہے۔ کینسر سے محفوظ رکھنے میں بہت اہم ہے۔ پھلوں میں انگور Resveratiol۔انار Anthocynin ۔انجیر اور آم Lupeol اور گاجر Bita-carotene کے ذرایعہ ہیں۔ اور یہ سارے کیمیاوی اجزاء انسان کو کینسر سے محفوظ رکھنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ Diallysulphide جو لہسن اور پیاز کا اہم جز ہیں کینسر دشمن کیمیاویٔ اجزاء ہیں۔ جن پھلوں اور ترکاریوں میں Apigenin نامی کیمیاوی اجزاء پائی جاتی ہیں وہ سبھی کینسر سے دور رکھنے میں مددگار ہوتی ہیںمزید برآں وہ پھل جن میں Coumarin پایا جاتا ہے وہ بھی Anti-cancer کے اعتبار سے اہم ہیں۔ ان میں Lavender اور Strawberry قابل ذکر ہیں۔ دراصل پھلوں کا استعمال انسان کو مہلک بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے کیونکہ ان میں جو وٹامن ہو تے ہیں وہ سبھی Anti oxidant کی صلاحیت رکھتے ہیں اور بیماریوں سے حفاظت کرتے ہیں۔
حالیہ سائنسی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ بعض غذائیں انسانی جسم میں فری ریڈیکل کو جنم دیتی ہیں جن سے لا علاج امراض پیدہ ہونے کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔ مثلاً بہت زیادہ مسالوں کے ساتھ پکا ہوا گوشت انتہائی نقصان دہ ہے۔ ایسی غذا میں Polycylic Aromatic Hydrocarbon ہوتے ہیں جو صحت پر برا اثر ڈالتے ہیں۔ ۔ جن ترکاریوں میں Safrole پایا جاتا ہے وہ بھی زیادہ استعمال سے نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ بازار میں بکنے والی پکی ہوئی غذائیں خاص طور سے بند ڈبوں میں محفوظ کی ہوئی غذائیں زیادہ دنوں تک استعمال میں لائی جاتی ہیں تو نقصان کرتی ہیں کیونکہ ان میں Nitrosamine نامی Preservative ہوتا ہے جو انتہائی نقصان دہ کیمیاوی جز ہے اورمختلف امراض کو جنم دیتا ہے۔ بہرحال آج کے معاشرہ میں صحت کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے اسی لئے ان غذائوں کو استعمال میں لایا جائے جو دوا کا بھی کام کریں اور وہ دوائیں استعمال ہوں جو غذا کا بھی کام کر سکیں۔
ایلوپیتھک دوائوں کی ایجاد اور انکی مقبولیت کے باوجود ا?ج بھی دنیا کے تقریباً تیس فیصد آبادی نباتاتی ادویہ پر انحصار کرتی ہے۔ خیال کیا جاتاہے کہ مستقبل میں نباتاتی ادویہ (Herbal Medicine) کا استعمال بہت تیزی سے بڑھنے والا ہے، فی ا لحال مغرب میں ان ادویہ کو متبادل دوائوں (Alternative Medicine) کا نام دیا گیا ہے۔
نباتاتی ادویہ کی اہمیت جتانے کا مطلب یہ بالکل نہیں ہے، کہ موڈرن میڈیسن کی افادیت سے یکسر انکار کردیاجائے، اور انکو ممنوعہ دوائیں تصور کیا جائے، مناسب تو یہ ہے کہ قدیم اور جدید طریقہ علاج کے درمیان توازن رکھتے ہوئے دونوںسے فائدہ اٹھایا جائے۔
[email protected]

 

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS